فکر و نظر

شمال–مشرقی ریاست منی پور میں تشدد کی لہر

منی پور میں  ویسے تو امن کی صورتحال ہمیشہ ہی خراب رہی ہے۔ مگر  وزیر اعظم نریند ر مودی اور ان کے دست راست امت شاہ نے مکر و فریب کا سہار ا لےکر ایک ایسا امن قائم کرنے میں کامیابی حاصل کی تھی جو بس اپنے آپ کو دھوکہ دینے کے مترادف تھا۔ حقیقی امن کے لیے کوششیں کرنے کے بجائے، مختلف گروپوں کو الجھا کر وقتی سیاسی فائدے حاصل کرنے کے کام کیے گئے۔

وزیر اعظم نریندر مودی اور پس منظر میں منی پور میں تشدد کے مناظر۔

وزیر اعظم نریندر مودی اور پس منظر میں منی پور میں تشدد کے مناظر۔

ہندوستان کی شمال–مشرقی ریاست منی پور میں پچھلے ایک ماہ کے دوران تقریباً 150کے قریب افراد تشد آمیز واقعات میں جاں بحق ہو گئے ہیں۔ اس کے علاوہ فوج اور نیم فوجی تنظیموں پر بھی حملوں کی متواتر خبریں موصول ہو ر ہی  ہیں۔ نظم و نسق کی صورت حال اتنی ابتر ہو چکی ہے کہ پولیس تھانوں اور نیم فوجی تنظیموں کے اسلحہ خانوں سے 4500کے قریب بھاری اور دیگر اسلحہ لوٹا گیا ہے۔

غالباً1993میں پہلی بار مجھے اس صوبہ میں جانے کا اتفاق ہو ا تھا۔ ان دنوں صوبہ میں بدترین ہندو مسلم فسادات رونما ہو ئے تھے، جن میں تقریباً سو  افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ دہلی سے آسام کے سب سے بڑے شہر گوہاٹی اور پھر وہاں  سے پورے دن کی مسافت کے بعد منی پور کے دارالحکومت امپھال کا سفر تھکا دینے ولا، مگر نظاروں سے بھر پور تھا۔

ان دنوں تنازعہ وادی امپھال میں رہنے والے میتیئی قبیلوں کے ہی دو گروپوں کے درمیان تھا۔ میتیئی قبیلہ کا ایک گروپ جن کو مقامی طور پر پانگل کہتے ہیں، مسلمان ہیں۔ جبکہ میتیئی قبیلہ کی اکثریت ہندو مت سے تعلق رکھتی ہے۔ وادی سے نکلتے ہی پہاڑو ں کا ایک وسیع سلسلہ شروع ہوتا ہے، جہاں کُکی اور ناگا قبائلی آ باد ہیں۔ ان میں اکثریت عیسائیوں کی ہے۔

خوبصورت نظاروں، پانی کی فراوانی، ہریالی کی وجہ سے یہ خطہ کشمیر کا عکس لگتا ہے۔ ہر قدم پر ڈھلوانوں پر چائے کے وسیع و عریض باغات نظر آتے ہیں۔ اس خطے میں سات ریاستیں ہیں، جن میں منی پور، تری پورہ، آسام، میزورم ، اروناچل پردیش، ناگالینڈ اور میگھالیہ شامل ہیں۔ میگھالیہ کے ہی ایک گاؤں ماوسن رام میں سب سے زیادہ بارش ہوتی ہے۔

جس پہاڑی پر یہ گاؤں واقع ہے اسی کے دوسری طرف ایشیاء کا سب سے صاف و شفاف ترین گاؤں ماولن اونگ ہے اور اسی کے متصل بنگلہ دیش کی سرحد کو چھوتا ہوا صاف ترین دریادوکی یا اومن گوٹ ہے۔ اس میں اگر چنے یا خشخاش کا دانہ ڈالا جائے تو تہہ تک جاتے ہوئے صاف نظر آتا ہے۔ اس میں کشتی میں بیٹھ کر سیر کرنے کا ایک الگ ہی تجربہ ہے۔

نادانی میں ان صوبوں کو کچھ لوگ سات بہنیں کہتے ہیں۔ مقامی افراد اس کا خاصا برا مناتے ہیں۔ کیونکہ ان کے درمیان یکسانیت یا مشترکہ کوئی چیز نہیں ہے۔ اس علاقے میں تقریبا 230 کے قریب مختلف قبائل اپنی انفرادیت لیے آباد ہیں، بسا اوقات ایک دوسرے کے ساتھ برسرپیکار رہتے ہیں۔

