خبریں

اترپردیش: اسکول کے ہندی پرچے میں مسلمانوں کے حوالے سے ’قابل اعتراض‘ سوال پوچھنے پر تنازعہ

اتر پردیش کے بہرائچ کے ایک اسکول کا معاملہ۔ الزام ہے کہ نویں جماعت کے ششماہی امتحان کے ہندی پرچے میں مختلف دہشت گرد تنظیموں کے ناموں کے ساتھ ہندوستانی مسلمانوں کو جوڑ دیا گیا تھا، جس کے بعد مقامی مسلمانوں  نے اسکول انتظامیہ کے خلاف احتجاجی مظاہرہ کیا۔ انتظامیہ  نے معافی مانگ کر پیپر تیار کرنے والے ٹیچر کوہٹا دیا ہے۔

(السٹریشن: پری پلب چکرورتی/ دی وائر)

(السٹریشن: پری پلب چکرورتی/ دی وائر)

نئی دہلی: اترپردیش کے بہرائچ کے ایک اسکول میں مسلمانوں کے حوالے سے قابل اعتراض سوال پوچھنے پر تنازعہ کھڑا ہوگیا ہے۔ معاملہ شہر کے گرو کرپا ڈیوائن گریس پبلک اسکول کا ہے۔ اسکول میں ششماہی امتحانات چل رہے ہیں اور یہ سوال نویں جماعت کے ہندی پیپر میں پوچھا گیا تھا۔

اس سوال کے خلاف مقامی مسلمانوں نے احتجاج کرتے ہوئے اسکول کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔

بتایا جا رہا ہے کہ اسکول نے معافی مانگی ہے اور کہا ہے کہ متنازعہ سوالنامے میں نادانستہ طور پر لفظ ‘مسلمان’ کا استعمال ہوگیا تھا۔ اسکول انتظامیہ نے سوالنامہ تیار کرنے والے ہندی ٹیچر کو بھی برخاست کردیا ہے اور امتحان کو بھی رد کردیا ہے۔

Baharaich-School-Paper-Muslim

دینک بھاسکر کی ایک رپورٹ کے مطابق، یہ سوال پیپر کےپہلے سیکشن میں معروضی سوال کے طور پر پوچھے گئے  تھے۔ متنازعہ سوال میں کہا گیا تھا کہ؛

‘دہشت گردی ایک عالمی مسئلہ ہے، جو انسانیت کے لیے ایک اہم چیلنج ہے۔ اس کی بڑی وجہ سیاسی خود غرضی، اقتدار کی لالچ اور مذہبی شدت پسندی  ہے جو دہشت گردوں کو جنم دیتی ہے۔ یہ سوچ کا ایک نظام ہے، جس میں ہندوستانی مسلم دہشت گرد، لشکر طیبہ، القاعدہ، طالبان اور اسلامی سیاست کی مختلف تنظیمیں شامل ہیں۔

یہ بھی کہا گیاتھاکہ جموں و کشمیر میں دہشت گردی کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے ہندوستانی  حکومت کو سخت اقدامات کرنے ہوں گے اور پاکستانی دراندازی کو روک کر اس ریاست پر اپنی گرفت مضبوط کرنا ہو گی اور اگر ضرورت پڑی تو وہ پاکستان کے ساتھ دو طرفہ مذاکرات کے ساتھ ساتھ جنگ کے لیے بھی تیار رہنا ہوگا۔

ہندی کا امتحان گزشتہ ہفتہ (23 ستمبر) کو تھا۔

نویں جماعت  کے ہندی کا متنازعہ پرچہ۔

نویں جماعت  کے ہندی کا متنازعہ پرچہ۔

اس کے خلاف مقامی لوگوں نے احتجاج کرتے ہوئے ڈی ایم کو میمورنڈم سونپا۔ لوگوں نے کہا کہ پرچے میں مختلف دہشت گرد تنظیموں کو ہندوستانی مسلمانوں سے جوڑا گیا ہے اور ہندوستانی مسلمانوں کو دہشت گرد بتایا گیا ہے۔

مظاہرین نے کہا کہ ہمارا مطالبہ ہے کہ اسکول کی منظوری کو ختم کیا جائے، کیونکہ اس طرح کے غیر ذمہ دارانہ پیپر سے ہندوؤں اور مسلمانوں میں نفرت کے جذبات پیدا ہوں گے۔ اس سے ہندو اور مسلم بچے ایک دوسرے سے نفرت کرنے لگیں گے۔ نفرت پر مبنی تعلیم نہیں ہونی چاہیے، محبت پر مبنی تعلیم ہونی چاہیے۔

