اس وقت تمام نگاہیں ہندوستانی سپریم کورٹ کی طرف ٹکی ہوئی ہیں۔ کیا سپریم کورٹ واقعی کوئی تاریخ رقم کرے گا؟ ایک بڑا سوال ہے، جس کا جواب وقت ہی دے گا۔
وزیر اعظم نریندر مودی حکومت کی طرف سے اگست 2019میں جموں و کشمیر کی آئینی خود مختاری ختم کرنے اور ریاست کو تحلیل کرکے دو مرکزی زیر انتظام علاقے بنانے کے خلاف دائر کی گئی درخواستوں پر فی الوقت سپریم کورٹ روزانہ سماعت کر رہی ہے۔
اس وقت تک آٹھ دنوں کی سماعت مکمل ہو چکی ہے۔ سوموار اور جمعہ کے بغیر بقیہ دن یعنی ہفتہ میں تین دن سپریم کورٹ کی پانچ رکنی آئینی بنچ صرف اسی مقدمہ کی اس وقت سماعت کر رہی ہے۔ 2اگست کو جب سماعت شروع ہوئی، تو چیف جسٹس، جسٹس دھننجے یشونت چندر چوڑ نے اعلان کیا کہ اس ایشو پر کل 60گھنٹے کی سماعت ہوگی۔ جس میں اب تقریباً45گھنٹے کی سماعت مکمل ہو چکی ہے۔ اس لیے بظاہر لگتا ہے کہ اس ماہ کے آخر تک پوری سماعت مکمل ہونے کا امکان ہے۔
اس مقدمہ کا فیصلہ جو بھی ہو، مگر وکیلوں کے دلائل، ججوں کے سوالات اور کورٹ میں دائر کیا گیا تحریری مواد، کشمیر کے موضوع سے دلچسپی رکھنے والوں کے علاوہ قانون و سیاست کے کسی بھی طالبعلم کے لیے ایک بڑ ا خزانہ ہے۔
عدالت میں 13515صفحات پر مشتمل دستاویزات کے علاوہ 28جلدوں پر مشتمل 16111صفحات پر مشتمل کیس فائلز دائر کی گئی ہیں۔ کئی شہرہ آفاق کتابیں دی فیڈرل کانٹریکٹ: اے کانسٹی ٹیوشنل تھیوری آف فیڈرل ازم اوروی پی میمن کی کتاب دی ٹرانسفر آف پاور ان انڈیابھی کورٹ کے سپرد کر دی گئی ہیں اور وکلا دلائل کے دوران ان کو ریفر کر رہے ہیں۔ لیکن جس ایک کتاب کے حوالوں کو سب سے زیادہ عدالت اور وکلا ء نے سوالات یا دلائل کے دوران استعمال کیا ہے وہ شہرہ آفاق مصنف اے جی نورانی کی مدلل کتاب آرٹیکل 370: اے کانسٹی ٹیوشنل ہسٹری آف جموں اینڈ کشمیر ہے۔
نورانی صاحب اس وقت خاصے علیل ہیں۔ بطور ایک ریسرچر کے اس کتاب کے ساتھ منسلک ہونے کا مجھے فخر حاصل ہے۔ ابھی تک آٹھ نامور وکلا ء نے اپنے دلائل مکمل کر دیے ہیں۔ ان میں کپل سبل، گوپال سبرامنیم، راجیو دھون، دشانت دوئے، شیکھر ناپھاڈے، دیمشیش دیویدی، ظفر شاہ اور چندر ادھے سنگھ شامل ہیں۔ ابھی نو اور وکلاء اگلے چند روز میں دلائل پیش کریں گے۔ ان میں پرسانتو چندر سین، سنجے پاریکھ، گوپال کرشن نارائنن، مینیکا گوروسوامی، نتیا راما کرشنن، منیش تیواری، عرفان حفیظ لون، ظہور احمد بٹ، پی وی سریندر ناتھ ہیں۔
اس کے بعد سرکاری وکلاء جوابی دلائل پیش کر یں گے۔ اس طرح یہ سماعت اختتام کو پہنچ جائے گی۔ چیف جسٹس چندرچوڑ کے علاوہ پانچ رکنی بنچ میں جسٹس ایس کے کول، جسٹس سنجیو کھنہ، جسٹس بی آر گوئی اورجسٹس سوریہ کانت شامل ہیں۔
معروف وکیل کپل سبل نے 2اگست کو بحث کا آغاز کرتے ہوئے ججوں کو یاد دلایا کہ یہ ایک تاریخی لمحہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس کیس کی سماعت میں عدالت کو پانچ سال لگے۔یہ اس لیے بھی تاریخی ہے کہ پچھلے پانچ سالوں میں، جموں و کشمیر میں کوئی نمائندہ حکومت نہیں ہے۔ اس کے بعد سبل نے تاریخوں کی ایک فہرست پڑھی، جس میں ان عوامل کی طرف نشاندہی کی گئی کہ جموں و کشمیر کو خصوصی درجہ کیوں دیا گیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ کشمیر کے لیے ایک علیحدہ دستور ساز اسمبلی تشکیل دی تھی۔ انہوں نے کہا کہ پارلیامنٹ خود کو دستور سا ز اسمبلی میں تبدیل نہیں کرسکتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ جب ایک بار جب آئین منظور ہو جاتا ہے، تو ہر ادارہ اس پر عمل کرنے کا پابند ہوتا ہے۔ انہوں نے 1846 کے معاہدہ امرتسر سے لےکر 1947 کی دستاویزالحاق کی شقوں کو بنیاد بنا کر تقریباً ڈھائی دن تک بحث کی۔ انہوں نے گورنر جنرل لارڈ ماؤنٹ بیٹن کا وہ خط بھی پڑھا، جس میں انہوں نے الحاق کے سوال کو عوامی رائے کے ذریعے طے کرنے کا وعدہ کیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ ان دستاویزات کے مطابق ہندوستان کی دیگر ریاستوں کے برعکس جن کے لیے ‘بقیہ اختیارات’ یونین یعنی وفاق کے پاس ہیں، جموں و کشمیر کے لیے بقایااختیارات ریاست کے پاس ہی ہیں۔ انہوں نے مزید کہا؛’میرا نقطہ یہ ہے کہ حکومت ہند اور ریاست کے درمیان ایک مفاہمت تھی کہ ان کی ایک آئین ساز اسمبلی ہوگی جو مستقبل کے لائحہ عمل کا تعین کرے گی۔’
سبل نے کہا کہ آرٹیکل 370 ایک عارضی انتظام اس لیے تھا کیونکہ یہ جموں و کشمیر کی آئین ساز اسمبلی کو طے کرنا تھا کہ وہ اس کو مستقل بنیادوں پر رکھنا چاہتی ہے یا منسوخ کرنا چاہتی تھی۔ اس دوران چیف جسٹس نے بار بار پوچھا کہ آئین ساز اسمبلی تو سات سال کی مدت ختم کرنے کے بعد اس دفعہ پر کوئی فیصلہ کرنے سے قبل ہی تحلیل ہوگئی، تو ا ب اس دفعہ کی ترمیم وغیرہ کے لیے کیا طریقہ کار ہے؟
سبل نے استدلال پیش کیا کہ چونکہ جموں و کشمیر کی آئین ساز اسمبلی کا وجود ختم ہو گیا ہے، اس لیے آرٹیکل 370 کو منسوخ نہیں کیا جا سکتا۔ لہٰذا، آرٹیکل 370 کی شق (3) ناقابل اطلاق ہو جاتی ہے۔چیف جسٹس نے مزید کہا کہ اگر سبل کی طرف سے پیش کردہ استدلال کو مدنظر رکھا جائے تو آرٹیکل 370، جو کہ ایک ‘عبوری پروویژن’ہے، مستقل پوزیشن کا کردار ادا کرتا ہے کیونکہ اب کوئی آئین ساز اسمبلی موجود نہیں ہے۔
جسٹس کانت نے یہ بھی استفسار کیا کہ آرٹیکل 370 کو کیسے عارضی سمجھا جا سکتا ہے جب یہ دلیل دی جاتی ہے کہ اس دفعہ کو کبھی منسوخ نہیں کیا جا سکتا؟ جسٹس کھنہ کے مطابق جس مسئلے پر توجہ دینا باقی ہے وہ یہ ہے کہ کیا آرٹیکل 370 کی عارضی نوعیت جموں و کشمیر کی آئین ساز اسمبلی کی موروثی عارضی نوعیت سے ہم آہنگ ہے؟یعنی، ایک بار جب جموں و کشمیر کی آئین ساز اسمبلی کا وجود ختم ہو گیا، کیا آرٹیکل 370 کی شق (3)، جو آرٹیکل 370 کو منسوخ کرنے کی اجازت دیتی ہے، ناقابل عمل بن جاتی ہے۔
بحث کے دوسرے د ن سبل نے عدالت کو بتایا کہ آرٹیکل 370(1) کی شق (ون) (بی ) ہندوستانی پارلیامنٹ کے وفاق کے تحت جموں و کشمیر کے لیے قانون بنانے کے اختیارات کو محدود کرتی ہے اور ہندوستانی آئین کے ساتویں شیڈول کی کنکرنٹ لسٹوں میں الحاق کی دستاویز میں مذکور مضامین کے سلسلے میں جموں و کشمیر حکومت کی ‘مشاورت’ کا لفظ درج ہے۔ دوسری طرف، آرٹیکل 370(1) کی شق (ٹو) (بی)، پارلیامنٹ کو یونین کے تحت جموں و کشمیر کے لیے قانون بنانے کے اختیار میں توسیع کرتی ہے اور آئین کے ساتویں شیڈول کی ہم آہنگی فہرستیں معاملات کا احترام کرتی ہیں۔
اس سماعت کے آغاز میں، چیف جسٹس نے آرٹیکل 370 کی پر چند مشاہدات پیش کیے؛’آرٹیکل 370(ون) کی شق (بی) پارلیامنٹ کو ریاست جموں و کشمیر کے لیے قانون بنانے کا اختیار نہیں دیتی۔ یعنی قانون بنانے کااختیار آرٹیکل 370(ون)کے علاوہ کہیں اور ہے۔اس بحث میں حصہ لیتے ہوئے جسٹس کول نے کہا کہ آرٹیکل 370(ون) کی شق (بی) ایک محدود شق ہے۔
