فکر و نظر

بلقیس کی انصاف کی لڑائی گجرات کے دو افسران کے ذکر کے بغیر ادھوری ہے

سال 2002 میں بلقیس کے ساتھ ہوئی زیادتی کے بعد گجرات کے دو افسران – گودھرا کی اس وقت کی ڈی ایم جینتی روی اور گودھرا سول اسپتال کی ڈاکٹر روہنی کٹی نے تمام سیاسی اور انتظامی دباؤ کے باوجودجس ایمانداری اور دیانت داری  سےاپنا کردار نبھایا، وہ واقعی ایک مثال ہے۔

بلقیس بانو۔ (تصویر: شوم بسو)

بلقیس بانو۔ (تصویر: شوم بسو)

بلقیس بانو کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلے نے ایک بار پھر بتایا کہ انصاف کی لڑائی لمبی ہے اور اجتماعی تعاون کے بغیر کامیابی مشکل ہے۔ سپریم کورٹ کا حالیہ فیصلہ، جس میں اس نے ریپ اور 14 لوگوں کےقتل کے 11 قصورواروں کی سزا معافی کے فیصلے کو رد کر کے انہیں واپس جیل بھیجنے کا حکم دیا، وہ ایک 20 سال کی لمبی لڑائی کا نتیجہ ہے۔ اس فیصلے میں،  بلقیس بانو کے ساتھ پروفیسر روپ ریکھا ورما، سبھاشنی علی، ایڈوکیٹ شوبھا گپتا، صحافی ریوتی لال، سابق آئی پی ایس افسر میرا چڈھا بورونکر اور مہوا موئترا کے کردار کو سراہا جا رہا ہے، اور یہ فطری بھی ہے۔ لیکن، انصاف کی اس لڑائی میں دو خواتین افسران کے کلیدی رول کا ذکربھی  آج ضروری ہے۔

اگر بلقیس کو 2002 کے واقعے کے ایک دو دن بعد گجرات کے دو افسران کی دیانت دارانہ حمایت نہ ملتی تو شاید یہ لرزہ خیز واقعہ منظر عام پر نہ آتا۔ پہلی ہیں، گودھرا ضلع کی اس وقت کی ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ (ڈی ایم/کلکٹر) جینتی روی؛ اور دوسری، گودھرا سول اسپتال کی ڈاکٹر روہنی کُٹی۔

ان دونوں کے کردار پر اس وقت کوئی بات نہیں کر رہا۔ ایک ایسے وقت میں جب گجرات کی انتظامیہ اوپر سے نیچے تک فسادات میں ملوث تھی اور شواہد کو تباہ کرنے کی سازش کر رہی تھی، تب ان دونوں نے جس ایمانداری سے اپنے کردارکو نبھایا اور بعد میں ٹرائل کورٹ میں اپنے بیانات بھی دیانت داری سے درج کرائے، وہ واقعی ایک مثال ہے۔

یہ پوری کہانی کچھ یوں ہے۔

تین (3) مارچ 2002 کو انسانیت اور مذہب کے تمام عقائد کو شرمسار کر نے والے اس حادثے کو انجام دیا  گیا۔ اپنی 3 سالہ بیٹی، ماں، دو بھائی، دو بہنیں، دو چاچی، چچا اور بہن کی نومولود بچی سمیت 14 افراد کے قتل کو دیکھنے والی گینگ ریپ کی شکار بلقیس بانو کو مرا ہوا سمجھ  کر اسے برہنہ حالت میں چھو دیا گیا۔ جب بلقیس کو ہوش آیا تو وہ کسی طرح وہاں پڑے ایک پیٹی کوٹ کو پہن کر اور خود کو بچانے کی کوشش کرتے ہوئے 4 مارچ 2002 کو لمکھیڑا تھانے پہنچی۔ وہاں پولیس نے ان کی جو ایف آئی آر درج کی اس میں نہ تو ریپ  کا ذکر کیا اور نہ ہی کسی ملزم کا نام درج کیا۔

اسی طرح 4 مارچ کو لمکھیڑا پی ایچ سی میں اس کے طبی معائنے کے دوران وہاں موجود ڈاکٹر نے نہ تو ریپ کا ذکر کیا اور نہ ہی اس واقعہ کا کوئی ریکارڈ بنایا۔

پانچ (5) مارچ کو بلقیس کو گودھرا ریلیف کیمپ بھیج دیا گیا۔ وہیں،  6 مارچ کو جب گودھرا کی ڈی ایم جینتی روی پہنچیں، تو ان کی ملاقات بلقیس سے ہوئی، اس کے بعد اس واقعے کی حقیقی ریکارڈنگ شروع ہوئی۔ بلقیس کی کہانی سن کر انہیں سمجھ آیا کہ یہ کوئی خاص معاملہ ہے۔ اس وقت تک انہیں معلوم نہیں تھا کہ لمکھیڑا ایف آئی آر کیسے درج ہوئی ہے، لیکن شاید انہیں اس وقت گجرات کی انتظامی صورتحال کا اندازہ تھا۔ اس لیے انہوں نے اپنے ساتھ آئے تحصیلدار (ایگزیکٹیو مجسٹریٹ، گووند پٹیل) سے بلقیس کا مکمل بیان ریکارڈ کرنے کو کہا۔

اس کے بعد، انہوں نے بلقیس کو 7 مارچ کو میڈیکل کے لیے گودھرا سول اسپتال بھی بھیجا؛ انہیں اندازہ ہوگا کہ میڈیکل بھی درست نہیں ہوگا۔ وہاں، بلقیس کو ایک اور فرض شناس خاتون ڈاکٹر روہنی کُٹی ملیں۔ انہوں نے پوری ایمانداری سے بلقیس کے واقعے سے متعلق تمام حقائق درج کیے اور ان کا طبی معائنہ کیا۔