ان سات صوبوں میں میگھالیہ میں 74فیصد، ناگالینڈ میں 87.93فیصد، میزورم میں 87.16فیصد عیسائی آبادی ہے۔ اروناچل پردیش میں بھی 30فیصد اور منی پور میں 40فیصد آبادی عیسائی ہے۔ صرف تری پورہ اور آسام ہی ہندو اکثریتی  علاقے ہیں۔

اس خطے کی ایک اور خصوصیت یہ ہے کہ ہندوستان میں سب سے زیادہ انگریزی بولنے اور سمجھنے والے اسی خطے میں آباد ہیں۔ ناگالینڈ کی 32  فیصد اور منی پور کی 31 فیصد آبادی ایسی ہے، جو مردم شماری میں انگریزی کا بطور پہلی یا دوسری زبان کے اندراج کرواتے ہیں۔

اس خطے کے ساتھ میرا یہ تعلق بھی رہا کہ دہلی میں کشمیر ٹائمز کے بیورو میں کام کرنے کی وجہ سے چونکہ وزرات داخلہ کو کور کرنا پڑتا تھا، اکثر اوقات سکریٹری داخلہ یا دیگر افسران کشمیر اور شمال مشرق پر ایک ساتھ ہی بریفنگ دیتے تھے ۔ اس وجہ سے اس خطے کے ساتھ غیر محسوس طریقے سے وابستہ ہوتا گیا۔ اس کے علاوہ اس دورا ن آسام ٹریبون کے دہلی کے نمائندے آنجہانی کلیان بروآ کے ساتھ ایک تعلق سا بن گیا۔

چونکہ ہم دونوں اپنے اخبارات کے اکیلے نمائندے تھے، اس لیے ہم نے پا رلیامنٹ اور پھر وزارت داخلہ کو کور کرنے کی ذمہ داری آپس میں بانٹی تھی۔ ایک دن وہ لوک سبھا کی پریس گیلری تو میں راجیہ سبھا کی پریس گیلری میں بیٹھتا تھا۔

دوسرے د ن ڈیوٹیاں تبدیل کرتے تھے۔ اس نے جو کچھ کشمیر پر نوٹ کیا ہوتا تھا، وہ مجھے لکھواتا تھا، میں اس کے لیے شمال مشرق کی خبروں کی کھوج کیا کرتا تھا۔ بروآ ور پھر شیلانگ ٹائمزکے دہلی کے بیورو چیف سی کے نائک کی بدولت اس علاقہ کے دورے کرنے کے کئی مواقع ملے۔

عیسائی آبادی ہونے کے باوجود اس خطے کی چار ریاستوں یعنی اروناچل پردیش، تری پورہ، منی پور اور آسام میں ہندو قوم پرست بھارتیہ جنتا پارٹی برسراقتدار ہے۔ اس خطے میں اس کا ایک الگ ہی چہرہ ہے۔ اس علاقے میں گائے کشی پر پابندی کی حمایت کرتی ہے نہ ہندو دیوی دیوتاوں کے نام پر ووٹ مانگتی ہے۔اس علاقے میں اس کا انتخابی نعرہ غیر ملکیوں یا بنگلہ دیشی دراندازوں کو باہر کرنے کا ہے۔

اس علاقے میں رہنے والے قبائلی شناخت اور آبادی کے حوالے سے نفسیاتی دباؤکا شکار ہیں۔ چونکہ شمال مشرق میں بنگالی سب سے بڑی نسلی قوم ہے، جو ہندوستان کے مغربی بنگال سے بنگلہ دیش تک پھیلے ہوئے ہیں، اس لیے ان قبائلیوں کو سب سے زیادہ خطرہ ان سے ہی محسوس ہوتا ہے۔ جس کا بی جے پی خاطر خواہ انتخابی فائدہ اٹھاتی ہے۔

یہ بھی خبریں آتی رہتی ہیں کہ اس کے مقامی لیڈرا ن کئی صوبو ں میں عسکری تنظیموں کے ساتھ بھی سانٹھ گانٹھ رکھتے ہیں۔ دراصل اس علاقے میں کانگریس کے ساتھ مقامی لوگوں کو وہی شکایتیں ہیں، جو کشمیر میں ہوتی تھیں۔ اس کا توڑ کرنے کے لیے وہ بی جے پی کو ایک قابل قدر متبادل کے بطور دیکھتی تھیں۔