جسٹس کول نے مزید کہا کہ آرٹیکل 370(ون) کی شق (ون) (بی)کے تحت جموں و کشمیر کے لیے قانون بنانے کی ہندوستانی پارلیامنٹ کی طاقت دو چیزوں پر محدود ہے۔سب سے پہلے، پارلیامنٹ کا دائرہ جموں و کشمیر پر لاگو قوانین بنانے کا اختیار صرف ‘یونین اور کنکرنٹ لسٹ’ کے معاملات تک محدود ہے۔دوسرا، ‘حکومت جموں و کشمیرکے ساتھ مشاورت’ یونین اور کنکرنٹ لسٹوں میں ایک شرط ہے جو دستاویز الحاق کے ساتھ مطابقت رکھتا ہے۔ یعنی جموں و کشمیر سے متعلق کسی بھی معاملے میں ریاستی حکومت کی آمادگی اور رائے کی ضرورت ہے۔
دوسرا،یہاں تک کہ اگر صدر کوئی استثنیٰ اور ترمیم نہیں کر رہے ہیں، لیکن ہندوستانی آئین کی کچھ شقوں کو جموں و کشمیر پر لاگو کیا جا رہا ہے، تب بھی جموں و کشمیر حکومت کی ‘مشاورت’ یا ‘اتفاق رائے’ کی ضرورت ہے۔ جسٹس کول نے یہ مسئلہ بھی اٹھایا کہ اگر دفعہ 370 کا کوئی مستقل کردار نہیں ہے تو پھر، اس کو کس طریقے سے ختم کیا جا سکتا ہے اور کیا جو طریقہ کار اپنایا گیا، وہ درست تھا؟
سبل کی دلیل تھی کہ آرٹیکل 370 مختلف مراحل سے گزرا ہے۔ اس کا آغاز ایک عبوری انتظام کے طور پر ہوا، جس میں جموں و کشمیر میں ایک دستور ساز اسمبلی تشکیل کرنے کی سہولت فراہم کی گئی تھی۔ جب ایک بار جب جموں و کشمیر کی دستور ساز اسمبلی نے جموں و کشمیر کا ایک آئین بنا کر اپنا مقصد پورا کر لیا، جس میں ہندوستانی آئین کے آرٹیکل 370 کی توثیق کرنے والی مخصوص اور واضح دفعات موجود تھیں، اس کے تحلیل ہونے کے بعد آرٹیکل 370’منجمد’ ہو گیا۔اس طرح اس د فعہ کے مستقل کردار کو قبول کیا گیا۔
اس کے بعد،سبل نے عرض کیا کہ جموں و کشمیر قانون ساز اسمبلی کے پاس ہندوستانی آئین کے آرٹیکل 370 کی شق (3) کے تحت جموں و کشمیر کو دیے گئے اختیارات کو منسوخ کرنے کا اختیار نہیں ہے، کیونکہ اس طرح کے اختیارات کو منسوخ کرنے کا اختیار صرف آئین ساز اسمبلی کو دیا گیا تھا۔
جب جسٹس کول نے پوچھا کہ کیا ہندوستانی پارلیامنٹ کے پاس ایسا کرنے کا اختیار ہے، تو سبل نے جواب دیا کہ یہ طے شدہ قانون ہے کہ قانون ساز ادارہ کسی ایسے اختیارات پر استقامت نہیں کر سکتا جو پہلے اس کے پاس نہیں تھا، جیسا کہ سپریم کورٹ نے ایس آر بومئی بمقابلہ میں مشاہدہ کیا تھا۔اب سوال یہ تھا کہ کیا پارلیامنٹ آئین ساز اسمبلی کا کردار ادار کرسکتی ہے۔ اس پر چیف جسٹس نے خود ہی کہا کہ جب پارلیامنٹ آئین میں ترمیم کرتی ہے، تب بھی وہ آئین ساز اسمبلی کے اختیارات کا استعمال نہیں کر رہی ہے، بلکہ ایک جزوی طاقت کا استعمال کرتی ہے۔ جسٹس چندر چوڑ نے استدلال دیاکہ پارلیامنٹ اور آئین ساز اسمبلی دو الگ الگ ادارے ہیں اور پارلیامنٹ کے لیے خود کو آئین ساز اسمبلی میں تبدیل کرنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔
سماعت کے تیسرے دن سبل نے عدالت کو بتایا کہ جموں و کشمیر کے گورنر، جو خود ہی وفاق کا نمائندہ ہے کے ذریعے خصوصی حیثیت کو چھین لیا گیا اور بتایا گیا کہ ریاست کے ساتھ مشاورت کی گئی ہے۔ جموں و کشمیر کے سابق وزیر اعظم شیخ عبداللہ کی تقریر کا حوالہ دیتے ہوئے، سبل نے نشاندہی کی کہ اگرچہ آرٹیکل 370 کو ایک عارضی شق قرار دیا جاتا ہے، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ دفعہ 370 کو ‘یکطرفہ طور پر منسوخ، ترمیم یا تبدیل کرنے’ کیا جاسکتا ہے۔ 11 اگست 1952 کی تقریر میں عبداللہ نے کہا تھا کہ آرٹیکل 370 کی عارضی نوعیت جموں و کشمیر اور یونین آف انڈیا کے درمیان آئینی تعلقات کو حتمی شکل دینے کے پہلو میں ہے، جس کا اختیار خاص طور پر جموں و کشمیر کی آئین ساز اسمبلی کے پاس ہے۔
