حقوق انسانی

سپریم کورٹ نے ہم جنس پرستوں کی شادی کو قانونی حیثیت دینے کی اپیل کو مسترد کیا

پانچ ججوں کی بنچ نے اس تجویز کو بھی 3:2 سے خارج کر دیا کہ ہم جنس جوڑے بچوں کو گود لے سکتے ہیں۔

(تصویر بہ شکریہ: وکی میڈیا/فلکر)

(تصویر بہ شکریہ: وکی میڈیا/فلکر)

نئی دہلی: سپریم کورٹ نے منگل (17 اکتوبر) کو شادی کے حقوق میں مساوات (ہم جنس پرستوں کوبھی  شادی کا حق دینے)کے معاملے میں اپنا فیصلہ سنایا۔ عدالت نے اس بات پر اتفاق کیا کہ مجموعی طور پر ایسے حقوق دینے کا فیصلہ پارلیامنٹ کو کرنا چاہیے اور اس کو عدالت میں  نہیں لایا جا سکتا۔

رپورٹ کے مطابق، اپنے فیصلے میں ملک کے چیف جسٹس (سی جے آئی) ڈی وائی چندرچوڑ نے کہا کہ شادی میں مساوات قانونی ہے یا نہیں، اس پر پارلیامنٹ کو فیصلہ کرنا چاہیےاور نئے قانون وضع کرنا عدالت کے دائرہ اختیار میں نہیں ہے۔

بنچ میں ہندوستان کے چیف جسٹس کے علاوہ جسٹس سنجے کشن کول، جسٹس رویندر بھٹ، جسٹس ہیما کوہلی اور جسٹس پی ایس نرسمہا شامل تھے۔ سی جے آئی نے کہا کہ ‘کچھ حد تک اتفاق اور کچھ اختلاف’ کے ساتھ مجموعی طور پر چار فیصلےسنائے گئے ہیں۔

سی جے آئی نے سماعت کے دوران یہ بھی کہا کہ حکومت کو شادی کےبغیر بھی ہم جنس پرستوں کے تعلقات کو تسلیم کرنا چاہیے اور انہیں قانونی تحفظات اورحقوق فراہم کیا جانا چاہیے۔جسٹس کول نے اس سے اتفاق کیا۔ تاہم، تین ججوں نے اس  سے اختلاف کیا۔

سماعت کے دوران بنچ نے معاملے کو اسپیشل میرج ایکٹ، 1954 (ایس ایم اے) تک محدود رکھا اور واضح کیا کہ یہ ہندو میرج ایکٹ یا کسی دوسرے پرسنل لاء سے نہیں نمٹےگا۔

کوئیر ہونا شہری یا اشرافیہ ہونانہیں ہے: سی جے آئی

سی جے آئی چندر چوڑ نے کہا کہ ان کا فیصلہ عدالتی نظرثانی اور اختیارات کی علیحدگی کے معاملے سے متعلق ہے۔

انہوں نے کہا، ‘کوئیر لوگ شہری ہوں یا دیہی تمام برادریوں اور بستیوں میں موجود ہیں۔آئین کا مطالبہ  ہے کہ یہ عدالت شہریوں کے بنیادی حقوق کو تحفظ فراہم  کرے۔‘ انہوں نے مزید کہا کہ اختیارات کی علیحدگی کا اصول اس عدالت کے ذریعے بنیادی حقوق کے تحفظ کے لیے ہدایات جاری کرنے کے راستے میں نہیں آتا ہے۔’

سی جے آئی  چندر چوڑ نے اپنے فیصلے کے ایک حصے کا عنوان ‘کوئیر شہری یا اشرافیہ نہیں ہے’ دیا ہے۔

انہوں نے کہا، ‘ایسا نہیں ہے کہ صرف انگلش بولنے والا یا وہائٹ کالر جاب کرنے والا مرد ہی ہم جنس پرست ہونے کا دعویٰ کر سکتا ہے، گاؤں میں زراعت پیشہ عورت بھی کوئیر ہو سکتی ہے…کوئیر ہونا کسی کاسٹ، کمیونٹی یا سماجی و اقتصادی حیثیت سے بالاتر ہو سکتا ہے۔’

