خبریں

کشمیر کو خصوصی آئینی حیثیت دینے والے آرٹیکل 370 کے خاتمے کے فیصلے کو سپریم کورٹ نے برقرار رکھا، کہا- یہ عارضی شق تھی

سی جے آئی ڈی وائی چندرچوڑ کی سربراہی  والی بنچ نے کہا کہ آرٹیکل 370 کو منسوخ کرنے اور جموں و کشمیر کو مرکز کے زیر انتظام علاقوں میں تقسیم کرنے کا آئینی فیصلہ  پوری طرح سے جائز  ہے۔ اس کے ساتھ ہی اس نے ریاست میں 30 ستمبر 2024 سے پہلے اسمبلی انتخابات کرانے کی ہدایت بھی دی۔

 (تصویر بہ شکریہ: فائل/انج گپتا/فلکر CC BY-NC 2.0 DEED)

(تصویر بہ شکریہ: فائل/انج گپتا/فلکر CC BY-NC 2.0 DEED)

نئی دہلی: سپریم کورٹ نے نریندر مودی حکومت کی جانب سے اگست 2019 میں جموں و کشمیر میں آرٹیکل 370 کو منسوخ کرنے اور ریاست کو دو مرکز کے زیر انتظام علاقوں میں تقسیم کرنے کا فیصلہ کرنے والے آئینی فیصلے کو برقرار رکھا۔

اس فیصلے کو چیلنج کرنے والی عرضیوں پر 2 اگست 2023 سے شروع ہوئی شنوائی  کے بعد عدالت نے 5 ستمبر کو اپنا فیصلہ محفوظ کر لیا تھا۔

رپورٹ کے مطابق، سوموار کو فیصلہ سناتے ہوئے سی جے آئی ڈی وائی چندرچوڑ کی سربراہی والی بنچ نے کہا کہ آرٹیکل 370 ایک عارضی شق تھی اور اسے منسوخ کرنےوالا آئینی فیصلہ پوری طرح سے جائزہے۔

اس سوال پر کہ کیا جموں و کشمیر کے ہندوستانی یونین میں شامل ہونے پر کی اس کی داخلی خودمختاری برقرار رہی، عدالت نے کہا کہ ایسا نہیں ہے۔ عدالت نے لداخ کو یونین ٹریٹری بننے کو بھی جائز مانا ہے۔

اس کے ساتھ ہی عدالت نے الیکشن کمیشن کو جموں و کشمیر اسمبلی انتخابات 30 ستمبر 2024 سے پہلے کرانے کی ہدایت دی ہے۔

فیصلے میں یہ بھی کہا گیا کہ اس سلسلے میں صدر کی جانب سے اختیارات کا استعمال جائز تھا اور بدنیتی پر مبنی نہیں تھا۔ عدالت نے مزید کہا کہ آرٹیکل 370 کو ہٹانے کا نوٹیفکیشن دینے کا صدر کا اختیار جموں و کشمیر کی آئین ساز اسمبلی کی تحلیل کے بعد بھی برقرار رہتاہے۔

اس سوال پر کہ کیا پارلیامنٹ کسی ریاست کو مرکز کے زیر انتظام علاقے میں تبدیل کر سکتی ہے، عدالت نے کہا کہ وہ ایسا اس لیے ہونے دے رہی ہے کہ سالیسٹر جنرل نے وعدہ کیا ہے کہ جموں و کشمیر کا ریاستی درجہ بحال کیا جائے گا۔

بنچ نے یہ بھی کہا کہ مرکز کے ہر فیصلے کو چیلنج نہیں کیا جا سکتا۔

سی جے آئی کے علاوہ اس بنچ میں جسٹس سنجے کشن کول، جسٹس سنجیو کھنہ، جسٹس بی آر گوئی اور جسٹس سوریہ کانت شامل تھے۔ 2 اگست 2023 کو شروع ہوئی شنوائی سے قبل یہ تاریخی مقدمہ تین سال سے زائد عرصے سے عدالت میں غیر فعال پڑا تھا، جہاں اس سال سے پہلے اس کی آخری لسٹنگ مارچ 2020 میں ہوئی تھی۔

سپریم کورٹ نے سوموار کو تین فیصلے سنائے ۔ ایک سی جے آئی  چندرچوڑ نے اپنی طرف سےاور دوسرےجسٹس گوئی اور جسٹس سوریہ کانت کی طرف سے۔ سی جے آئی نے کہا کہ جسٹس کول نے بھی اتفاق کرتے ہوئے ایک  رائے لکھی تھی اور جسٹس کھنہ نے دونوں سے اتفاق کیا تھا۔

بتادیں کہ 5 اگست 2019 کو مرکزی حکومت نے پارلیامنٹ میں ایک قرارداد پیش کرکے آرٹیکل 370 کی زیادہ تر شقوں کو ختم کر دیا تھا اور جموں و کشمیر کو دو مرکز کے زیر انتظام علاقوں میں تقسیم کر دیا تھا۔ حکومت کے اس فیصلے کو چیلنج کرتے ہوئے سپریم کورٹ میں کم از کم 23 عرضیاں دائر کی گئی تھیں۔

اس سے قبل جون 2018 میں اس وقت کی ریاستی اسمبلی کو تحلیل کر دیا گیا تھا اور یہاں گورنر راج نافذ کر دیا گیا تھا۔

سپریم کورٹ میں سینئر ایڈوکیٹ کپل سبل، گوپال سبرامنیم، دشینت  دوے، راجیو دھون، دنیش دویدی، گوپال شنکر نارائن سمیت 18 وکلاء نے مختلف عرضی گزاروں کی طرف سے دلائل پیش کیے تھے، جبکہ مرکزی حکومت کی جانب سے اٹارنی جنرل آر وینکٹ رمنی، سالیسٹر جنرل تشار مہتہ، سینئر وکیل ہریش سالوے، مہیش جیٹھ ملانی، منندر سنگھ، راکیش دویدی نے جرح کی تھی۔

مرکزی حکومت نے اس سال جولائی میں آرٹیکل 370 کو ہٹانے کو چیلنج کرنے والی 23 درخواستوں کی سماعت سے پہلے سپریم کورٹ میں داخل کیے گئے ایک نئے حلف نامہ میں اگست 2019 کے فیصلے کا دفاع کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ ‘اس خطے میں بے مثال ترقی، پیش رفت، سلامتی اور تحفظ اور استحکام لے کر آیا ہے، جو آرٹیکل 370 کے نافذ ہونے کے وقت اکثر غائب رہتا تھا۔’

حلف نامے میں اس بات پر زور دیا گیا تھاکہ گزشتہ تین سالوں میں علاقے میں سیکورٹی کی صورتحال میں نمایاں بہتری آئی ہے۔ مرکز نے کہا تھاکہ 2018 اور 2022 کے درمیان ‘لائ اینڈ آرڈر کے واقعات’ میں 97.2 فیصد اور ‘دہشت گردی کے واقعات’ میں 45.2 فیصد کی کمی آئی ہے۔

تاہم، علاقے کی سیاسی جماعتیں اور سول سوسائٹی گروپ آرٹیکل 370 کے خاتمے کی سخت تنقید کرتے  رہے ہیں۔ رپورٹس میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ کشمیر کے لوگ بھی مرکزی حکومت کے برعکس رائے رکھتے ہیں۔ درخواست گزاروں کا یہ بھی ماننا ہے کہ اگست 2019 میں حکومت ہند کی طرف سے کی گئی تبدیلیاں ‘یکطرفہ’ تھیں اور اس میں ‘جموں و کشمیر کے لوگوں کی رضامندی’ شامل نہیں تھی۔