خبریں

مجرموں کی سزا معافی رد ہونے کے بعد بلقیس نے کہا – اب میں سانس لے پا رہی ہوں

سپریم کورٹ کے ذریعے بلقیس بانو کے ساتھ گینگ ریپ اور ان کے اہل خانہ کے قتل کے 11 قصورواروں کی سزا معافی منسوخ کیے جانے کے بعد بلقیس نے عدالت کے ساتھ ساتھ ان کی حمایت میں کھڑے ہونے والوں کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ میری دعا ہے کہ قانون کی بالادستی قائم رہےاور قانون کی نظر میں سب یکساں رہے۔

بلقیس بانو۔ (تصویر: وکی میڈیا/شوم بسو)

بلقیس بانو۔ (تصویر: وکی میڈیا/شوم بسو)

نئی دہلی: سپریم کورٹ نے بلقیس بانو کے ساتھ گینگ ریپ اور ان کے اہل خانہ کے قتل کے 11 مجرموں کی سزا معافی اور رہائی  کو ردکر دیا ہے۔ سوموار کو ان کی سزا معافی کو چیلنج کرنے والی عرضیوں پر فیصلہ سناتے ہوئے عدالت نے کہا کہ گجرات حکومت کے پاس  مجرموں کو قبل از وقت رہا کرنے کا حق نہیں ہے۔ ساتھ ہی عدالت نے مجرموں کو دو ہفتے کے اندر دوبارہ جیل میں سرینڈر کرنے کو کہا ہے۔

اس فیصلے کے بعد بلقیس نے اپنی وکیل شوبھا گپتا کے توسط سے جاری ایک بیان میں کہا ہے کہ اب وہ سانس لے پا رہی ہیں۔ انہیں محسوس ہو رہا ہے جیسے سینے سے کوئی بڑا پتھر ہٹ گیا ہو۔

ان کا پورا بیان ذیل میں پڑھا جا سکتا ہے؛

دراصل، آج میرے لیے نیا سال شروع ہوا ہے۔ میری آنکھیں راحت کے آنسوؤں سے بھیگ گئی  ہیں۔ پچھلے ڈیڑھ سال میں آج پہلی بار میرے چہرے پر مسکراہٹ واپس آئی ہے، میں نے اپنے بچوں کو گلے لگایا اور مجھے ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ میرے سینے سے پہاڑ جیسا پتھر آج ہٹ گیا ہو۔ اب میں سانس لے پا رہی ہوں۔

یہی انصاف کا احساس ہے میرے لیے، میرے بچوں اور ہر جگہ کی ہر عورت کے لیے مساوی انصاف کی حمایت کرنے  اور امید کی روشنی کے وعدے کے لیے میں عزت مآب سپریم کورٹ آف انڈیا کا شکریہ ادا کرتی ہوں۔

میں پہلے بھی کہہ چکی ہوں اور آج پھر کہہ رہی ہوں کہ  میرا جس طرح کا سفر رہا ہے اس کو تنہا طے نہیں کیا جا سکتا۔ میرے اس سفر میں میرے شوہر اور میرے بچے ہمیشہ میرے ساتھ رہے۔ میرے ساتھ میرے دوست تھے جنہوں نے اتنی نفرت کے وقت میں مجھے بہت سارا پیار دیا اور ہر مشکل موڑ پر میرا ہاتھ تھامے رکھا۔

میرے ساتھ میری بہترین وکیل ایڈوکیٹ شوبھا گپتا ہیں، جو گزشتہ 20 سالوں سے میرے ساتھ مضبوطی اور عزم کے ساتھ چل رہی ہیں اور جنہوں نے انصاف کی میری امید کو کبھی کھونے نہیں دیا۔

ڈیڑھ سال پہلے 15 اگست 2022 کو جب وہ لوگ ، جنہوں میرے خاندان کو ختم کر دیا اور میرے وجود کو دہشت سے بھردیا تھا، انہیں  مکمل سزا سے پہلے ہی رہا کر دیا گیا تو میں اس وقت  ٹوٹ گئی تھی۔ مجھے لگا کہ میرا حوصلہ ختم ہو گیا ہے۔ لیکن صرف اس وقت تک ہی ، جب تک لاکھوں لوگوں کی حمایت اور ہمدردی میرے پاس نہیں آئی تھی۔

ہزاروں کی تعداد میں ہندوستان کے عام شہری اور خواتین آگے آئے۔ وہ میرے ساتھ کھڑے رہے، میرے حق میں بات کی اور سپریم کورٹ میں ایک پی آئی ایل بھی دائر کی۔ ہر جگہ سے 6000 لوگوں اور ممبئی سے 8500 لوگوں نے اپیلیں لکھیں، 10000 لوگوں نے کھلے خط لکھے، اسی طرح کرناٹک کے 29 اضلاع سے 40000 لوگوں نے بھی لکھا۔ میں ان میں سے ہر ایک شخص کی حمایت اور ان کی طاقت کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرتی ہوں۔ آپ نے مجھے لڑنے کی طاقت دی، تاکہ نہ صرف میرے لیے بلکہ ہندوستان کی ہر عورت کو انصاف ملنے کا خیال باقی رہے، آپ سب کا بہت بہت شکریہ۔

اب، جب میں اپنی اور اپنے بچوں کی زندگی کے لیے اس فیصلے کے معنی کو پوری طرح سمجھنے کی کوشش کر رہی ہوں، میرے دل سےجو  دعا آج  نکل رہی ہے وہ بہت سادہ ہے۔ ہر چیز سے اوپرقانون ہو اور قانون کی نظر میں سب برابرہو۔