الیکشن نامہ

ایک اور بی جے پی لیڈر نے آئین بدلنے کی  بات کہی، اپوزیشن نے کہا – سوچی سمجھی حکمت عملی

راجستھان کے ناگور سے بی جے پی امیدوار جیوتی مردھا نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ملک کے مفاد میں بہت سے سخت فیصلے لینے پڑتے ہیں۔ ان کے لیے آئین میں تبدیلیاں کرنی  پڑتی ہیں، جس کے لیے دونوں ایوانوں میں بھاری اکثریت کی ضرورت ہوتی ہے۔ اپوزیشن کا کہنا ہے کہ بی جے پی بابا صاحب کے دیےآئین کو ختم کرکے عوام سے ان کا حق چھین لینا چاہتی ہے۔

راجستھان کے ناگور سے بی جے پی امیدوار جیوتی مردھا۔ (تصویر بہ شکریہ: فیس بک)

راجستھان کے ناگور سے بی جے پی امیدوار جیوتی مردھا۔ (تصویر بہ شکریہ: فیس بک)

نئی دہلی: راجستھان کے ناگور لوک سبھا حلقہ سے بی جے پی کی امیدوار جیوتی مردھا کا ایک مبینہ ویڈیو سوشل میڈیا پر سامنے آیا ہے، جس میں انہیں بی جے پی کے ذریعے آئینی ترامیم کے لیے پارلیامنٹ کے دونوں ایوانوں میں اکثریت حاصل کرنے کے بارے میں بات کرتے ہوئے سنا جا سکتا ہے۔

اب اس کو لے کر ایک سیاسی تنازعہ پیدا ہو گیا ہے، جہاں اپوزیشن نے مرکز میں حکمراں بی جے پی کو نشانہ بنایا ہے۔

مردھا کا ویڈیو ایکس پر شیئر کرتے ہوئے کانگریس نے لکھا ہے، ‘یہ راجستھان کے ناگور سے انتخاب لڑنے والی بی جے پی امیدوار جیوتی مردھا ہیں۔ مردھا کہتی ہیں کہ آئین میں تبدیلی کے لیے ہمیں دونوں ایوانوں میں بھاری اکثریت کی ضرورت ہے۔ یہی بات بی جے پی ایم پی اننت ہیگڑے بھی کہہ چکے ہیں  کہ اگر ہمیں لوک سبھا انتخابات میں 400 سیٹیں ملیں تو ہم آئین کو بدل دیں گے۔ ان بیانات سے صاف ہے کہ بی جے پی اور وزیر اعظم مودی کو آئین اور جمہوریت سے نفرت ہے۔’

اس میں مزید کہا گیا ہے کہ ‘بابا صاحب کے دیےآئین کو ختم کرکے بی جے پی عوام سے ان کا حق چھین لینا چاہتی ہے۔’

ویڈیو پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کانگریس کے سینئر لیڈر ششی تھرور نے کہا کہ اننت کمار ہیگڑے کے بعد ایک اور بی جے پی لیڈر کھلے عام آئین کو تبدیل کرنے کے پارٹی کے مبینہ مقاصد کے بارے میں بات کر رہے ہیں۔

تھرور نے ایکس پر ایک پوسٹ میں کہا، ‘اس  پر اننت ہیگڑے کے بولنے کے بعد بی جے پی لیڈروں نے عجلت میں اس پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی اور انہیں اپنے امیدواروں کی فہرست سے باہر کر دیا۔ اب ایک اور بی جے پی امیدوار کھلے عام کہتی ہیں کہ بی جے پی کا مقصد آئین کو بدلنا ہے۔ آخر بی جے پی سچائی کو ظاہر کرنے کے لیے مزید کتنے امیدواروں کے ٹکٹ کاٹ سکتی ہے؟’

تھرور کی پوسٹ پر ردعمل دیتے ہوئے کانگریس جنرل سکریٹری جئے رام رمیش نے کہا، ‘یہ سب مہاسوتر دھار کی طرف سے چلایا جا رہا ہے۔ یہ ایک سوچی سمجھی حکمت عملی ہے۔’