ان کا یہ بیان مرکزی حکومت کی اس دلیل کا جواب تھا کہ یہ موضوع صرف شہری اشرافیہ طبقے سے متعلق ہے۔

سی جے آئی نے اپنے فیصلے میں کہا، ‘شادی مستقل نہیں ہے۔ گھریلو مسائل میں حکومت کی عدم موجودگی کی وجہ سے کمزور فریق عدم تحفظ کا شکار ہے۔ اس طرح نجی جگہوں پر ہونے والی سرگرمیوں کو حکومت کی نظروں  سے بالاتر نہیں رکھا جا سکتا۔

ججوں نے یہ سوال بھی اٹھایا کہ کیا عدالت اسپیشل میرج ایکٹ کی دفعہ 4 کو منسوخ کرسکتی ہے۔سی جے آئی  چندرچوڑ نے کہا، ‘اگر درخواستوں کے موجودہ بیچ میں یہ عدالت یہ مانتی ہے کہ اسپیشل میرج ایکٹ کی دفعہ4 شامل ہونے کی وجہ سے غیر آئینی ہے، تو اسے یا تو ختم کرنا ہوگا یا اس کی طاقت کا کام  میں لانا ہوگا۔’

انہوں نے کہا، ‘اگر اسپیشل میرج ایکٹ کو منسوخ کیا جاتا ہے تو یہ ملک کو آزادی سے پہلے کے دور میں لے جائے گا۔ اگر عدالت دوسرا طریقہ اختیار کرتی ہے اور ایس ایم اے میں اضافہ کرتی ہے، تو یہ مقننہ کا کردار ادا کرے گی۔ عدالت ان باتوں کے لیے نہیں ہے۔ ایس ایم اے میں تبدیلی کا فیصلہ پارلیامنٹ کو کرنا ہے۔

سی جے آئی  چندرچوڑ نے کہا، ‘سول یونین کےاختیارات میں اپنا ساتھی منتخب کرنے کا حق اور اس تعلق کو تسلیم کرنے کا حق شامل ہے۔ اگر کوئیر رشتوں کو تسلیم نہیں کیا جاتا ہے، تو یہ آزادی میں رکاوٹ پیدا کرسکتا ہے۔ ہمسفر کا انتخاب کسی کی زندگی کا سمت ورفتار کا انتخاب کرنے کا ایک لازمی حصہ ہے۔ کچھ لوگ اسے اپنی زندگی کا سب سے اہم فیصلہ سمجھ سکتے ہیں۔ یہ حق آرٹیکل 21 کے تحت ملنے والی زندگی اور آزادی کے حق تک  ہے۔’

انہوں نے مزید کہا، ‘اس عدالت نے مانا ہے کہ کوئیر لوگوں کے ساتھ امتیازی سلوک نہیں کیا جا سکتا۔ ہیٹرو سیکسوول جوڑوں  کو سہولیات  اور خدمات فراہم کرنا اور ہم جنس پرست جوڑوں کو اس سے محروم کرنا ان کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہوگی۔’

انہوں نے گود لینے کے قوانین کے بارے میں بھی بات کی اور کہا کہ اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ صرف شادی شدہ ہیٹرو سیکسوول جوڑے ہی اچھے والدین بن سکتے ہیں۔انھوں نے کہا، ‘کارس ریگولیشن 5(3) بالواسطہ طور پر غیرمعمولی رشتوں کو تحفظ فراہم کرتا ہے۔ ایک ہم جنس پرست شخص صرف انفرادی حیثیت میں ہی گود لے سکتا ہے۔ یہ ہم جنس پرستوں کے ساتھ امتیازی سلوک کو مضبوط بنانے کے مترادف ہے۔ کارا سرکلر (جو ہم جنس پرستوں کو گود لینے سے روکتا ہے) آئین کے آرٹیکل 15 کی خلاف ورزی ہے۔’

سی جے آئی چندر چوڑ نے کہا کہ وہ جسٹس بھٹ کے فیصلے کے کچھ حصوں سے متفق نہیں ہیں۔

سی جے آئی نے کہا، ‘جسٹس بھٹ کے فیصلے کے برعکس میرے فیصلے میں دی گئی ہدایات سے کسی  ادارے کی تشکیل نہیں ہوتی ہے، بلکہ وہ آئین کے پارٹ 3 کے تحت بنیادی حقوق کو مؤثربناتے ہیں۔’