خیر ذکر منی پور کا ہو رہا تھا۔ اس کی سرحدیں میانمار کے دو علاقوں، مشرق میں ساگانگ علاقہ اور جنوب میں چن ریاست سے ملتی ہیں۔جس طرح کئی دہائی قبل پاکستان اور افغانستان کی سرحد کھلی ہوتی تھی، یہی حال یہاں بھی سرحد کا چند ماہ قبل تک تھا۔ آپ صبح سویرے سر پر جتنا مال سر پر اٹھا سکتے ہوں بغیر کسی پاسپورٹ یا پرمٹ کے میانمار جا کر اس کو بیچ کر شام کو واپس آسکتے ہیں۔

کشمیر کی طرح منی پور بھی ہزاروں سالوں سے ایشیائی اقتصادی اور ثقافتی تبادلے کا سنگم رہا ہے۔ جہاں کشمیر وسط ایشیاء اور جنوبی ایشیا ء کی ایک کڑی ہے، منی پور مشرقی ایشیاء اور جنوبی ایشیاء کا سنگم ہے۔1947  تک کشمیر کی طرح  ہی منی پور بھی برطانوی عملداری کے تحت ایک آزاد ریاست تھی۔ 11 اگست 1947 کو، مہاراجہ بدھ چندر نے الحاق کی دستاویز پر دستخط کرکے انڈین یونین میں شمولیت اختیار کی۔

اس علاقہ میں تنازعہ کا آغاز ستمبر 1949 کو ہوا، جب مہاراجہ نے ہندوستان کے ساتھ انضمام کے ایک معاہدے پر دستخط کیے۔ بتایا گیا مقامی قبائلی زعما سے صلاح و مشورہ کیے بغیر ہی انضمام کیا گیا۔ یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ مہاراجہ سے انضمام کے کاغذ پر زبردستی دستخط لیے گئے۔

وادی میں رہنے والے اکثریتی میتیئی قبیلہ کی اکثریت آزاد ریاست کی خواہاں ہے۔جبکہ پہاڑوں میں کُکی قبیلہ منی پور کو تقسیم کرکے اپنا ایک الگ  علاقہ چاہتے ہیں۔جیسا کہ جموں و کشمیر میں بدھ اکثریتی لیہہ کا مطالبہ تھا۔ ان ہی پہاڑوں میں ناگا قبیلہ اس علاقہ کا انضمام پاس کے صوبہ ناگا لینڈ سے کرکے وسیع ناگا لینڈ بنانے کا مطالبہ کرتا رہتا ہے۔

اسمبلی میں فی الوقت 60سیٹیں ہیں، جبکہ40پر میتیئی قبیلہ کی اکثریت ہے، بقیہ دس، دس سیٹیں بالترتیب کُکی اور ناگا کے حصہ میں آتی ہیں۔مسلمانوں کی آبادی تقریباً8فیصد کے لگ بھگ ہے۔ وہ میتیئی زبان ہی بولتے ہیں۔ بتایا جاتا ہے  کہ مسلمانوں کی اکثریت 17 ویں صدی میں مغل شہزادے شاہ شجاع کے ساتھ وارد ہو گئی تھی۔ شہنشاہ اورنگ زیب کے عتاب سے بچنے  کے لیے اس کے بھائی شاہ شجاع نے منی پور میں پناہ لی تھی۔

خیر چند تاریخ دانوں کا کہنا ہے کہ مختلف ادوار میں جیسے برما یا میانمار سے اراکان، بنگالی، کاچھر اور پھر خود منی پور میں اسلام قبول کرنے والوں کے درمیان اختلاط سے ایک نئی نسل وجود میں آئی، مگر انہوں نے اپنے آپ کو اکثریتی آباد ی کے ساتھ ضم کرکے ان کی ہی زبان کو اپنایا۔ جس میں پہلی بار 1993میں دراڑ پڑ گئی تھی۔

اس پورے خطے میں 230قبائلی گروپوں میں 43قبائلیوں کو درج فہرست قبائل کا درجہ حاصل ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کے لیے نوکریوں اور اعلیٰ تعلیمی اداروں میں کوٹا کی سہولیت مہیا ہے۔ اس کے علاوہ ان کی زمینوں کی حفاظت حکومت کی ذمہ داری ہے۔ منی پور میں یہ سہولیت کُکی قبیلہ کو حاصل ہے۔ میتیئی قبیلہ اس سہولیت کی خاطر کئی دہائیوں سے برسرپیکار تھا۔

مئی میں ہائی کورٹ نے حکم دیا کہ کہ ان کو درج فہرست درجہ دینے کی درخواست پر عمل کیا جائے۔ جس کی کُکی قبیلہ نے بھر پور مخالفت کی۔ کیونکہ ان کو لگا کہ ایک تو ان کا کوٹا میتیئی قبیلہ لے جائیگا۔ میتیئی قبیلہ گو کہ اکثریت میں ہے، مگر وہ صرف 10 فیصد زمین تک محدود ہے۔ غیر درج فہرست  قبائلی ہونے کے ناطے وہ پہاڑیوں میں زمین نہیں خرید سکتے۔