عبداللہ نے کہا تھا، ‘ہندوستان کے آئین نے یونین کے اختیارات کے دائرہ کار اور دائرہ اختیار کو الحاق کی شرائط کے ذریعے محدود کر دیا ہے۔شیخ عبداللہ نے کہا کہ آرٹیکل 370 ہندوستان کے ساتھ ہمارے تعلقات کی بنیاد ہے۔ اس میں چھیڑ چھاڑ، ہماری ریاست کی ہندوستان کے ساتھ وابستگی پر اثر انداز ہو سکتی ہے اور اس کے سنگین نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔ عبداللہ نے کہا یہ دو حکومتوں کے درمیان معاہدے کی طرح ہے۔
سبل نے دلیل دی کہ دونوں خودمختارریاستوں یا مملکتوں کے ذریعہ طے شدہ اور دستخط شدہ معاہدے کی ایک توقیر ہوتی ہے اور اس کو ختم نہیں کیا جاسکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ 5اگست 2019کو جو کچھ ہوا، وہ ایک صدارتی حکم کے تحت کیا گیا۔ اس صدارتی آرڈکے جاری ہونے سے پہلے راجیہ سبھا میں ایک قرارداد پیش کی گئی تھی، جس کے ذریعے جموں و کشمیر کی تنظیم نو کرکے اس کو دولخت کردیا گیا۔جبکہ ضابطے میں یہ طے ہے کہ ریاست جموں و کشمیر کے نام یا حدود کو تبدیل کرنے والا کوئی بل ریاستی مقننہ کی رضامندی کے بغیر پارلیامنٹ میں پیش نہیں کیا جاسکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کہ گورنر ایک ‘مکمل’ اتھارٹی نہیں ہے بلکہ ایک ‘آئینی مندوب’ ہے۔
سبل نے سوال کیا؛ اگر صدر مرکزی کابینہ کی مدد اور مشورے کے بغیر پارلیامنٹ کو تحلیل نہیں کر سکتے تو گورنر اس اختیار کا استعمال کیسے کر سکتا ہے؟سبل نے اپنی گزارشات کو یہ کہتے ہوئے ختم کیا؛’جموں و کشمیر کے لوگوں کی آواز کہاں ہے؟ کہاں ہے نمائندہ جمہوریت کی آواز؟ پانچ سال گزر چکے ہیں۔’ انہوں نے دوبارہ کہا کہ عدالت اس وقت تاریخ کے ایک کٹہرے میں ہے۔ امید کی جا سکتی ہے کہ عدالت خاموش نہیں رہے گی۔
سبل کی تقریباً تین دن تک محیط اس بحث کے بعد سینئر وکیل گوپال سبرامنیم نے دلیلوں کا آغاز کیا۔ انہوں نے اس نقطہ سے بحث شروع کی کہ ہندوستانی آئین کی طرح جموں و کشمیر کا بھی اپنا آئین ہے، جو 1957میں آئین ساز اسمبلی نے تشکیل دیا۔ انہوں نے کہا کہ دفعہ 370کے ذریعے دونوں آئین ایک دوسرے سے بات چیت کرتے ہیں۔
سبرامنیم نے جو دوسرا نکتہ پیش کیا وہ یہ ہے کہ موجودہ کیس میں، عدالت کا تعلق صرف ایک نہیں بلکہ دو آئین ساز اسمبلیوں کے مینڈیٹ سے ہے، یعنی ہندوستان کی دستور ساز اسمبلی اور جموں و کشمیر کی آئین ساز اسمبلی۔سبرامنیم نے آئین سے متعلق ڈاکٹر بی آر امبیڈکر کی تعارفی تقریر کا حوالہ دیا، جس میں کہا گیا ہے کہ ہندوستانی آئین کا وفاقی ڈھانچہ ریاست میں لوگوں کو خصوصی حقوق اور مراعات دینے کی اجازت دیتا ہے۔
سبرامنیم نے کہا کہ عدالت کو اس حقیقت کو دھیان میں رکھنا چاہیے کہ ،’جموں و کشمیر کسی دوسری ریاست کی طرح نہیں تھا’۔انہوں نے اس دلیل کو یہ بتاتے ہوئے واضح کیا کہ دیگر راجواڑوں کے برعکس، جموں و کشمیر کا اپنا 1939 کا آئین تھا یہاں تک کہ ہندوستان کے تسلط کے ساتھ الحاق کے معاہدے پر دستخط کرنے سے پہلے بھی وہاں ایک پرجا پریشد تھی۔ انہوں نے جموں و کشمیر کی دستور ساز اسمبلی کے مباحثوں کی اہمیت پر زور دیا۔
انہوں نے مزید کہا کہ یہ جموں و کشمیر کی آئین ساز اسمبلی تھی جس نے آرٹیکل 370(ون)(ڈی) کے تحت ہندوستان کو 1950، 1952 اور 1954 کے صدارتی احکامات کے ذریعے جموں و کشمیر پر ہندوستانی آئین کے اطلاق کے سلسلے میں کچھ مستثنیات کو لاگو کرنے کی دعوت دی۔.
