مہاراشٹر کے جلگاؤں ضلع کے ایرنڈول تعلقہ میں واقع جمعہ مسجدوقف بورڈ کی جائیدادکے طور پررجسٹرڈ ہے، جس کے بارے میں دائیں بازو کے شکایت کنندہ کا دعویٰ ہے کہ یہ ہندو عبادت گاہ کی جگہ پر بنائی گئی تھی۔ کلکٹر کی جانب سے دفعہ 144لاگو کرتے ہوئے احاطے میں نماز پڑھنے پر پابندی عائد کرنے کے احکامات پر سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔
ممبئی: جہاں تک اسلم کو یاد ہے، مسلم کمیونٹی کے لوگ مہاراشٹر کے جلگاؤں ضلع کے ایرنڈول تعلقہ میں واقع جمعہ مسجد کے اندر دن میں پانچ وقت کی نماز ادا کرنے کے لیے جمع ہوتے رہے ہیں۔ 800 سال پرانی یہ عمارت شمالی مہاراشٹر میں ایک اہم مذہبی مقام ہے اور وقف بورڈ کی جائیداد کے طور پر رجسٹرڈ ہے۔
لیکن دائیں بازو کی ایک تنظیم کی جانب سے دائر شکایت پرشنوائی کرتے ہوئے ضلع کلکٹر کے ذریعے عبوری پابندی کے حکم کے بعد اچانک سےیہ مسجد کمیونٹی کے لوگوں کی رسائی سے دور ہوگئی ہے۔
کلکٹر نے ضابطہ فوجداری کی دفعہ 144 کے تحت ایک حکم نامہ جاری کرتے ہوئے احاطے میں نماز ادا کرنے پر فوری اثر سے پابندی لگا دی ہے۔ حکم نامے میں کلکٹر نے علاقے میں پولیس کی تعیناتی کی بھی ہدایت دی ہے۔ کلکٹر نے تحصیلدار کو مسجد کا چارج سنبھالنے کو کہا ہے،اورانہوں نے اس کو ‘متنازعہ’ معاملہ قرار دیا ہے۔
جہاں کلکٹر کے عبوری فیصلے اور اسے لاگو کرنے کے ان کے اختیارات کو بامبے ہائی کورٹ کی اورنگ آباد بنچ کے سامنے چیلنج کیا گیا ہے، وہیں جمعہ مسجد ٹرسٹ کے رکن اسلم کو خدشہ ہے کہ یہ ریاست کی صدیوں پرانی مسجد کو فرقہ واریت کے رنگ میں رنگنے کی شروعات ہے۔
شکایت
بتادیں کہ ‘پانڈوواڑہ سنگھرش سمیتی’ نامی ایک غیر رجسٹرڈ تنظیم کی طرف سے دائر کی گئی شکایت کی وجہ سے صدیوں پرانی یہ مسجد اچانک سےتنازعہ کا شکار ہوگئی ہے۔ شکایت کنندہ پرساد مدھوسودن ڈنڈوتے نے مئی کے وسط میں جلگاؤں ڈسٹرکٹ کلکٹر امن متل کے سامنے اس سلسلے میں ایک عرضی دائر کی تھی۔
دنڈوتے کی فیس بک پروفائل کے مطابق، وہ راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس)، وشو ہندو پریشد (وی ایچ پی) اور بجرنگ دل کے رکن ہیں۔
اپنی شکایت میں دنڈوتے نے دعویٰ کیا کہ مسجد ایک ہندو عبادت گاہ کی جگہ پر تعمیر کی گئی تھی اور یہ غیر قانونی ہے، جسے ریاستی اتھارٹی کو اپنے قبضے میں لےلینا چاہیے۔ شکایت کنندہ کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ جمعہ مسجد ٹرسٹ نے اس جگہ پر ‘غیر قانونی طور پر’ تجاوزات کیے ہیں۔
جمعہ مسجد ٹرسٹ کے اراکین نے دی وائر کو بتایا کہ جون کے اواخر میں انہیں نوٹس موصول ہونے تک وہ ان دعووں کے بارے میں لاعلم تھے۔ ٹرسٹ کمیٹی ممبروں میں سے ایک اسلم نے کہا، ‘تب تک کلکٹر معاملے میں شنوائی کر چکے تھے۔ ایک محدود وقت کے اندر ہمیں اپنے کیس کا دفاع کرنے کے لیے کہا گیا اور 11 جولائی کو کلکٹر نے اپنا حکم نامہ جاری کر دیا۔’
