خبریں

بامبے ہائی کورٹ نے مسجد میں نماز پر پابندی لگانے کے جلگاؤں کلکٹر کے حکم پر روک لگائی

گزشتہ جون میں جلگاؤں ضلع  کلکٹر کی جانب سے من مانے ڈھنگ سے ایک حکم نامہ جاری کرنے کے کچھ دنوں بعدمسلم کمیونٹی کو 800 سال پرانی جمعہ مسجد میں نماز ادا کرنے سے روک دیا گیا تھا۔

بامبے ہائی کورٹ کی اورنگ آباد بنچ۔ (فوٹو بہ شکریہ: فیس بک)

بامبے ہائی کورٹ کی اورنگ آباد بنچ۔ (فوٹو بہ شکریہ: فیس بک)

ممبئی: مہاراشٹر میں جلگاؤں ضلع کلکٹر کی جانب  سےمن مانے ڈھنگ سے ایک  حکم نامہ جاری کرنےکے بعدمسلم کمیونٹی کو 800 سال پرانی جمعہ مسجد میں نماز ادا کرنے سے روک دیا گیا تھا، اب بامبے ہائی کورٹ کی اورنگ آباد بنچ نے اس حکم پر فی الحال روک لگا دی ہے۔

ہائی کورٹ کی سنگل جج بنچ، جس میں جسٹس آر ایم جوشی شامل تھے، نے منگل (18 جولائی) کو کلکٹر کے 18 جون کے حکم پر دو ہفتے کی  روک لگا دی ہے۔ عدالتی حکم کے بعد جمعہ مسجد ٹرسٹ نے مسجد کا کنٹرول حاصل کر لیا ہے اور کمیونٹی پہلے کی طرح وہاں نماز ادا کر سکے گی۔

بامبے ہائی کورٹ کے فیصلےکی تصدیق کرتے ہوئے جمعہ مسجد ٹرسٹ کمیٹی کی نمائندگی کرنے والے ایڈوکیٹ ایس ایس قاضی نے دی وائر کو بتایا کہ،’عدالت نے کلکٹر کے حکم پر روک لگانے کے ساتھ ساتھ ان کے دفتر کو مسجد کی چابیاں بھی ٹرسٹ کمیٹی کے حوالے کرنے کا حکم دیا ہے۔مسجد ایک بار پھر کمیونٹی لوگوں کے لیے کھلی رہے گی۔’

جلگاؤں کے ایرنڈول تعلقہ میں واقع جمعہ مسجد وقف بورڈ کے تحت ایک رجسٹرڈ پراپرٹی ہے۔ اس سال مئی تک مسجد بغیر کسی سرکاری مداخلت کے خوش اسلوبی سے چل رہی تھی۔

تاہم، پانڈوواڑہ سنگھرش سمیتی’ نامی ایک غیر رجسٹرڈ تنظیم کی طرف سے دائر کی گئی شکایت کی وجہ سے صدیوں پرانی یہ مسجد اچانک سےتنازعہ کا شکار ہوگئی تھی۔ شکایت کنندہ پرساد مدھوسودن ڈنڈوتے نے مئی کے وسط میں جلگاؤں ڈسٹرکٹ کلکٹر امن متل کے سامنے اس سلسلے میں ایک عرضی دائر کی تھی۔ ۔

راشٹریہ سویم سیوک سنگھ، وشو ہندو پریشد اور بجرنگ دل کے رکن دنڈوتے نے دعویٰ کیا کہ مسجد ایک ہندو عبادت گاہ کی جگہ پر تعمیر کی گئی تھی اور یہ غیر قانونی ہے، جسے ریاستی اتھارٹی کو اپنے قبضے میں لےلینا چاہیے۔

دی وائر نے قبل ازیں کلکٹر کے متنازعہ حکم کے حوالےسے ایک  رپورٹ کی تھی، جس پر ٹرسٹ کے ارکان نے الزام لگایا تھا کہ انہیں بغیر کسی منصفانہ شنوائی کے منظور کیا گیا تھا۔

کلکٹر کے عبوری پابندی کے حکم کے بعد ٹرسٹ کمیٹی نے بامبے ہائی کورٹ سے رجوع کیاتھااور منصفانہ سماعت کے لیے کلکٹر کے سامنے ایک اضافی درخواست بھی دی تھی۔

وقف بورڈ نے اپنے وکیل کو یہ وضاحت کرنے کے لیے بھی  بھیجاتھاکہ کلکٹر کے پاس پراپرٹی کی قانونی حیثیت کے بارے میں فیصلہ کرنے کا کوئی دائرہ اختیار نہیں ہے کیونکہ یہ بورڈ کے ساتھ رجسٹرڈ ہے۔

ٹرسٹ کے اراکین نے پہلے دی وائر کو بتایا تھا کہ وہ  جون کے اواخر میں انہیں نوٹس موصول ہونے تک وہ ان دعووں کے بارے میں لاعلم تھے۔ جب وہ کلکٹر کے دفتر میں سماعت کے لیے پیش ہوئے تو کمیٹی نے الزام لگایا کہ انہیں غیر جانبدارنہ سماعت کا موقع نہیں دیا گیا۔

نوٹس جاری ہوتے ہی ٹرسٹ کمیٹی کے ارکان نے قانونی مدد کے لیے انسانی حقوق کی تنظیم جمعیۃ علماء مہاراشٹر سے رجوع کیا۔

جمعیۃ علماء کے وکیل شاہد ندیم نے کہا، ‘ہم نے کمیٹی سے کہا تھا کہ وہ کلکٹر کے حکم کے خلاف فوراً  ہائی کورٹ سے رجوع کرے۔ ہم نے وقف بورڈ کے چیئرمین وجاہت مرزا کو بھی خط لکھا اور ان سے فوراً مداخلت کرنے کی گزارش کی۔’

ضلع کلکٹر متل، جنہوں نے آج اس معاملے کی سماعت طے کی تھی،  نے ہائی کورٹ میں کیس کی پیش رفت کے بعد سماعت ملتوی نہیں کی ہے۔

اس رپورٹ کو انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