خبریں

ملک کے مختلف تعلیمی اداروں کے 33 ماہرین تعلیم نے این سی ای آر ٹی کی نصابی کتابوں سے اپنا نام ہٹانے کو کہا

یہ ماہرین تعلیم اور سیاسیات کے ماہرین، جو مختلف سطحوں پر این سی ای آر ٹی کی نصابی کتابوں کی تیاری کے عمل میں شامل رہے ہیں، کا کہنا ہے کہ کونسل کی طرف سے ان کتابوں میں کی گئی تبدیلیوں کے بعد، وہ یہ دعویٰ نہیں کر سکتے کہ یہ ان کی تیار کردہ کتابیں ہیں۔

این سی ای آر ٹی کی سیاسیات کی کتابیں۔ (بہ شکریہ: ٹوئٹر)

این سی ای آر ٹی کی سیاسیات کی کتابیں۔ (بہ شکریہ: ٹوئٹر)

نئی دہلی: 33 ماہرین تعلیم اور سیاسیات کے ماہرین کے ایک گروپ نے، جو مختلف مراحل میں نیشنل کونسل آف ایجوکیشنل ریسرچ اینڈ ٹریننگ (این سی ای آر ٹی) کی ٹیکسٹ بک ڈیولپمنٹ کمیٹی کا حصہ رہے ہیں، کونسل کو لکھے ایک خط میں کہا ہے کہ حال ہی میں کی گئیں’یکطرفہ’ تبدیلیوں کی وجہ سے ان کے نام سیاسیات کی نصابی کتابوں سے ہٹا دیے جانے چاہیے، جن میں انھوں نے تعاون کیا تھا۔

رپورٹ کے مطابق، ماہرین تعلیم کا کہنا ہے کہ مختلف خیالات کے باوجود، انہوں نے ‘سیاسیات میں اسکول کی نصابی کتابوں کا قابل ذکرسیٹ’ بنانے کے لیے مل کر کام کیا تھا۔ تاہم، اب این سی ای آر ٹی نے ان نصابی کتابوں میں بہت سی اہم تبدیلیاں کی ہیں اور بہت سے ابواب/حصوں کو ہٹا دیا ہے۔

ان کے خط میں کہا گیا ہے، کون یہ طے کرتا ہے کہ کیا ناقابل قبول ہے اور کتابوں میں کیا ہونا چاہیے، اس بات کوشفافیت کے بنیادی اصولوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پردے کے پیچھے رکھا گیا ہے۔

مزید لکھا گیاہے کہ،’چونکہ اصل متن میں کئی  ترامیم کی گئی ہیں، جس سے وہ اصل نصابی کتابیں الگ ہی کتابوں میں بدل دی گئی ہیں، اس لیے ہمارے لیے یہ دعویٰ کرنا ہے کہ یہ وہی کتابیں ہیں جو ہم نے تیار کی تھیں، اور ان  کے ساتھ ہمارا اپنانام جوڑنا مشکل لگتا ہے۔

قابل ذکر ہے کہ اس سے قبل ماہر تعلیم سوہاس پالشیکر اور سماجی کارکن یوگیندر یادو نے کونسل سے سیاسیات کی نصابی کتاب سے ‘خصوصی صلاح کار’ کے طور پر درج ان کا نام  ہٹانے کو کہا تھا۔

پالشیکر اور یادو 2006 میں شائع ہونے والی این سی ای آر ٹی کی سیاسیات کی نصابی کتابوں کے خصوصی صلاح کار  تھے اور ان کامطالبہ ہے  کہ اب ترمیم شدہ کتابوں سے ان کے نام ہٹا دیے جائیں۔ انہوں نے اپنے خط میں کہا کہ ،یہ ہمارے لیے شرمندگی کا سبب ہے کہ ہمارے نام ان مسخ شدہ اور تعلیمی طور پر بے معنی  نصابی کتابوں کے خصوصی صلاح کار کے طور پر لیے جا رہے ہیں۔

تاہم کونسل نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا۔

غور طلب ہے کہ گزشتہ مئی میں این سی ای آر ٹی نے 12ویں جماعت کی سیاسیات کی نصابی کتاب سے ‘ایک الگ سکھ قوم’ اور ‘خالصتان’ کے حوالہ جات کو ہٹانے کا اعلان کیا تھا۔ اس سے پہلےاین سی ای آر ٹی نے نصابی کتابوں سے کچھ حصوں کو ہٹانے کے تنازعہ کے درمیان بھارتیہ کسان یونین (بی کے یو) کی کسانوں کی مقبول تحریک سے متعلق حصہ کو بھی ہٹا دیا تھا۔

اس تحریک کا تذکرہ 12ویں جماعت کی سیاسیات کی نصابی کتاب میں’رائز آف پاپولر موومنٹس’ کے عنوان سے ایک باب میں کیا گیا تھا۔ ہٹائے گئے حصے میں بتایا گیا  تھاکہ یونین 80 کی دہائی کی کسان تحریک میں سرکردہ تنظیموں میں سے ایک تھی۔

اسی طرح این سی ای آر ٹی کی11ویں جماعت کی سیاسیات کی نصابی کتاب ‘انڈین کانسٹی ٹیوشن ایٹ ورک’ کے پہلے باب سے ملک کے پہلے وزیر تعلیم مولانا ابوالکلام آزاد کا حوالہ اور اسی کتاب کےایک باب میں مذکور جموں و کشمیر کے ہندوستان کے ساتھ انضمام کی وہ شرط ہٹا دی گئی  ہے، جس میں آئین کے آرٹیکل 370 کے تحت خود مختاری کوبرقرار رکھنے کی بات کہی گئی تھی۔

اس کڑی میں 12 ویں جماعت کی تاریخ کی کتابوں سے مغلوں اور 2002 کے گجرات فسادات پر مواد کو حذف کرنا اور مہاتما گاندھی پر کچھ حصوں کو حذف کرنا شامل ہے۔

ان 33 ماہرین تعلیم کا مکمل خط اور ان کے نام یہاں پڑھے جا سکتے ہیں۔