سبرامنیم نے کہا کہ ہندوستان ان صدارتی احکامات کی پابندی کرنے پر راضی ہے۔واضح رہے کہ 1954 کے صدارتی حکم نامے کی، جس نے پہلے کے احکامات کی جگہ لے لی تھی، بالآخر جموں و کشمیر کی آئین ساز اسمبلی نے توثیق کی۔
سبرامنیم نے نشاندہی کی کہ جموں و کشمیر کی دستور ساز اسمبلی نے ایک رسمی قرارداد منظور کی جس میں کہا گیا کہ ہندوستان کو 1954 کے صدارتی حکم کی پابندی کرنی چاہیے اور اسے آرٹیکل 370 کی شق (1) اور شق (3) کے ساتھ جاری رہنا چاہیے۔
اس دوران سبرامنیم نے خود سپریم کورٹ کے ہی پچھلے فیصلوں کا حوالہ دیا۔ انہوں نے کہا کہ اگر آرٹیکل 370 کو منسوخ کرنا جموں و کشمیر کی آئین ساز اسمبلی کا مینڈیٹ نہیں تھا اور ریاستی مقننہ کے ذریعہ منسوخی کا اختیار کبھی بھی استعمال نہیں کیا جاسکتا ہے، تو ایسا کوئی طریقہ نہیں ہے کہ وفاق یا پارلیامنٹ خود کو ریاست کی آئین ساز اسمبلی میں تبدیل کرکے اس دفعہ کو منسوخ کرادے۔
سبرامیم، جو لندن سے آن لائن دلائل دے رہے تھے کی د س گھنٹہ کی بحث کے بعد پوڈیم جموں و کشمیر کے معروف وکیل ظفر شاہ نے سنبھالا۔ انہوں نے وضاحت کی کہ آرٹیکل 370 نے جموں و کشمیر کے آخری ڈوگرہ مہاراجہ، مہاراجہ ہری سنگھ کے ذر یعہ دستاویز الحاق میں درج اختیارات کو برقرار رکھا۔انہوں نے کہا کہ مہاراجہ نے جموں و کشمیر کا ہندوستان کے ساتھ الحاق کیا تھا۔ مگر انضمام کا کوئی معاہدہ عمل میں نہیں آیا تھا۔انہوں نے الحاق اور انضمام کی تشریح کی۔ شاہ نے کہا کہ چونکہ انضمام کے کسی معاہدے پر دستخط نہیں ہوئے تھے، جموں و کشمیر نے اپنی ‘آئینی خود مختاری’ کو برقرار رکھا۔
انہوں نے مزید کہا کہ قانون بنانے کے بقایا اختیارات کے ذریعے ہی ریاست نے اپنی خودمختاری کا استعمال کیا۔آرٹیکل 370(1) کے حوالے سے، انہوں نے کہا کہ یہ شق ہندوستانی آئین کے ساتویں شیڈول کے تحت تین فہرستوں کے قوانین کے اطلاق کے بارے میں بات کرتی ہے جو جموں و کشمیر پر لاگو ہوگی۔شاہ نے واضح کیا کہ چونکہ جموں و کشمیر کے لیے تین موضوعات یعنی دفاع، خارجی امور اور مواصلات پر قانون بنانے کے لیے ہندوستان کو پہلے ہی مکمل اختیارات دیے گئے تھے، اس لیے آرٹیکل 370(1)(i) لفظ ‘مشاورت’ کا استعمال کرتا ہے۔
اس موقع پر، شاہ نے یہ بھی نشاندہی کی کہ آرٹیکل 370(1)(ii) یا 370(1)(ڈی) میں استعمال ہونے والے اظہار ‘اتفاق’ کا مطلب ہے کہ دونوں فریقوں کو متفق ہونا پڑے گا۔انہوں نے کہا کہ انسٹرومنٹ آف ایکشن کے تحت متعین کیے گئے ہندوستانی قوانین میں یہ واضح ہے کہ دونوں فریقین کی رضامندی ہونا ضروری ہے۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ جموں و کشمیر کے تناظر میں، ریاست کے لوگوں کی رضامندی ہوگی جس کا اظہار وزراء کی کونسل کے ذریعے کیا جاسکتا ہے۔
شاہ نے کہا کہ آرٹیکل 370 کے تحت، یہ تصور نہیں کیا جا سکتا کہ پارلیامنٹ کوئی یکطرفہ فیصلہ کرے۔ جسٹس کھنہ نے شاہ کے اس عرضی کا جواب دیتے ہوئے کہ جموں و کشمیر کا ہندوستان کے ساتھ انضمام مکمل نہیں ہوا، کہا کہ انضمام کا سوال ‘مکمل طور پر یقینی’ ہے۔انہوں نے ہندوستانی آئین کے آرٹیکل 1 کا حوالہ دیا جس میں لکھا ہے کہ ہندوستان ریاستوں کا ایک یونین ہے جو جموں و کشمیر کے آئین کے آرٹیکل 3 سے مطابقت رکھتا ہے۔کھنہ نے واضح کیا کہ آرٹیکل 370 صرف ریاستی مقننہ کو اپنے لیے قانون بنانے کا خصوصی حق دیتا ہے۔
