گزشتہ 31 اگست کو نوح میں ہوئے فرقہ وارانہ تشدد کے بعد، ریواڑی، جھجر اور مہندر گڑھ اضلاع کی کئی گرام پنچایتوں کی جانب سے اپنے گاؤں میں مسلمانوں کے داخلے پر پابندی لگانے کے لیے قراردادیں پاس کرنے کی خبریں موصول ہوئی تھیں۔ نوح میں وی ایچ پی سمیت دیگر دائیں بازو کے گروپوں کی طرف سے نکالی گئی ‘شوبھا یاترا’ کے دوران فرقہ وارانہ تشدد پھوٹ پڑا تھا، جس میں چھ افراد کی موت ہو گئی تھی۔
نئی دہلی: ہریانہ حکومت نے ان گرام پنچایتوں اور سرپنچوں کو وجہ بتاؤ نوٹس جاری کرنا شروع کر دیا ہے، جنہوں نے 31 جولائی کو نوح میں ہوئے فرقہ وارانہ تشدد کے بعد مسلمانوں کے اپنے گاؤں میں داخلے پر پابندی سے متعلق قراردادیں منظور کی ہیں یا خط لکھا ہے۔
انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق،حکام نے کہا کہ کئی گرام پنچایتوں اور سرپنچوں کو ان کے متعلقہ ضلع حکام نے ہریانہ گرام پنچایتی راج ایکٹ کی وفعہ 51 کے تحت وجہ بتاؤ نوٹس جاری کیا ہے، جو کسی سرپنچ یا پنچ کو معطل کرنے اور ہٹانے سے متعلق ہے۔
اس کی تصدیق کرتے ہوئے ریواڑی کے ڈپٹی کمشنر محمدعمران رضا نے اخبار کو بتایا،ہم نے گرام پنچایتوں، ان کے سرپنچوں وغیرہ کے خلاف کارروائی کی ہے اور انہیں وجہ بتاؤ نوٹس جاری کیے ہیں۔ وہ (گرام پنچایت اور سرپنچ) اپنے جواب بھیجیں گے، جن کی جانچ کی جائے گی۔ ان کی جانب سے جمع کرائے گئے جوابات کی جانچ کے بعد مزید کارروائی کی جائے گی۔
ریواڑی ضلع میں کچھ گرام پنچایتوں اور سرپنچوں کے خلاف ایف آئی آر درج کیے جانے کی غیر مصدقہ خبروں پر رضا نے کہا، جہاں تک ایف آئی آر درج کرنے یا اس معاملے میں قانونی کارروائی کرنے کی بات ہے، تو سپرنٹنڈنٹ آف پولیس (ایس پی) ہی بتا پائیں گے۔
تاہم، ریواڑی کے ایس پی دیپک سہارن نے کہا، ‘بہتر ہوگا کہ آپ اس سلسلے میں ڈپٹی کمشنر سے بات کریں، کیونکہ یہ بہت حساس معاملہ ہے۔’
ڈائریکٹر جنرل آف پولیس پی کے اگروال تبصرہ کے لیے دستیاب نہیں تھے۔ تاہم، ریاستی حکومت کے سینئر افسران نے کہا کہ، فرقہ وارانہ ہم آہنگی میں خلل ڈالنے کی کوشش کرنے والےیا اس میں ملوث ہونے والے کسی بھی شخص کے خلاف جو بھی مناسب کارروائی ہو گی، کی جائے گی۔
گزشتہ 10 اگست کو انڈین ایکسپریس نے نوح فرقہ وارانہ تشدد کے واضح ردعمل میں ریواڑی، جھجر اور مہندر گڑھ اضلاع میں کئی گرام پنچایتوں کی طرف سے اس طرح کی قراردادوں کے پاس ہونے کی اطلاع دی تھی۔
تب وزیر دیویندر سنگھ ببلی نے کہا تھا، ‘میں اس معاملے سے واقف ہوں۔ بعض مقامات پر بعض لوگوں نے ایسی قراردادیں پاس کیں لیکن میں نے ان تمامتعلقہ ضلع انتظامیہ کو واضح ہدایات دے دی ہیں کہ ایسا کام قانون کے تحت قابل قبول نہیں اور اگر کوئی شخص ایسےفرمان جاری کرنے میں ملوث ہے تو اس کےخلاف قانون کے مطابق سخت کارروائی کی جائے گی۔
تاہم، ان گاؤں کے سرپنچوں نے دعویٰ کیا تھا کہ اس طرح کی قراردادوں پر دستخط کرنے کا بنیادی مقصد سڑک کے کنارے دکانداروں، جن میں سے زیادہ تر کا تعلق مسلم برادری سے ہے، کی تاریخ کی تصدیق کرنا تھا،تاکہ ان علاقوں میں مویشیوں کی چوری کے بڑھتے ہوئے واقعات کو روکا جا سکے۔ اور نوح کی صورتحال کی وجہ سے کسی بھی قسم کے واقعہ سے بچا جا سکے۔
قابل ذکر ہے کہ ہریانہ میں سوموار (31 جولائی) کو نوح میں ہندو دائیں بازو کے گروپوں کی طرف سے نکالی گئی ‘شوبھا یاترا’ کے دوران تشدد پھوٹ پڑا تھا، جس میں اب تک چھ لوگوں کی موت ہو چکی ہے۔ تشدد دوسرے علاقوں میں بھی پھیل گیا، اور 1 اگست کو تشدد کے دوران گڑگاؤں کے بادشاہ پور میں کم از کم 14 دکانوں کو نذر آتش کر دیا گیا، جن میں سے زیادہ تر مسلمانوں کی تھیں۔
Categories: خبریں