خبریں

ہریانہ: نوح تشدد بھڑکانے کے الزام میں دائیں بازو کے کارکن بٹو بجرنگی گرفتار

ہریانہ کی نوح پولیس  نے 31 اگست کو ہوئے فرقہ وارانہ تشدد کے سلسلے میں گئو رکشک راجکمار عرف بٹو بجرنگی کو گرفتار کیا ہے۔ اس تشدد میں چھ افراد مارے گئے تھے۔ گئو رکشک مونو مانیسر بھی اس کیس میں ملزم ہیں۔ دونوں پر دائیں بازو کے گروپوں کی شوبھا یاترا سے پہلے مسلم اکثریتی ضلع نوح میں فرقہ وارانہ کشیدگی کو ہوا دینے کا الزام ہے۔

بٹو بجرنگی۔ (فوٹو بہ شکریہ: ٹوئٹر/@zoo_bear)

بٹو بجرنگی۔ (فوٹو بہ شکریہ: ٹوئٹر/@zoo_bear)

نئی دہلی: ہریانہ کی نوح پولیس نے منگل (15 اگست) کو گئو رکشک راجکمار عرف بٹو بجرنگی کو فرید آباد میں واقع اس کے گھر سے دو ہفتے قبل نوح  اور گڑگاؤں میں مسلم اور ہندو گروپوں کے درمیان فرقہ وارانہ تشدد کے سلسلے میں گرفتار کیا۔

خبر رساں ایجنسی اے این آئی کے مطابق، بدھ کو نوح کی ضلع عدالت نے بٹو بجرنگی کو ایک دن کی پولیس حراست میں بھیج دیا۔

ہندوستان ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق،  ہندو مذہبی تنظیم بجرنگ فورس کے35 سالہ انچارج بجرنگی فرید آباد میں ایک اور کیس میں بھی مطلوب ہیں۔

نوح کی ایڈیشنل سپرنٹنڈنٹ آف پولیس (اے ایس پی) اوشا کنڈو نے کہا کہ بجرنگی – جو موہت یادو یا مونو مانیسر کے ساتھ فرقہ وارانہ تصادم کے سلسلے میں مطلوب گئو رکشکوں میں سے ایک ہے – کے خلاف منگل کو صدر نوح پولیس اسٹیشن میں  تعزیرات ہند (آئی پی سی) کی دفعہ 148 (دنگا کرنا، مہلک ہتھیار سے لیس ہونا یا جرم کے ہتھیار کے طور پر استعمال ہونے والی کسی بھی چیز سے لیس ہونا)، 149 (غیر قانونی اجتماع)، 186 (سرکاری ملازم کو عوامی ڈیوٹی کی انجام دہی میں رکاوٹ ڈالنا)، 332 (سرکاری ملازم کو اس کی ڈیوٹی سے روکنے کے لیے جان بوجھ کر چوٹ پہنچانا)، 353 (سرکاری ملازم کو روکنے کے لیے حملہ یا مجرمانہ طور پرطاقت کا استعمال کرنا)، 397 (ڈکیتی، قتل یا شدید چوٹ پہنچانے کی کوشش کرنا)، 395 (ڈکیتی) اور 506 (مجرمانہ طور پر دھمکی) کے تحت مقدمہ درج کیا گیاہے۔

اس معاملے میں مونو مانیسر کو ابھی تک گرفتار نہیں کیا گیا ہے۔

کنڈو نے کہا کہ مشتبہ افراد کی شناخت کے لیے پولیس کی طرف سےجمع کیے گئے شواہد اور ویڈیوز سے بجرنگی کی شناخت ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ ،اس سے پوچھ گچھ کی گئی اور اس کے بیان اور شواہد کی بنیاد پر انہیں گرفتار کر لیا گیا۔’