جسٹس کھنہ نے ریمارکس دیے؛’مجھے مکمل انضمام کے لفظ کے استعمال پر تحفظات ہیں۔’انہوں نے مزید کہا؛ ‘ہندوستانی آئین کے آرٹیکل 1 کے لحاظ سے مکمل انضمام ہوا ہے۔’چیف جسٹس نے ریمارکس دیے جموں و کشمیر کے ذریعہ الحاق کے مسودہ پر دستخط کرنے کے بعد انضمام کی بحث ختم ہوتی ہے۔ شاہ بنچ کے استدلال سے متفق نہیں ہو سکے۔
شاہ نے اپنے استدلال کو دہرایا کہ خودمختاری دستاویز الحاق کے ذریعے منتقل نہیں کی گئی۔ اسے صرف انضمام کے معاہدے کے ذریعے منتقل کیا جا سکتا ہے۔اس پر چیف جسٹس نے نشاندہی کی کہ آج بھی، پارلیامنٹ کے پاس ریاستی فہرست میں اندراجات کے لیے قانون بنانے کے مکمل اختیارات نہیں ہیں، لیکن اس سے اس حقیقت پر کوئی اثر نہیں پڑتا کہ بالآخر خودمختاری ہندوستان کے پاس ہے۔انہوں نے مزید کہا؛’ایک بار جب ہندوستانی آئین کا آرٹیکل 1 کہتا ہے کہ ہندوستان ریاستوں کا ایک یونین ہوگا جس میں ریاست جموں و کشمیر شامل ہے، خودمختاری کی منتقلی مکمل ہوگئی تھی۔ ہم ہندوستانی آئین کو ایک دستاویز کے طور پر نہیں پڑھ سکتے جو آرٹیکل 370 کے بعد جموں و کشمیر کو کچھ خودمختاری برقرار رکھے۔
اس دلیل کو آگے بڑھاتے ہوئے، چیف جسٹس نے کہا کہ لفظ ‘اتفاق’ کا استعمال جموں و کشمیر کے آئینی حوالہ جات کے لیے منفرد نہیں ہے، ہندوستان کے آئین میں اتفاق کے بہت سے مختلف شیڈز کی ضرورت ہے۔چیف جسٹس نے ہندوستانی آئین کے آرٹیکل 246اے کی مثال پیش کی، جو گڈز اینڈ سروسز ٹیکس (جی ایس ٹی) کے لیے فراہم کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس دفعہ کے تحت پارلیامنٹ ریاستی مقننہ کی منظوری کے بغیر کچھ نہیں کر سکتی۔
شاہ، جنہوں نے اسی معاملے پر پھر بنچ سے کہا کہ وہ ہندوستانی آئین کے آرٹیکل 253 جو بین الاقوامی معاہدوں، معاہدوں اور کنونشنز سے متعلق ہے میں ایک شرط شامل کی گئی، کہ ریاست جموں و کشمیر کے اختیار کو متاثر کرنے والا کوئی فیصلہ یاست کی حکومت کی رضامندی کے بغیر حکومت ہند نہیں کرسکتی ہے۔ شاہ نے مزید کہا کہ جموں و کشمیر کی صورت حال کا ایک اندرونی اور ایک بیرونی جہت ہے اور دونوں ایک ساتھ ہندوستانی آئین کے آرٹیکل 306اےکے مسودہ میں شامل ہیں جو کہ حتمی فیصلہ تک زیر التواء ہے۔شاہ نے اپنی دلیل کا اختتام بھارت کے سابق وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی کی 2005 کی سری نگر کی تقریر کا حوالہ دیتے ہوئے کیا،’مسئلہ کشمیر کو انسانیت اور جمہوریت کے دائرے میں حل کیا جائے گا۔’ شاہ نے امید ظاہر کی کہ عدالت اس بیان کی روشنی میں اپنا فیصلہ صادر کرےگی۔
شاہ کی آٹھ گھنٹے طویل بحث کے بعد ڈاکٹر راجیو دھون نے مختصر بحث میں عدالت کو بتایا کہ ہندوستان ایک ملک کے بجائے ایک براعظم ہے اور اس کے تنوع کے لیے خود مختاری کے انتظامات کی ضرورت ہے جیسا کہ آئین کے آرٹیکل 370 کے تحت جموں و کشمیر میں موجود تھا۔ دھون نے دلیل دی کہ آئینی اخلاقیات تجویز کرتی ہے کہ اس طرح کے انتظامات کو محفوظ رکھا جانا چاہیے۔انہوں نے نشاندہی کہ کہ بحث کے دوران چیف جسٹس نے آرٹیکل 249 اور 252 کا حوالہ دیا۔انہوں نے ان آرٹیکلز کے حوالے سے بنچ کی طرف سے اٹھائے گئے سوالات کو ‘بہت، بہت اہم’ قرار دیا اور کہا کہ اس نے درخواست گزاروں کو ‘بنیادی ڈھانچہ’ کے خطوط پر بحث کرنے کا موقع فراہم کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بنچ نے انضمام کے معاہدوں ‘کی حیثیت سے کئی سوالات اٹھائے ہیں۔
