خبریں

نیوز کلک پر چھاپہ: صحافیوں سے دہلی فسادات، کسانوں کے احتجاج اور کووڈ بحران کے بارے میں پوچھا گیا

یو اے پی اے کے تحت درج ایک معاملے میں پوچھ گچھ کے بعد دہلی پولیس نے گزشتہ منگل کو نیوز ویب سائٹ نیوز کلک کے ایڈیٹر پربیر پرکایستھ اور ایڈمنسٹریٹر امت چکرورتی کو گرفتار کر لیا ہے۔ یہ معاملہ نیویارک ٹائمز کی ایک رپورٹ پر مبنی ہے، جس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ اس ویب سائٹ کو ‘ہندوستان مخالف’ ماحول بنانے کے لیے چین سے فنڈنگ کی گئی ہے۔

نیوز کلک نیوز پورٹل کا لوگو۔ (تصویر بہ شکریہ: فیس بک)

نیوز کلک نیوز پورٹل کا لوگو۔ (تصویر بہ شکریہ: فیس بک)

نئی دہلی: ‘انسداد دہشت گردی’ کی تحقیقات کے سلسلے میں گزشتہ منگل (3 اکتوبر) کی صبح دہلی پولیس نے جن صحافیوں کے یہاں چھاپے ماری کی، ان سے سوال کیا گیا کہ کیا انھوں نے 2020 کے دہلی فسادات، مودی حکومت کے زرعی قوانین کے خلاف  کسانوں کےایجی ٹیشن اور کووڈ-19 کےبحران جیسے معاملوں پر رپورٹنگ کی تھی۔

منگل کو نیوز ویب سائٹ نیوز کلک سے وابستہ کئی صحافیوں اور تبصرہ نگاروں کو پوچھ گچھ کے لیے دہلی پولیس کے اسپیشل سیل کے دفتر لے جایا گیا تھا۔

اس کے علاوہ بہت سے دوسرے لوگوں کی رہائش گاہوں پر چھاپے مارے گئے اور پولیس نے ان کے الکٹرانک آلات جیسے لیپ ٹاپ اور فون کو ضبط کر لیا تھا۔

چھاپے ماری  کے دوران جن کے الیکٹرانک آلات کو ضبط کیا گیا، ان میں سے کسی کوبھی  ہیش ویلیو نہیں دیا گیا۔ ہیش ویلیو سے پتہ چلتا ہے کہ ضبطی کے وقت ڈیوائس پر کتنا ڈیٹا تھا، اس سے یہ پتہ کیا جاسکتا ہے کہ بعد میں اس کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی گئی یا نہیں۔ پولیس کے خلاف چھیڑ چھاڑ کے الزامات کی صورت میں عدالتیں اس (ہیش ویلیو) کا ذکرکر سکتی ہیں۔

سینئر صحافی پرانجوئے گہا ٹھاکرتا، جنہیں منگل کی صبح تقریباً 8 بجے اسپیشل سیل کے دفتر لے جانے کے بعد شام 6 بجے رہا کیا گیا، انہوں  نے پولیس کی جانب سے پوچھے گئے سوالات کے بارے میں جانکاری دی ہے۔

ان سے پوچھا گیا تھاکہ کیا انہوں نے کسی امریکی نمبر پر کال کی تھی، جو ان کے بہنوئی کا ہے، اور کیا وہ سگنل میسجنگ ایپ استعمال کرتے ہیں۔ ان سے یہ بھی پوچھا گیا کہ کیا انہوں نے دہلی فسادات اور زرعی قوانین کے خلاف کسانوں کے احتجاج کو کور کیا تھا۔

پرانجوئے نے کہا، ‘جو کچھ ہوا وہ پبلک ڈومین میں ہے۔ وہ مجھے دوبارہ  بلا سکتے ہیں۔’پرانجوئے کو اڈانی گروپ کے معاملات اور کرونی کیپٹلزم (کاروباری رہنماؤں اور سرکاری افسران کے درمیان قریبی اور باہمی طور پر فائدہ مند تعلقات پر مبنی معاشی نظام) پر اپنی تحقیقاتی رپورٹس کے لیے جانا جاتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ افسران نے ان سے پوچھا کہ کیا انہوں نے دہلی فسادات کو کور کیا تھا۔ اس کے جواب میں انہوں نے کہا کہ میں نے جواب دیا نہیں، لیکن پھر انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ کیا میں نے کسانوں کے احتجاج کی رپورٹنگ کی ہے، تو میں نے کہا ہاں۔ وہاں بہت سے لوگ مجھ سے سوال کر رہے تھے۔ ان سب نے مختلف سوالات کیے۔’