بجرنگی اور مانیسر ان لوگوں میں شامل تھے، جن پر دائیں بازو کے گروپوں کی شوبھا یاترا سے قبل مسلم اکثریتی ضلع نوح میں فرقہ وارانہ کشیدگی کو ہوا دینے کا الزام  ہے۔ یہ بھی الزام ہے کہ دونوں نے 31 جولائی کو پروگرام سے پہلے توہین آمیز اور اشتعال انگیز تبصروں والے ویڈیوز جاری کیے تھے۔

قابل ذکر ہے کہ ہریانہ میں گزشتہ31 جولائی کو نوح میں ہندو دائیں بازو کے گروپوں کی طرف سے نکالی گئی ‘شوبھا یاترا’ کے دوران تشدد پھوٹ پڑا تھا، جس میں اب تک چھ لوگوں کی موت ہو چکی ہے۔ تشدد دوسرے علاقوں میں بھی پھیل گیا، اور 1 اگست کو تشدد کے دوران گڑگاؤں کے بادشاہ پور میں کم از کم 14 دکانوں کو نذر آتش کر دیا گیا، جن میں سے زیادہ تر مسلمانوں کی تھیں۔

نوح میں ہونے والے اس تشدد میں چھ افراد ہلاک اور 88 زخمی ہوئے تھے۔ پولیس نے اب تک 230 لوگوں کو گرفتار کیا ہے، لیکن بٹو بجرنگی اس معاملے میں پکڑاجانے والاپہلااہم گئو رکشک ہے۔

پولیس نے واضح کیا کہ اسے متنازعہ ویڈیو کلپ کے سلسلے میں گرفتار نہیں کیا گیا،  بلکہ ایک اور واقعے کے سلسلے میں گرفتار کیا گیا ہے،  جہاں اس نے مبینہ طور پر جھڑپ کے دوران پولیس سے ہتھیار چھین لیے تھے۔

گزشتہ 4 اگست کو فرید آباد پولیس نے بجرنگی کو اشتعال انگیز ویڈیو جاری کرنے میں ملوث ہونے کے الزام میں گرفتار کیاتھا، لیکن اسی دن اسے ضمانت دے دی تھی۔

نوح اے ایس پی اوشا کنڈو نے کہا،31 جولائی کو بجرنگی، 20 دیگر لوگوں کے ساتھ، اجازت نہ ملنے کے باوجود تلواروں سمیت ہتھیار لہرا رہے تھے۔ میں نے نلہر مندر سے پہلے ان سے ہتھیار لے لیے تھے، لیکن 20 کے قریب لوگوں کے ایک گروپ نے میری گاڑی روک کر ہتھیار واپس چھین لیے۔ ان کی شناخت نہیں ہوسکی تھی، تاہم، ہم نے ٹیمیں تشکیل دی تھیں اور ویڈیو کی بنیاد پر ان  کی شناخت کرکے سوموار کو ان کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا۔’

کنڈو نے کہا کہ نوح پولیس نے تشدد کے سلسلے میں 230 لوگوں کو گرفتار کیا ہے اور 59 مقدمات درج کیے ہیں۔ گڑگاؤں پولیس نے فسادات کے سلسلے میں 79 لوگوں کو گرفتار کیا اور 59 مقدمات درج کیے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ  ان  کے خلاف مزید مقدمات درج ہونے کا امکان ہے۔

پولیس حکام نے کہا کہ انہیں شبہ ہے کہ ویڈیو نے علاقے میں کشیدگی کو ہوا دینے میں کردار ادا کیا، جہاں مسلمانوں نے پتھراؤ کیا، توڑ پھوڑ کی اور نجی اور پولیس کی گاڑیوں کو نذر آتش کیا اور مبینہ طور پر ایک مقامی مندر کو گھیرلیا، جہاں کئی ہندو، پولیس اہلکار اور میڈیا پیشہ ور افراد نے پناہ لی تھی۔ جلوس میں شامل  کئی ارکان کے ہتھیار لہرانے سےیہ  تعطل ایک فرقہ وارانہ جھگڑے میں بدل گیا، جو دو دنوں تک جاری رہا۔