اس پر دھون نے کہا کہ دستاویز الحاق کی رو سے بیرونی خودمختاری ختم ہو جاتی ہے، لیکن اندرونی خودمختاری ختم نہیں ہوتی ہے۔ دھون نے نشاندہی کی کہ مہاراجہ ہری سنگھ نے ہندوستان کے ساتھ جوں کے توں یعنی اسٹینڈ اسٹل کے معاہدے پر دستخط نہیں کیے تھے۔اس طرح کا معاہدہ مہاراجہ نے پاکستان کے ساتھ کیا تھا۔ دھون نے اپنی دلیل کو مضبوط کرنے کے لیے پریم ناتھ عدالتی فیصلہ کا حوالہ دیا کہ آرٹیکل 370 اسٹینڈ اسٹل یا انضمام کے معاہدے کا آئینی متبادل ہے۔
انہوں نے کہا کہ دستاویز الحاق کے ذریعے مہاراجہ نے اس حقیقت کو تسلیم کیا کہ جموں و کشمیر ہندوستان کے تسلط کا حصہ بن چکا ہے۔لیکن مہاراجہ نے الحاق کے ذریعے اپنی خودمختاری کو منتقل نہیں کیا۔دھون نے نشاندہی کی کہ خودمختاری کی منتقلی کا عمل جزوی طور پر سیاسی وجوہات اور جزوی طور پر آرٹیکل 370 کی وجہ سے شروع ہوا۔انہوں نے آرٹیکل 3 کے مندرجات کا حوالہ دےکر کہا کہ اس کی رو سے کسی بھی ریاست کے نام یا حدود کو تبدیل کرنے والا کوئی بل ریاستی مقننہ کی رضامندی کے بغیر پیش نہیں کیا جا سکتا۔
انہوں نے مزید کہا کہ 1954 (صدارتی حکم سی او 48) نے آرٹیکل 3 میں ایک اور شرط شامل کی جس میں کہا گیا ہے کہ جموں و کشمیر کے رقبے کو بڑھانے یا کم کرنے یا ریاست کے نام یا حدود کو تبدیل کرنے کا کوئی بل جموں و کشمیر مقننہ کی رضامندی کے بغیر ہندوستانی پارلیامنٹ میں پیش نہیں کیا جاسکتا ہے۔ دھون نے سوال کیا کہ ریاستی مقننہ کی مشاورتی طاقت کو پارلیامنٹ کے ساتھ کیسے بدل دیا گیا۔
دھون نے ہندوستانی آئین کے آٹھویں شیڈول کے ساتھ پڑھے گئے آرٹیکل 343 کا بھی حوالہ دیا جو کشمیری کو ایک زبان کے طور پر تسلیم کرتا ہے۔انہوں نے اس بات کی نشاندہی کی کہ ایک ایگزیکٹو ایکٹ کے ذریعے کشمیری کو بطور زبان نہیں چھینا جا سکتا۔انہوں نے کہا کہ آرٹیکل 356 کے تحت صدر کو جو اختیارات دیئے گئے ہیں وہ مکمل نوعیت کے نہیں ہیں۔ اختیارات کا اس حد تک استعمال اور غلط استعمال کیا گیا ہے کہ ان کے استعمال میں کچھ نظم و ضبط لازمی ہے۔دھون نے متنبہ کیا کہ صدارتی راج کی آڑ میں جموں و کشمیر کے ساتھ جو ہوا وہ کسی اور ریاست کے ساتھ ہوسکتا ہے اگر آرٹیکل 356 کے تحت اختیارات پر قدغن نہیں لگائی گئیں۔انہوں نے دلیل دی کہ آرٹیکل 3 اور 4 کے تحت نہ تو صدر اور نہ ہی پارلیامنٹ ریاستی مقننہ کا متبادل ہو سکتے ہیں۔
چیف جسٹس نے دھون سے پوچھا کہ کیا پارلیامنٹ آرٹیکل 246(2) کے تحت صدر راج کے دوران ریاست کے لیے قانون بنا سکتی ہے، تو دھون نے جواب دیا کہ پارلیامنٹ ریاستی فہرست کے تحت قانون بنا سکتی ہے لیکن جب وہ آرٹیکل 3 کے تحت کوئی قانون پاس کرتی ہے، تو اسے مذکورہ شرائط کی پابندی کرنی ہوگی۔انہوں نے نشاندہی کی کہ جموں و کشمیر میں ایک قانون ساز کونسل بھی تھی۔ جسے آئینی ترمیم کے بغیر ختم نہیں کیا جا سکتا تھا۔