مسجد کی ٹرسٹ کمیٹی کے ساتھ کلکٹر نے وقف بورڈ اور آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا (اے ایس آئی) کو بھی نوٹس جاری کیا تھا۔
اے ایس آئی نے ٹرسٹ کے اس دعوے کی تائید کی ہے کہ یہ ایک قدیم ڈھانچہ ہے۔ اس نے کہا ہے کہ 1986 میں جب اے ایس آئی نے اس میں مداخلت کی تھی، تب مسجد کے احاطے میں نماز ادا کی جا رہی تھی۔ اے ایس آئی نے کہا کہ مسجد قدیم زمانے سے ہی مسلم کمیونٹی کے لیے ایک کھلی اور آسانی سےقابل رسائی جگہ رہی ہے۔
وقف بورڈ نے وقف ایکٹ کا حوالہ دیتے ہوئے شکایت پر شنوائی کرنے کے کلکٹر کے اختیارات کو چیلنج کیا ہے۔
وقف بورڈ کے ڈپٹی چیف ایگزیکٹو آفیسر (سی ای او) جنید سید کے دستخط والے اپنے جواب میں، بورڈ نے قانون کی ان متعلقہ شقوں کی طرف اشارہ کیا ہےجووقف کے تحت رجسٹرڈ جائیدادوں کی ملکیت اور متعلقہ تنازعات میں وقف کے علاوہ کسی بھی دوسرے محکمے کو مداخلت سے روکتی ہیں۔
کلکٹر کا فیصلہ ان کے دائرہ اختیار سے باہر: وقف بورڈ
وقف بورڈ کے سی ای او معین تحصیلدار نے دی وائر کو بتایا کہ حکم امتناعی جاری کرنے کا کلکٹر کا فیصلہ واضح طور پر ان کے دائرہ اختیار سے باہر تھااور یہ وقف ٹریبونل کے قانونی دائرہ اختیار کی خلاف ورزی ہے۔
تحصیلدار نے واضح کیا،’کلکٹر یہاں امن و امان کے پہلوؤں کو سنبھالنے کی حد تک مداخلت کر سکتے ہیں۔ باقی سب کچھ وقف بورڈ کی ذمہ داری ہے۔ یہ پراپرٹی 2009 سے بورڈ میں رجسٹرڈ ہے اور اس بارے میں میں کچھ بھی مبہم نہیں ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ بورڈ نے کلکٹر کو اپنے جواب میں قانونی صورتحال سے واضح طور پر آگاہ کر دیا تھا۔ تحصیلدار نے کہا،اس کے باوجود حکم امتناعی جاری کرتے وقت اس کو نظر انداز کر دیا گیا۔
تحصیلدار نے کہا، ‘ہم نے عبوری حکم کو چیلنج کیا ہے۔’
کیس کی سماعت 13 جولائی کو ہونی تھی، لیکن بعد میں کلکٹر نے سماعت 18 جولائی تک ملتوی کر دی۔ پابندی کا عبوری حکم اگلی سماعت کی تاریخ تک جاری رہے گا۔
دریں اثنا، مسجد ٹرسٹ نے ان دستاویزوں کے ساتھ ہائی کورٹ سے رجوع کیا ہے جو آزادی سے پہلے کے دور کے ہیں، جن میں وقتاً فوقتاً عدالتی احکامات اور برطانوی حکومت کے ذریعے جاری کیے گئے احکامات بھی شامل ہیں۔
عرضی میں کہا گیا ہے کہ 1960 کی دہائی کے بعد سے دستاویزوں کو وقتاً فوقتاً اپ ڈیٹ کیا جاتا رہا ہے اور مسجد کو ایک قدیمی یادگار کے طور پر نشان زد کیا گیا ہے۔
عرضی گزاروں نے انہیں غیر جانبدارانہ شنوائی کا موقع دینے میں کلکٹر کے رویے کے بارے میں بھی شکایت کی ہے۔ اس میں الزام لگایا گیا ہے کہ ‘جلگاؤں کے دانشور کلکٹر درخواست گزار سے کچھ بھی سننے کے موڈ میں نہیں تھے اور 11/07/2023 کو درخواست گزار کو کوئی موقع دیے بغیر،انہوں نے ضابطہ فوجداری کی دفعہ 144 اور 145 کے تحت فیصلہ سنا دیا۔’
اس رپورٹ کو انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Categories: خبریں