آئی اے ایس جینتی روی۔ (تصویر بہ شکریہ: اوروویل فاؤنڈیشن)

گودھرا کی ڈی ایم جینتی روی یہیں نہیں رکیں، انہوں نے 7/03/02 کو ہی داہود کے ایس پی، جن کے ضلع میں یہ واقعہ پیش آیا تھا، کو اس معاملے میں مزید کارروائی کے لیے پہلا خط لکھا۔ ساتھ ہی، وہ بیان بھی بھیجے جو بلقیس نے ریکارڈ کرایا تھا۔ پھر، 11/03/02 کو ایک ریمائنڈر لکھی اور پیش رفت کی رپورٹ طلب کی۔ اس کے بعد 18/03/02 کو داہود کے ڈپٹی ایس پی کو خط لکھا اورکیس میں پیش رفت کی رپورٹ طلب کی۔ اس کے بعد، 03/05/02 کو، داہود کے ایس پی کو ایک خط لکھ کر پوچھا کہ اس معاملے میں ابھی تک کوئی گرفتاری کیوں نہیں ہوئی ہے۔ ڈپٹی ایس پی نے کوئی رپورٹ نہیں بھیجی تو انہوں نے خط لکھ کر پوچھا کہ ابھی تک کوئی پروگریس رپورٹ کیوں نہیں بھیجی۔ پھر ہارکر، 8 جولائی 2002 کو ایڈیشنل چیف سیکریٹری، ہوم ڈپارٹمنٹ، حکومت گجرات کو اس معاملے میں کارروائی کے لیے ایک خط لکھا۔ ان خطوط کو گجرات حکومت اور انتظامیہ نے کوڑے دان میں پھینک دیا، لیکن یہ عدالت میں ایک اہم ثبوت بنے۔

فروری 2003 میں گجرات پولیس نے عدالت میں کلوزر رپورٹ پیش کر دی۔ اس کے بعد جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں، سپریم کورٹ میں کچھ این جی اوز کی درخواست کے بعد اور عدالت کے حکم پر دسمبر 2003 میں اس کیس کی تحقیقات سی بی آئی کو سونپ دی گئی۔ سپریم کورٹ نے واقعے میں ملوث 12 افرادسمیت جانچ میں شامل لمکھیڑا تھانے کے 5 پولیس اہلکار، ڈی ایس پی اور میڈیکل کرنے والے لمکھیڑا پی ایچ سی کے دونوں  ڈاکٹروں کو بھی ملزم بنایا۔ ٹرائل کورٹ کے سزا کے حکم کے بعد جب کیس اپیل میں ہائی کورٹ پہنچا۔

ہائی کورٹ میں دفاعی فریق نے یہ مسئلہ اٹھایا کہ متاثرہ بلقیس نے لمکھیڑا پولیس اسٹیشن میں درج کروائی گئی اپنی ابتدائی ایف آئی آر اور بیان میں کسی ملزم کا نام نہیں بتایا اور نہ ہی طبی معائنے میں ریپ کی بات سامنے آئی۔لیکن فیصلہ کرنے والی جسٹس وی کے تاہلرمانی اور جسٹس مردلا بھٹکر نے اپنے فیصلے (کریمنل اپیل نمبر 1020/2009 مورخہ 04/05/17) میں ان باتوں کی کاٹ کے طور پرگودھرا کی ڈی ایم جینتی روی کے ذریعے 6/03/2002 کو درج کرائے گئے بیان اور 7 مارچ کو گودھرا سول ہسپتال کی ڈاکٹر روہنی کٹی کی میڈیکل رپورٹ اور اس دوران بلقیس کی بیان کردہ پوری کہانی کو اہم شواہد میں سے ایک مانا۔

ان دونوں افسران نے اس کیس میں ٹرائل کورٹ میں بھی ایمانداری سے اپنے بیانات دیے۔ ڈاکٹر روہنی کٹی نے بطور گواہ نمبر 17 اور ڈی ایم جینتی روی نے بطور گواہ نمبر 18 اپنی گواہی درج کرائی۔

میں اپنے ذاتی تجربے سے کہہ سکتا ہوں کہ فوجداری کیس میں پولیس کی تفتیش کے ابتدائی مراحل میں جس طرح سے لیپا پوتی کی جاتی ہے،وہ کیس کو بہت کمزور کر دیتا ہے۔ اور، ایسے کیس کا ٹرائل کورٹ میں ٹکنا مشکل ہو جاتا ہے۔

گودھرا کی ڈی ایم جینتی روی اور ڈاکٹر روہنی کٹی کا کردار یہ ظاہر کرتا ہے کہ جب تک افسران سیاسی یا دیگر مداخلت کے بغیر، ایمانداری سے اپنا کردار ادا نہیں کرتے، تب تک قانون کا نام بدلنے سے کچھ بدلنے والا نہیں ہے۔

جینتی روی کے بارے میں انٹرنیٹ پر دستیاب معلومات کے مطابق، وہ فی الحال اورویل فاؤنڈیشن کے سکریٹری کے عہدے پر فائز ہیں۔ ان کے تعارف میں انہیں ایک استاد، مفکر اور سائنسدان بھی بتایا گیا ہے۔ انہوں نے ہارورڈ یونیورسٹی سے پبلک ایڈمنسٹریشن میں پی ایچ ڈی کی اور گجرات کیڈر سے 1991 بیچ کی آئی اے ایس آفیسر ہیں۔ ڈاکٹر کٹی کا تعلق مدھیہ پردیش سے ہے، ان کے بارے میں زیادہ معلومات نہیں مل سکیں۔

(انوراگ مودی سماج وادی جن پریشد کے کارکن ہیں۔)