دھون نے کہا کہ آرٹیکل 244اے خود مختار ریاستوں کے قیام کا انتظام کرتا ہے۔ یہ ریاستوں کی خود مختاری کو تقویت دیتا ہے جو آرٹیکل 370 میں جموں و کشمیر کو دی گئی خود مختاری کے مطابق ہے۔انہوں نے کہا کہ آئین کو اخلاقیات کے ساتھ پڑھا جانا چاہیے۔انہوں نے کہا کہ ہندوستانی حکومت نے کشمیری عوام کے ساتھ وعدے کیے ہیں کہ ان کو اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا حق ہوگا۔ انہوں نے یاد دلایا کہ کئی مواقع پر ہندوستانی لیڈران نے عزم کا اظہار کیا کہ وہ رائے شماری کے ذریعے لوگوں کی مرضی جاننے کے لیے پابند ہیں بشرطیکہ پرامن اور معمول کے حالات بحال ہوں اور رائے شماری کی غیر جانبداری کی ضمانت دی جا سکے۔
دھون نے کہا کہ ہم نے اس بات پر بھی اتفاق کیا ہے کہ آئین ساز اسمبلی کے ذریعہ لوگوں کی مرضی ریاست کے آئین کے ساتھ ساتھ یونین کے دائرہ اختیار کا تعین کرے گی۔انہوں نے کہا کہ کہا کہ یہ وہی عہد ہے جو آرٹیکل 370 کی روح ہے۔
دھون کے بعد دشانت دوئے نے دلیل دی کہ 2019 کے آئینی احکامات تضادات کا مجموعہ اورآئین ہند کے ساتھ دھوکہ دہی ہیں۔ انہوں نے عدالت کو کہا کہ انصاف صرف ہونا ہی نہیں چاہیے، ہوتا ہوا نظر آنا چاہیے۔آرٹیکل 370 کے عارضی ہونے کی وجہ بتاتے ہوئے دوئے نے کہا کہ یہ ہندوستان کے لیےکبھی بھی عارضی نہیں تھا۔ یہ جموں و کشمیر کے لوگوں کے لیے اس حد تک عارضی تھا کہ وہ جموں و کشمیر کی آئین ساز اسمبلی کے ہاتھوں اپنی قسمت کا فیصلہ کر سکتے تھے۔
انہوں نے کہا کہ جموں و کشمیر کے آخری ڈوگرہ مہاراجہ مہاراجہ ہری سنگھ نے ہندوستان کے اس وقت کے گورنر جنرل لارڈ لوئس ماؤنٹ بیٹن کے ساتھ مشروط طور پر ہندوستان کے تسلط میں الحاق کے لیے جو معاہدہ کیا تھا اس کی تشریح آرٹیکل 370 کی روشنی میں کی جانی چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ معاہدہ سازی کی طاقت کو آئین کے زیر غور طریقے سے استعمال کرنا ہوگا اور اس کی طرف سے عائد کردہ حدود کے تابع ہونا پڑے گا۔ آیا یہ معاہدہ عام قانون سازی کے ذریعے نافذ کیا جا سکتا ہے یا آئینی ترمیم کے ذریعے یہ قدرتی طور پر خود آئین کی دفعات پر منحصر ہوگا۔دوئے نے کہا کہ آرٹیکل 370 کی تشریح آرٹیکل 370 میں ہی موجود ہے۔آرٹیکل 370 میں ترمیم کے لیے صرف آئینی اختیارات کا استعمال کیا جا سکتا ہے۔
وکلاء کی بحث فی الحال جاری ہے۔گو کہ کشمیر کے معاملے پر چاہے سپریم کورٹ ہو یا قومی انسانی حقوق کمیشن، ہندوستان کے کسی بھی مؤقر ادارے کا ریکارڈ کچھ زیادہ اچھا نہیں رہا ہے، مگر چونکہ اس مقدمہ کے ہندوستان کے عمومی وفاقی ڈھانچہ پر بھی دور رس اثرات مرتب ہوں گے، اس لیے شاید سپریم کورٹ کو اس کو صرف کشمیر کی عینک سے دیکھنے کے بجائے وفاقی ڈھانچہ اور دیگر ریاستوں پر اس کے اثرات کو بھی دیکھنا پڑے گا۔ اس تناظر میں امید ہے کہ وہ ایک معروضی نتیجے پر پہنچ کر کشمیری عوام کی کچھ دار رسی کا انتظام کر پائےگا۔خیر اس وقت تمام نگاہیں ہندوستانی سپریم کورٹ کی طرف ٹکی ہوئی ہیں۔ کیا سپریم کورٹ واقعی کوئی تاریخ رقم کرےگا؟ ایک بڑا سوال ہے، جس کا جواب وقت ہی دےگا۔
Categories: خبریں