اب اس فیصلہ کے بعد وہ ریاست کے بقیہ 90 فیصد علاقے میں پاؤں پسار سکتے تھے۔ کُکی قبیلہ نے ہائی کورٹ کے فیصلہ کے خلاف  3 مئی کو احتجاج کی کال دی، جس کے رد عمل میں میتیئی قبیلہ میدا ن میں آگیا اور نسلی تشدد بھڑک اٹھا۔ جس کی آگ ابھی تک ٹھنڈی ہونے کا نام نہیں لے رہی ہے۔ فسادات میں ہلاکتوں کے علاوہ  60  ہزار سے زائد افراد بے گھر ہو گئے ہیں۔ اس کے علاقہ سینکڑوں عبادت گاہیں جلائی گئی ہیں۔

نوآبادیاتی دور میں، انگریزوں نے جان بوجھ کر پہاڑوں کی انتظامیہ کو میدانی علاقوں سے الگ کر کے پہاڑی وادی کی تقسیم متعارف کروائی۔بعد میں مذہبی تقسیم نے معاملات کو مزید الجھا دیا۔ جہاں میتیئی نے ہندو مت کی شاخ وشنو مت کو اپنایا جس کی سرپرستی ان کے بادشاہوں نے کی۔ منی پور اور پہاڑی لوگوں کو مشنریوں نے عیسائی بنادیا۔ ان کو پہاڑی علاقوں میں کام کرنے کی اجازت دی گئی۔

اس علاقے میں ان گنت عسکری گروپ بھی سرگرم ہیں۔ جن میں  ریولوشنری پیپلز فرنٹ (آر پی ایف)، منی پور لبریشن فرنٹ آرمی (ایم ایل ایف اے)، کنگلی یاول کنبا لوپ (کے وائی کے ایل)، ریولوشنری جوائنٹ کمیٹی، پیپلز یونائیٹڈ لبریشن فرنٹ (پی یو ایل ایف)، منی پور ناگا پیپلز فرنٹ (ایم این پی ایف)یونائیٹڈ کُکی لبریشن فرنٹ (یو کے ایل ایف)، کُکی نیشنل فرنٹ (کے این ایف)، کُکی نیشنل آرمی (کے این اے)، کُکی ڈیفنس فورس (کے ڈی ایف) ، کُکی ڈیموکریٹک موومنٹ (کے ڈی ایم)، کُکی نیشنل آرگنائزیشن (کے این او)، کُکی سکیورٹی فورس (کے ایس ایف)، چن کُکی ریولوشنری فرنٹ (سی کے آر ایف) کوم ریم پیپلز کنونشن وغیرہ قابل ذکر ہیں۔

ہندوستان کے موخر تژرویراتی تحقیقی ادارہ انسٹی ٹوٹ آف ڈیفنس انالسس میں محقق پشپتا داس کے مطابق جہاں ہائی کورٹ کا فیصلہ فوری تشدد کا محرک بنا، وہیں میتیئی اکثریت والی ریاستی حکومت کے خلاف کافی عرصے سے کُکی برادری میں غصہ بھڑک رہا تھا۔ منی پور حکومت نے پچھلے کچھ مہینوں میں کچھ ایسے اقدامات اور فیصلے کیے ہیں، جس سے کُکی برادری میں امتیازی سلوک اور عدم تحفظ کا احساس پیدا ہوگیا تھا۔

وزیر اعلیٰ بیرین سنگھ یہ دعویٰ کرتے رہے ہیں کہ میانمار سے بہت سے غیر قانونی تارکین وطن ریاست میں آباد ہوئے ہیں۔ جس کی وجہ سے ان کی حکومت نے مبینہ طور پر میانمار کے ساتھ فری رجیم موومنٹ (ایف ایم آر) کو معطل کر کے میانمار سے 410 ‘غیر قانونی تارکین وطن’ کو حراست میں لے لیا۔ مزید برآں، بیرین سنگھ حکومت نے ریزرو جنگلات، محفوظ علاقوں میں رہنے والے مکینوں کو بے دخل کرنے کے لیے نوٹس بھی بھیجے۔