امر اجالا کی رپورٹ کے مطابق، اسکول کی منیجر چھوی ریتانی نے بتایا کہ اس سوالنامے کی جانکاری نہیں تھی۔ ہندی کے ایک استاد نے اسے بنایا تھا، جس میں غلطی سے  یہ لفظ لکھ دیا گیا تھا۔ اطلاع ملتے ہی خاتون ٹیچر کو بلایا گیا اور ان سے وضاحت طلب کی گئی۔ نیز اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کہ مستقبل میں کوئی دوسرا استاد ایسی غلطی کا ارتکاب نہ کرے، ٹیچر کو اسکول سے نکال دیا گیا۔یہ انسانی غلطی ہے، اسکول انتظامیہ کسی کے جذبات کو ٹھیس نہیں پہنچانا چاہتی تھی۔

اسکول انتظامیہ نے نویں جماعت  کے  ہندی کےامتحان کو رد کر دیا ہے۔ منیجر نے بتایا کہ ہندی کا پرچہ 3 اکتوبر کو دوبارہ لیا جائے گا۔

یہ پیش رفت ایسے وقت میں ہوئی ہے جب 25 ستمبر کو سپریم کورٹ نے مظفر نگر کے ایک اسکول میں ایک خاتون ٹیچر کی جانب سے ایک مسلم طالبعلم کو اس کے دیگر ہم جماعتوں سےتھپڑ مارنے کےمعاملے میں اتر پردیش حکومت اور پولیس کو سخت سرزنش کی تھی۔

کیس میں ایف آئی آر درج کرنے میں تاخیر اور فرقہ وارانہ الزامات کو نظر انداز کرنے پر سوال اٹھاتے ہوئے بنچ نے ہدایت دی تھی کہ کیس کی تفتیش سینئر آئی پی ایس رینک کے پولیس افسر کریں گے۔

عدالت نے پایا کہ یہ بنیادی طور پر تعلیم کے حق کی لازمی تعمیل کرنے میں ریاست کی ناکامی ہے۔ یہ ایکٹ طلبہ کو جسمانی اور ذہنی طور پر ہراساں کرنے اور مذہب اور ذات پات کی بنیاد پر ان کے ساتھ امتیازی سلوک کو روکتا ہے۔

بنچ نے کہا تھا،’جب تک طلبا میں آئینی اقدار کی اہمیت کو بڑھانے کی کوشش نہیں کی جاتی ہے، تب تک  معیاری تعلیم نہیں ہو سکتی ہے۔ اگر کسی طالبعلم کو صرف اس کے مذہب کی بنیاد پر سزا دی جائے تو یہ معیاری تعلیم نہیں ہو سکتی۔ اس طرح یہ تعلیم کے حق کے قانون اور اس کے تحت بنائے گئے قوانین کی لازمی تعمیل کرنے میں ریاست کی بنیادی طور پر ناکامی ہے۔

عدالت نے حکم نامے میں کہا، ‘اگر الزام سچ ہے تو یہ کسی استاد کی طرف سے دی جانے والی بدترین قسم کی جسمانی سزا ہو سکتی ہے، جیسا کہ ٹیچر نے دوسرے طالبعلموں کو متاثرہ کو پیٹنے کی ہدایت دی تھی۔’

معلوم ہو کہ اتر پردیش میں برسوں سے تعلیمی بحران ہے، لیکن ہندوتوا کی تعلیم نے پیچیدگیوں کی ایک اور تہہ اس  میں جوڑ دی ہے۔

گزشتہ ہفتے دی ڈپلومیٹ ویب سائٹ کے لیے اتر پردیش میں کی گئی ایک تحقیقات میں پتہ چلا ہے کہ دیہی ہندوستان میں سنگل فاؤنڈیشن کے ذریعے چلائے جانے والے پرائیویٹ اسکول تعلیم تک رسائی فراہم کرتے ہیں،لیکن بچوں کو ہندو برتری کی نصیحت دینے  والی تفرقہ انگیز تعلیمات کو اپنانے کے لیے مجبور کیا  ہے۔