اس کے بعد چیف جسٹس نے ان کی طرف سے جاری کردہ ہدایات کو پڑھا۔ ان میں کوئیر جوڑوں کے لیے ہاٹ لائن سہولیات، سیف ہاؤس بنانا اور بیداری پھیلانا کہ کوئیر ہونا فطری ہے، اور پولیس کو حکم دینا کہ ہم جنس پرستوں کو پولیس اسٹیشنوں میں بلا کر غیر ضروری طور پر ہراساں نہ کریں، شامل تھا۔

اپنے فیصلے کے اختتام پر سی جے آئی نے کہا کہ سپریم کورٹ شادی میں مساوات کے حقوق  کی اجازت دینے کے لیےاسپیشل  میرج  ایکٹ کو تبدیل نہیں کر سکتی کیونکہ یہ پارلیامنٹ کے دائرہ اختیار میں آتا ہے۔ تاہم، انہوں نے دلیل دی کہ ‘حکومت کی جانب سے کوئیر رشتوں کے حقوق کو تسلیم کرنے میں ناکامی امتیازی سلوک کے مترادف ہے۔’

انہوں نے کہا، ‘کسی کے ساتھ رشتے میں آنے کے حق کو جنسی رجحان کی بنیاد پر محدود نہیں کیا جا سکتا۔’

انہوں نے کہا، ‘ہم سالیسٹر جنرل کا بیان ریکارڈ کرتے ہیں کہ مرکزی حکومت ہم جنسی کے رشتے میں رہنے والے لوگوں کے حقوق کے بارے میں فیصلہ کرنے کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دے گی اور یہ کمیٹی راشن کارڈوں  میں ہم جنس جوڑوں کو خاندان کے طور پر شامل کرنے پر بھی غور کرے گی، ہم جنس پرست جوڑوں کو بینک اکاؤنٹس وغیرہ میں ایک دوسرے کو نامزد کرنے کے قابل بنانے پربھی  غور کرے گی۔

شہریوں کے رشتوں کو تسلیم کرنا ضروری ہے: جسٹس ایس کے کول

سی جے آئی کے بعد جسٹس کول نے اپنا فیصلہ پڑھ کر سنایا۔ انہوں نے کہا، ‘میں سی جے آئی کے فیصلے سے متفق ہوں۔ آئینی عدالت کے لیے حقوق کی پاسداری کوئی نئی چیز نہیں ہے اور عدالت کو آئینی اخلاقیات چلاتی ہے نہ کہ سماجی اخلاقیات سے۔ ان [کوئیر] رشتوں کو شراکت داری اور محبت بھرے رشتوں کے طور پر تسلیم کیا جانا چاہیے۔’

جسٹس کول نے کہا کہ وہ جسٹس بھٹ کے اس دعوے سے متفق نہیں ہیں کہ ایس ایم اے صرف ہیٹروسیکسوول شادیوں کی اجازت دینے کے لیے منظور کیا گیا تھا۔

جسٹس کول نے کہا، ‘غیر ہیٹروسیکسوول رشتےاور ہیٹرو سیکسوول رشتے کو ایک ہی سکے کے دو رخ کے طور پر دیکھا جانا چاہیے۔ یہ وقت تاریخی ناانصافی اور امتیاز کو دور کرنے کا ایک موقع ہے اور اس لیے حکومت کو ایسے رشتوں یا شادیوں کو حقوق دینے کی ضرورت ہے۔’

انہوں نے انسداد امتیازی قانون کے لیےسی جے آئی  کی اپیل کی بھی حمایت کی۔ جسٹس کول نے کہا، ‘غیرہیٹروسیکسوول رشتے کو قانونی حیثیت  دینا شادی کی برابری کی سمت میں  ایک قدم ہے۔’

عدالت حکومت سے ہم جنس جوڑوں پر قانون بنانے کے لیے نہیں کہہ سکتی: جسٹس رویندر بھٹ اور جسٹس ہیما کوہلی