اس دوران دیہاتیوں اور پولیس اہلکاروں کے درمیان جھڑپیں ہوئیں۔ کُکی قبیلہ نے تجاوزات کے نام پر اس مہم کو اپنی برادری کے خلاف کارروائی سے تعبیر کیا۔کُکی قبیلہ میانمار میں رہنے والے چن قبیلہ کا ہمعصر ہے۔ دونوں میں برادری اور رشتہ داریاں قائم ہیں اور صدیوں سے وہ سرحدیں عبور کرکے ایک دوسرے کے علاقو ں میں آتے رہتے ہیں۔

اس کے علاوہ، منی پور حکومت نے 2017 میں ریاست میں ‘منشیات کے خلاف مہم بھی شروع کی تھی۔ اکھرول، سیناپتی، کانگپوکپی، کامجونگ، چوڑا چاند پور اور ٹینگنوپال اضلاع کی پہاڑیوں کو خاص طور پر نشانہ بنایا گیا تھا کیونکہ پوست کی بڑے پیمانے پر غیر قانونی کاشت کی جا رہی تھی۔ پوست کی ناجائز کاشت کو زبردستی تلف کرنے اور دیہاتیوں کی گرفتاریوں کو، تاہم، کُکی برادری  اپنی روزی روٹی سے محروم کر نے کی سازش کی طور پر دیکھ رہی تھی۔

ریاستی حکومت کا دعویٰ ہے کہ کہ کُکی مظاہرین کو عسکریت پسند تنظیموں خصوصاً کوکی نیشنل آرمی (کے این اے) اور زومی ریوولیوشنری آرمی (زیڈ آر اے) سے مدد مل رہی ہے۔ درحقیقت،حکومت اور عسکریت پسند گروپوں کے درمیان 2016  سے امن مذاکرات چل رہے تھے اور ایک سیز فائر کے معاہدہ پر عمل ہو رہا تھا۔  10مارچ 2023 کو، بیرین سنگھ حکومت نے کُکی عسکریت پسند تنظیموں کے ساتھ سہ فریقی سسپنشن آف آپریشنزیعنی سیز فائر سے  دستبردار ہونے کا فیصلہ کیا۔

اس معاہدے سے یکطرفہ دستبرداری نے نہ صرف کُکی برادری کو تذبذب میں مبتلا کیا، بلکہ کُکی عسکریت پسندی کے مسئلے کے حل پر بھی سوالیہ نشان لگا دیا۔ اس سیز فائر اور مذاکرات نے کُکی کمیونٹی میں امیدیں پیدا کی تھیں کہ ان کے مطالبات کے بعد ایک علیحدہ کُکی لینڈ کا مطالبہ پورا کیا جائے گا۔

درحقیقت اس امید نے انہیں 2022 کے منی پور انتخابات کے دوران بی جے پی کی حمایت کرنے پر اکسایا تھا۔ بتایا جاتا ہے کُکی عسکری گروپوں نے پہاڑی علاقوں میں بی جے پی کو ووٹ دینے کے لیے اپیل کی تھی۔ ان کو بتایا گیا تھا کہ مرکزی حکومت ایک کُکی لینڈ علاقائی کونسل کو قبول کرنے تیار ہے۔ تاہم، ریاستی حکومت جس میں میتیئی کا غلبہ ہے، کُکی لینڈ علاقائی کونسل کے قیام کے خلاف ہے کیونکہ وہ اسے ایک علیحدہ ککُی ریاست کے قیام کی طرف پہلا قدم سمجھتے ہیں۔

منی پور میں  ویسے تو امن کی صورتحال ہمیشہ ہی خراب رہی ہے۔ مگر  وزیر اعظم نریند ر مودی اور ان کے دست راست امت شاہ نے مکر و فریب کا سہار ا لےکر ایک ایسا امن قائم کرنے میں کامیابی حاصل کی تھی، جو بس اپنے آپ کو دھوکہ دینے کے مترادف تھا۔ حقیقی امن کے لیے کوششیں کرنے کے بجائے، مختلف گروپوں کو الجھا کر وقتی سیاسی فائدے حاصل کرنے کے کام کیے گئے۔

یہ صرف شمال مشرق کا حال نہیں، بلکہ اس حکومت کا رویہ دیگر خطوں کے ساتھ بھی ایسا ہی رہا ہے۔ بجائے اس کے کہ کوئی حل نکالا جاتا، ان کو شمال مشرق سے کانگریس کو بے دخل کرکے حکومتیں بنانے کی جلدی تھی۔ یہ گڑھا اب بیچ چوراہے پر ٹوٹ چکا ہے۔کیا ہی اچھا ہوتا کہ منی پور کے حالات و واقعات سے سبق حاصل کرکے مودی حکومت سیاسی معاملات کا تصفیہ کرنے کی طرف قدم بڑھائے۔