نیوز کلک کے لیے فری لانس کرنے والے ایک سینئر صحافی نے دی وائر کو بتایا کہ دہلی پولیس اسپیشل سیل کی ایک چھ رکنی ٹیم جس میں کم از کم انسپکٹر رینک کا ایک افسر بھی شامل ہے، تلاشی کے نوٹس کے ساتھ ان کے گھر پہنچی تھی، جس میں سخت یو اے پی اےکی دفعات کا ذکر تھا۔

انہوں نے کہا، ‘ان کے پاس پہلے سے ہی میری ساری جانکاری تھی – میرا فون نمبر، میرا پتہ اور میری آن لائن سرگرمی۔ وہ مہذب انداز میں پیش آئے، لیکن نیوز کلک کے ساتھ میری وابستگی کے بارے میں مجھ سےلگاتار سوال کرتے رہے۔ میں نے انہیں اس کام کے بارے میں بتایا جو میں اس نیوز ویب سائٹ کے لیے کرتا ہوں۔’

نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر صحافی نے کہا، ‘وہ مجھ سے دہلی فسادات، کسانوں کے احتجاج اور کووڈ 19 وبائی امراض کے بارے میں میری رپورٹ کے بارے میں پوچھتے رہے۔’

ان مسائل پر صحافیوں کی زیادہ تر رپورٹ میں حکومت کی ناکامیوں اور غلطیوں کو اجاگر کیا گیا ہے۔

انہوں نے کہا، ‘مجھے ابھی تک نہیں معلوم کہ میرے خلاف اگر کوئی الزام  ہے تو کیا ہے۔ مجھے کوئی ایف آئی آر نہیں ملی ہے، لیکن انہوں نے میرا فون اور لیپ ٹاپ چھین لیا ہے۔’

پولیس نے اس صحافی کے گھر پر دو گھنٹے سے زیادہ چھاپے ماری کی تھی۔

نیوز کلک کی ادارتی ٹیم کی ایک جونیئر رکن نے دی وائر کو بتایا کہ ان سے پوچھا گیا تھاکہ کیا انہیں کسانوں کے احتجاج اور دہلی فسادات کی رپورٹنگ کے لیے ‘اضافی معاوضہ’ دیا گیا تھا۔

انہوں نے بتایا کہ وہ یہ بھی جاننا چاہتے تھے کہ میں نے ملک اور حکومت کے خلاف رپورٹس کیوں لکھیں۔ ان کے پاس کوئی فالو اپ سوال نہیں تھا، صرف ایک پروفارما تھا جسے وہ پڑھ رہے تھے۔’

وہ اس وقت حیران رہ گئیں جب پولیس صبح چھ بجے ان کے گھر پہنچی اور تین گھنٹے تک چھاپے ماری کی۔ انہوں نے بتایا کہ ‘میرے الکٹرانک آلات اور پاسپورٹ چھینتے ہوئے انہوں نے مجھے بتایا کہ 96 مقامات پر چھاپے مارے گئے ہیں۔’

معلوم ہو کہ نیوز کلک کے خلاف معاملہ ظاہری طور پر نیویارک ٹائمز کی ایک رپورٹ پر مبنی ہے، جس میں کہا گیا تھا کہ اس نیوز ویب سائٹ کو ایک امریکی کروڑ پتی سے فنڈنگ ملی ہے جس نے چینی مسائل کو فروغ دیا ہے۔

دی وائر نے خبر دی تھی کہ کس طرح بی جے پی ایم پی  نشی کانت دوبے نے نیویارک ٹائمز کی ایک رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے لوک سبھا میں دعویٰ کیا تھا کہ راہل گاندھی  جیسے کانگریسی لیڈراور نیوز کلک کو ‘ہندوستان مخالف’ ماحول بنانے کے لیے چین سے فنڈنگ ملی ہے۔

تاہم، یہ چھاپےماری  ایف آئی آر نمبر 224/2023 کے سلسلے میں کی گئی ہے، جو 17 اگست 2023 کو درج کی گئی تھی۔ ایف آئی آر میں سخت یو اے پی اے کی کئی دفعات(13، 16، 17، 18 اور 22) کے علاوہ تعزیرات ہند (آئی پی سی) کی دفعہ 153اے (مذہب، نسل، جائے پیدائش، رہائش، زبان وغیرہ  کی بنیاد پر مختلف گروہوں کے درمیان دشمنی کو فروغ دینا) اور دفعہ 120بی (مجرمانہ سازش میں ملوث ہونا) شامل کیے گئے ہیں۔

منگل کی صبح چھاپے ماری اور پوچھ گچھ کے بعد دہلی پولیس نےنیوز کلک کے ایڈیٹر پربیر پرکایستھ اور ایڈمنسٹریٹر امت چکرورتی کو گرفتار کر لیا ہے۔

اس سے قبل منگل کی صبح پولیس افسران نے اس نیوز ویب سائٹ سے وابستہ تقریباً 50 صحافیوں اور تبصرہ نگاروں کے گھروں پر چھاپے ماری کی تھی۔

انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