اس کے بعد جسٹس رویندر بھٹ نے اپنے اور جسٹس ہیما کوہلی کے فیصلےکوپڑھا۔ انہوں نے بڑی حد تک سی جے آئی کی باتوں سے اتفاق کیا، حالانکہ جسٹس بھٹ نے کہا کہ دونوں ہدایات کے معاملے پر متفق نہیں تھے۔ انہوں نے کہا کہ وہ جسٹس نرسمہا کے اتفاق والے فیصلے سے متفق ہیں۔

جسٹس بھٹ نے کہا کہ وقت کے ساتھ ساتھ شادی کے ادارے میں بہت سی اصلاحات ہوئی ہیں۔ قرب حاصل کرنے کی جگہوں کو جمہوری بنانے کے بارے میں ہم خاص طور پرسی جے آئی  کے خیالات سے متفق نہیں ہیں …یہ مقننہ کے ذریعے لائے گئے تھے۔ جہاں تک ہم جنس پرستوں کو تشدد کا سامنا ہے، عدالتیں کئی بار مداخلت کر چکی ہیں، اور یہ شہریوں کی حفاظت کرنا حکومت کے فرض کا حصہ ہے۔

جسٹس بھٹ نے کہا، ‘اس عدالت نے مانا ہے کہ شادی ایک سماجی ادارہ ہے۔ ایک ادارے کے طور پر شادی حکومت سے پہلے ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ شادی کا ڈھانچہ حکومت کے وجود یا عدم موجودگی سے قطع نظر موجود ہے۔ شادی کی شرائط میں حکومت شامل نہیں ہے۔

جسٹس بھٹ نے کہا کہ عدالت ریاست سے ہم جنس جوڑوں کے لیے قانونی درجہ دینے کا مطالبہ نہیں کر سکتی۔

انہوں نے کہا، ‘ہم سمجھتے ہیں کہ رشتے کا حق ہے، واضح طور پر مانتے ہیں کہ یہ آرٹیکل21کے تحت آتا ہے۔ اس میں اپنے ساتھی کو منتخب کرنے اور قرب حاصل کرنے کا حق شامل ہے۔ وہ تمام شہریوں کی طرح بغیر کسی رکاوٹ کے اپنے حقوق سے مستفید ہو سکتے ہیں، تاہم، عدالت کسی سماجی ادارے (شادی) کی تشکیل یا تبدیلی سے متعلق معاملوں میں راحت نہیں دے سکتی۔’

جسٹس بھٹ نے کہا، ‘شادی کرنے کا کوئی مطلق حق نہیں ہو سکتا، جسے بنیادی حق سمجھا جانا چاہیے۔’سی جے آئی  نے بھی اس کی نشاندہی کی تھی۔

انہوں نے کہا کہ دو رضامند بالغ افراد ہمیشہ ایک ساتھ رہنے اور قرب حاصل کرنے کا انتخاب کر سکتے ہیں، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ دوسرے کیا کہتے ہیں۔ انہیں اس طرح جینے، تشدد سے بچنے اور عزت کے ساتھ جینے کا حق ہے۔

جسٹس بھٹ نے کہا، ‘عدالتی حکم کے ذریعےرشتے بنانے کا حق دینے میں مشکلات ہیں۔’انھوں نے مزید کہا کہ عدالت ہم جنس جوڑوں کے لیے کوئی قانونی ڈھانچہ نہیں بنا سکتی اور ایسا کرنا مقننہ کا کام ہے۔

جسٹس بھٹ نے کہا، ‘تمام ہم جنس پرست افراد کو اپنا ساتھی چننے کا حق ہے۔ لیکن حکومت کو ان حقوق کو تسلیم کرنے پر مجبور نہیں کیا جا سکتا جو ایسے رشتوں کے ساتھ آتے ہیں۔ ہم اس پہلو پر سی جے آئی سے متفق نہیں ہیں۔’

انہوں نے کہا کہ ایس ایم اے کو جینڈر ینوٹرل طریقے سے نہیں دیکھا جا سکتا، کیونکہ اس کے بالواسطہ نتائج ہوں گے اور یہ خواتین کے لیے نقصان دہ ہو سکتا ہے۔

جسٹس بھٹ نے کہا کہ ہم جنس شراکت داروں کو پی ایف، پنشن وغیرہ جیسے فوائد سے انکار امتیازی ہو سکتا ہے۔ تاہم، سالیسٹر جنرل نے پہلے ہی کہا تھا کہ ایسی ضروری تبدیلیوں پر غور کرنے کے لیے ایک کمیٹی بنائی جائے گی۔

