خبریں

بلقیس کیس: سپریم کورٹ نے کہا – کچھ مجرم ایسے ہیں جو دوسروں سے زیادہ مراعات یافتہ ہیں

بلقیس بانو گینگ ریپ کیس میں11 قصورواروں کی سزا  میں تخفیف اور قبل از وقت رہائی کو چیلنج کرنے والی درخواستوں کی سماعت میں ایک مجرم کے وکیل کے دلائل سنتے ہوئے سپریم کورٹ نے  کہا کہ اس معاملے میں انہیں (مجرموں) کئی دنوں تک کئی بار باہر آنے کا موقع ملا۔

بلقیس بانو۔ (فائل فوٹو: پی ٹی آئی)

بلقیس بانو۔ (فائل فوٹو: پی ٹی آئی)

نئی دہلی: بلقیس بانو گینگ ریپ کیس میں11 مجرموں کی  سزامعافی (تخفیف) اور قبل از وقت رہائی کو چیلنج کرنے والی درخواستوں کی سماعت کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے جمعرات کو کہا کہ کچھ مجرم ایسےہیں جو ‘دوسروں سے زیادہ مراعات یافتہ’ ہیں۔

انڈین ایکسپریس کے مطابق، کیس کی سماعت کر رہی جسٹس بی وی ناگارتنا اور جسٹس اجول بھوئیاں کی بنچ  مجرمین میں سےایک مجرم کی طرف سے پیش ہونے والے سینئر وکیل سدھارتھ لوتھرا کے دلائل سن رہی تھی۔

جسٹس ناگرتنا نے کہا، ‘…اس معاملے میں انہیں (مجرموں) کئی دنوں تک باہر آنے کا موقع ملا۔ کئی دنوں تک، کئی بار..’

عدالت نے یہ تبصرہ اس وقت کیا جب لوتھرا نے کہا کہ جیل کی زندگی ‘بیرونی دنیا سے مکمل طور پر کٹی ہوئی رہتی  ہے’۔ مکمل طور پر منقطع… آپ دور ہیں… آپ کے پاس کوئی ذریعہ نہیں ہے۔’

سینئر وکیل نے کہا کہ جیل سے باہر آنے کا وقت کووڈ 19 کی وبا کے دوران دیا گیا تھا۔

اس پر جسٹس ناگارتنا نے کہا، ‘کچھ مجرم ایسے ہیں جو دوسروں کے مقابلے میں مراعات یافتہ ہیں، ہم یہی بات کہنا چاہتے ہیں۔’

ایڈوکیٹ لوتھرا نے کہا، ‘لیکن میں جو واضح کرنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ ہر مجرم…’ ان کی باتوں میں  مداخلت کرتے ہوئے جسٹس ناگارتنا نے کہا، ‘…برابر نہیں ہے۔’

لوتھرا نےبات پوری کرتے ہوئے کہا،’ہر مجرم ایک برابر نہیں ہوتا ہے اور ہر مجرم کو ایک آزادانہ نقطہ نظر کے ساتھ اصلاحی نظریے سے دیکھا جانا چاہیے۔ اس لیے مجرموں کے ذاتی حالات پر غورکرنےکی ضرورت ہے۔ ہم انہیں ایک ہی عینک سے نہیں دیکھ سکتے۔

درخواست گزاروں نے استدلال کیا تھا کہ مجرموں نے سزا میں معافی سے قبل ان پر عائد جرمانہ ادا نہیں کیا تھا اور اس بات کوان کے خلاف جانا چاہیے۔

تاہم، لوتھرا نے کہا، ‘ جرمانہ کب ادا کیا گیا، یہ سوال زیرغور  نہیں ہے کیوں کہ اس دلیل کا دوسرا پہلویہ ہے کہ ان کے لیے  کچھ کیے جانے سے پہلے انہیں سزا کی پوری مدت گزارنی چاہیےتھی۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ جرمانہ ادا نہ کرنا مہلک ہے۔’

