خبریں

پی ایم  فرقہ وارانہ تشدد بھڑکانے کے لیے یونیفارم سول کوڈ کا استعمال کرنا چاہتے ہیں: اسٹالن

وزیر اعظم نریندر مودی کی جانب سےیکساں سول کوڈ کی حمایت پر تمل ناڈو کے وزیر اعلیٰ ایم کے اسٹالن نے کہا کہ وہ فرقہ وارانہ کشیدگی اور امن و امان کے مسائل پیدا کرنا  چاہتے ہیں۔ ان کی سوچ ہے کہ وہ اس سے اگلا انتخاب جیت سکتے ہیں۔

تمل ناڈو کے وزیر اعلیٰ ایم کے اسٹالن، فوٹو بہ شکریہ: فیس بک پیج

تمل ناڈو کے وزیر اعلیٰ ایم کے اسٹالن، فوٹو بہ شکریہ: فیس بک پیج

نئی دہلی: وزیر اعظم نریندر مودی کی جانب سے یکساں سول کوڈ (یو سی سی) کی حمایت کرنے کے بعد تمل ناڈو کے وزیر اعلیٰ اور ڈی ایم کے سپریمو ایم کے اسٹالن نے جمعرات کو کہا کہ انہوں نے ایسا صرف فرقہ وارانہ تشدد کو بھڑکانے اور اگلے سال لوک سبھا انتخابات جیتنے کے لیے کیا ہے۔

دی ہندو کے مطابق، ایک تقریب میں اسٹالن نے کہا، وہ کہتے ہیں کہ ملک مختلف مذاہب کے لیے الگ الگ قوانین کے دوہرے نظام کے ساتھ نہیں چل سکتا۔ وہ فرقہ وارانہ کشیدگی اور امن و امان کا مسئلہ پیدا کرنا چاہتے ہیں ۔انہیں لگتا ہے کہ وہ اپنے منصوبوں سے اگلا الیکشن جیت سکتے ہیں۔ لیکن میں پورے یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ عوام بی جے پی کو سبق سکھانے کوتیار ہے۔

انہوں نے مرکز سے مطالبہ کیا کہ وہ تمل ناڈو میں دراوڑی ماڈل حکومت کی طرز پر حکومت بنانے کے مقصد کی سمت میں کام کرے۔ انہوں نےمودی کے اس الزام پر کہ ‘اگر لوگوں نے ڈی ایم کے کو ووٹ دیا تو کروناندھی کا خاندان ترقی کرے گا’،یہ کہا کہ ، ‘تامل اور تمل ناڈو کروناندھی کا خاندان ہے۔ ریاست میں دراوڑ پارٹیاں50 سال سے برسراقتدار ہیں۔ وزیر اعظم کو اپنے خیالات کا اظہار کرنے سے پہلے تمل ناڈو کے 50 سالوں کی حصولیابیوں  اور ترقی کو ذہن میں رکھنا چاہیے۔ یہ کلیگنار (کرونا ندھی) ہی تھے جنہوں نے جدید تمل ناڈو بنایا۔

قابل ذکر ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی نے گزشتہ منگل کو مدھیہ پردیش میں ‘میرا بوتھ سب سے مضبوط ہے’ مہم کے تحت بی جے پی کارکنوں سے خطاب کرتے ہوئے یو سی سی کی پرزور وکالت کرتے ہوئے سوال کیا تھا کہ ‘دوہرے نظام کے ساتھ ملک کیسے چلے گا؟ اگر لوگوں کے لیے دو مختلف اصول ہوں تو کیا ایک خاندان چل سکتا ہے؟ پھر ملک کیسے چلے گا؟ ہمارا آئین بھی تمام لوگوں کو مساوی حقوق کی ضمانت دیتا ہے۔

اپوزیشن جماعتوں نے ان کے بیان پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ وزیر اعظم کئی محاذوں پر اپنی حکومت کی ناکامی سے توجہ ہٹانے کے لیے تفرقہ انگیز سیاست کا سہارا لے رہے ہیں۔ مسلم تنظیموں نے بھی یو سی سی پر وزیر اعظم کے تبصرے کو غیر ضروری بتایا تھا۔

غور طلب ہے کہ یکساں سول کوڈ بھارتیہ جنتا پارٹی کے اہم ایشوز میں سے ایک رہا ہے۔ یہ 2014 اور 2019 کے لوک سبھا انتخابات میں بی جے پی کے بڑے انتخابی وعدوں میں سے ایک تھا۔ اتراکھنڈ کے علاوہ مدھیہ پردیش، آسام، کرناٹک اور گجرات کی بی جے پی حکومتوں نے اسے نافذ کرنے کی بات کہی تھی۔

اتراکھنڈ اور گجرات جیسی بی جے پی مقتدرہ ریاستوں نے اس کے نفاذ کی سمت میں  قدم اٹھائے ہیں۔ نومبر-دسمبر 2022 میں ہوئے گجرات اور ہماچل پردیش اسمبلی انتخابات میں بھی یکساں سول کوڈ کا نفاذ بی جے پی کے اہم ایشوز میں سے ایک تھا۔

معلوم ہو کہ یکساں سول کوڈ کا مطلب ہے کہ تمام لوگ خواہ کسی بھی خطے یا مذہب سے تعلق رکھتے ہوں، شہری قوانین کے ایک سیٹ کے پابند ہوں گے۔

یکساں سول کوڈ سے مراد ذاتی معاملات جیسے کہ شادی، طلاق، گود لینے اور وراثت کے لیے تمام شہریوں کے لیےقوانین کا یکساں مجموعہ ہے،خواہ وہ کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتے ہوں۔ اس وقت ملک میں مختلف مذاہب کے لیے الگ الگ پرسنل لاء ہیں۔