جسٹس بھٹ نے یہ بھی کہا کہ وہ ہم جنس پرست جوڑوں کے گود لینے کے حق پر سی جے آئی سے متفق نہیں ہیں۔

انہوں نے کہا، ‘اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ غیر شادی شدہ یا غیرہیٹرو سیکسوول جوڑے اچھے والدین نہیں ہو سکتے… دفعہ57 کے مقصد کو دیکھتے ہوئےسرپرست کے طور پرحکومت کومزید جاننے کی ضرورت ہے اور اس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ مستقل گھر کی تلاش میں رہنے والے اکثر بچوں تک  تک تمام فوائد پہنچ سکیں۔

جسٹس بھٹ نے خلاصہ کے طور پر کہا، ‘سول یونین کو قانونی حیثیت دینا صرف نافذ شدہ قانون کے ذریعے ہی ہو سکتا ہے۔ لیکن یہ نتائج کوئیرلوگوں کو تعلقات بنانے کا حق حاصل کرنے سے نہیں روکیں گے۔’

جسٹس بھٹ سے اتفاق کیا جسٹس نرسمہا نے

جسٹس نرسمہا نے جسٹس بھٹ کے نتائج سے اتفاق کیا۔ انہوں نے کہا کہ اسپیشل میرج ایکٹ اور فارن میرج ایکٹ کو آئینی چیلنج جسٹس بھٹ کی طرف سے دی گئی وجوہات سے ناکام ہونی چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ ‘اس معاملے میں قانون سازی کے فریم ورک کے اثرات کا جائزہ لینے کے لیےغوروفکرکی ضرورت ہے اور اس کے لیے قانون ساز کو ایسا کرنے کی ذمہ داری آئینی طور پر سونپی گئی ہے۔’

کیاتھا معاملہ

سپریم کورٹ نے 11 مئی کودس دنوں کی سماعت کے بعد کیس میں اپنا فیصلہ محفوظ کر لیا تھا۔

درخواست گزاروں کے وکیل نے استدلال کیا تھا کہ اسپیشل میرج ایکٹ غیر ہیٹروسیکسوول جوڑوں کے بائیکاٹ کی وجہ سےامتیازی ہے اور ان کی شادی تک رسائی سے انکار کمتری اور ماتحتی کے مترادف ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ غیر ہیٹروسیکسوول جوڑوں کے رشتے کو غیر امتیازی طریقے سے شادی شدہ جوڑوں کے طور پر تسلیم کرنا حکومت کا فرض ہے ۔

مرکزی حکومت کی طرف سے پیش ہوئے سالیسٹر جنرل تشار مہتہ نے درخواستوں کی مخالفت کی تھی۔

حکومت ہم جنس پرستوں کی شادی کی مسلسل مخالفت کرتی رہی ہے۔ مارچ کے مہینے میں بھی مرکز کی مودی حکومت نے ہم جنس پرستوں کی شادی کو تسلیم کرنے کا مطالبہ کرنے والی عرضیوں کی سپریم کورٹ میں مخالفت کی تھی۔

مرکز نے کہا تھا کہ ہیٹرو سیکسوول رشتے ‘سماجی، ثقافتی اور قانونی طور پر شادی کے خیال اور تصور میں شامل ہیں اور انہیں عدالتی تشریح سے کمزور نہیں کیا جانا چاہیے۔’

قابل ذکر ہے کہ حکومت نے اپنے حلف نامے میں یہ بھی کہا تھا کہ ہم جنس پرستوں کی شادی ‘اشرافیہ طبقے کا آئیڈیا‘ ہے۔

تاہم، اس کے بعد سی جے آئی  چندر چوڑ نے کہا تھا کہ حکومت کے پاس یہ ثابت کرنے کے لیے کوئی ڈیٹا نہیں ہے کہ ہم جنس پرستوں کی شادی ‘شہری اشرافیہ کا خیال’ ہے۔ انہوں نے کہا تھا کہ حکومت کسی شخص کے خلاف  اس بنیاد پر امتیازی سلوک نہیں کر سکتی، جس پر اس شخص کا کوئی اختیار نہیں ہے۔’