ان کا مزید کہنا تھا کہ ‘میری دلیل سزا کی معافی کے حکم کے لیے مہلک نہیں ہے کیونکہ جو کم کیا جا رہا ہے وہ اصل سزا ہے۔ جرمانے میں ہوئی چوک کی سزا معافی سے مشروط نہیں ہے۔ ایسا نہیں ہو سکتا کیونکہ یہ الگ معاملہ ہے۔

لوتھرا نے کہا، ‘حقیقت یہ ہے کہ اس کی ادائیگی نہیں کی گئی تھی یا اس وقت ادا کی گئی تھی جب کیس زیر سماعت تھا، اس سےسزا کو کم کرنے والے حکم کی میرٹ یا جوازپر کوئی اثرنہیں پڑے گا۔’

اس پر جسٹس بھوئیاں نے سوال کیا کہ کیا مجرم کا جرمانہ ادا نہ کرنا اس کے طرز عمل کے دائرے میں نہیں آئے گا۔ اس پر لوتھرا نے کہا کہ 15 سال تک حراست میں رہنے کے بعد اسے ادا کرنے سے قاصر ہونا ہی  چاہیے۔ ‘یہ کم وقت نہیں ہے۔ 15 سال کی حراست میں… آپ کے خاندانی تعلقات ختم ہوچکے ہیں۔’

انہوں نے کہا کہ یہ ایسا معاملہ نہیں ہے جہاں لوگ چھوٹ گئے ہیں۔ ’قانون نے  اپناکام کر لیا ہے… سوال یہ ہے کہ سزا کب ختم ہوگی… کیا ایگزیکٹو کے پاس (چھوٹ دینے کا)اختیار نہیں ہونا چاہیے…‘

کیس کی اگلی سماعت 20 ستمبر کو ہوگی۔

بتادیں کہ مجرموں کو 15 اگست 2022 کو یوم آزادی کے موقع پر 2002 میں ہوئے  بلقیس بانو گینگ ریپ  اور اس کی بچی سمیت خاندان کے سات افراد کے قتل  کے معاملے میں عمر قید کی سزا کاٹ رہے  تمام 11 مجرموں کی سزا معاف کر دی گئی تھی اور ان کو رہا کر دیا گیا تھا۔

جب سپریم کورٹ نے اس سلسلے میں گجرات حکومت سے جواب طلب کیا تو ریاستی حکومت نے کہا کہ قصورواروں کو مرکز کی منظوری سے رہا کیا گیا۔ حکومت نے کہا تھا کہ ‘ان  (مجرموں) کا برتاؤ اچھا پایا گیا تھا’ اور انہیں اس بنیاد پر رہا کیا گیا کہ وہ  14 سال جیل میں گزار چکے ہیں۔ تاہم، ‘اچھے برتاؤ’ کی وجہ سے رہا ہونے والے مجرموں پرپیرول کے دوران بہت سے الزامات لگے تھے۔

قابل ذکر بات یہ ہے کہ یہ سبھی 2014 کی پالیسی کے تحت سزا معافی  کے اہل نہیں تھے، لیکن حکومت نے 1992 کی پالیسی کے تحت اس پرغور کیا کیونکہ جنوری 2008 میں جب انہیں سزا سنائی گئی تھی تب  یہ  رہنما اصول نافذ نہیں تھے۔

غور طلب  ہے کہ 3 مارچ 2002 کو احمد آباد کے قریب ایک گاؤں میں 11 افراد نے 19 سالہ بلقیس بانو کے ساتھ گینگ ریپ کیا تھا۔ اس وقت وہ حاملہ تھیں اور تب وزیر اعظم نریندر مودی گجرات کے وزیر اعلیٰ ہوا کرتے تھے۔ تشدد میں ان کے خاندان کے سات افراد بھی مارے گئے تھے،جن میں ان کی تین سالہ بیٹی بھی شامل تھی۔