دریں اثنا، آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین (اے آئی ایم آئی ایم) کے صدر اسد الدین اویسی نے بھی مرکز کو نشانہ بنایا اور وزیر اعظم نریندر مودی سے یہ واضح کرنےکو کہا  کہ وہ آئین میں کیا تبدیلی لانا چاہتے ہیں۔

انہوں نے ایک پوسٹ میں کہا، ‘کیا وہ چاہتے ہیں کہ ریاستوں کی حیثیت کو کم کیا جائے، جیسا کہ کشمیر کے ساتھ کیا گیا تھا؟ کیا ذات پات کی بنیاد پر ریزرویشن ختم ہو جائے گا؟ کیا مودی جی پارلیامانی جمہوریت کو صدارتی جمہوریت سے بدلنا چاہتے ہیں؟’

انہوں نے مزید کہا، ‘اگر بی جے پی اور دیگر سنگھیوں کو آئین سے اتنی ہی چڑ ہے تو پھر وہ آئین کے تحت اقتدار کیوں حاصل کرنا چاہتے ہیں؟’

راشٹریہ لوک تانترک پارٹی کے سربراہ ہنومان بینی وال، جنہیں اس سیٹ پر ‘انڈیا’ اتحاد کے امیدوار کے طور پر میدان میں اتارا گیا ہے، نے کہا، ‘بیان سے یہ واضح ہوتا ہے کہ بی جے پی بابا صاحب کے آئین کو تباہ کرنے پر تلی ہوئی ہے۔’

مردھا کا مبینہ تبصرہ بی جے پی لیڈر اور چھ بار لوک سبھا کے رکن رہے مرکزی وزیر اننت کمار ہیگڑے کو ٹکٹ دینے سے انکار کرنے کے کچھ دن بعد سامنے آیا ہے۔

معلوم ہو کہ گزشتہ ماہ اننت کمار ہیگڑے نے کہا تھا کہ پارٹی راجیہ سبھا میں دو تہائی اکثریت حاصل کرنے کے بعد آئین میں ترمیم کرے گی۔

ہیگڑے نے کہا تھا، ‘مودی جی نے کہا کہ ہمیں اس بار 400 سے زیادہ سیٹیں حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔ 400 کیوں؟ اس وقت لوک سبھا میں ہمارے پاس دو تہائی اکثریت ہے، لیکن راجیہ سبھا میں ہماری اکثریت کم ہے۔ مزید یہ کہ ریاستی حکومتوں میں ہمارے پاس ضروری اکثریت نہیں ہے۔ اگر ہمیں آئین میں ترمیم کرنی ہے، جیسا کہ کانگریس نے کیا تھا – آئین کے بنیادی اصولوں کو توڑ مروڑ کر اور ایسی دفعات اور قوانین متعارف کرکے جو ہندوؤں کے خلاف تھے، تو یہ اکثریت کافی نہیں ہوگی۔’

اب سوشل میڈیا پر وائرل ویڈیو میں مردھا کہتی ہیں، ‘ملک کے مفاد میں بہت سے سخت فیصلے لینے پڑتے ہیں۔ ان کے لیے ہمیں آئینی تبدیلیاں کرنا ہوں گی۔ اگر ہمیں آئین کے اندر کوئی تبدیلی کرنی ہے تو آپ میں سے بہت سے لوگ جانتے ہیں کہ اس کے لیے ہمارے دونوں ایوانوں لوک سبھا اور راجیہ سبھا کی حمایت کی ضرورت ہے۔’

انہوں نے مزید کہا، ‘آج بی جے پی اور این ڈی اے کے پاس لوک سبھا میں مضبوط اکثریت ہے، اس میں کوئی کمی نہیں ہے، لیکن آج بھی راجیہ سبھا میں ہمارے پاس اکثریت نہیں ہے۔’

انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق، اس تنازعہ کے درمیان ایک وضاحت جاری کرتے ہوئے مردھا نے کہا کہ آئینی ترمیم کے عمل کی وضاحت کرنے کے لیے ان کے عمومی ریمارکس غیر ضروری طور پر بڑھا چڑھا کر پیش کیے گئے۔

انہوں نے کہا کہ ‘1950 سے لے کر گزشتہ سال تک آئین میں 106 ترامیم کی گئی ہیں، یہ کہنا ضروری ہے کہ ہمارا مقدس آئین ایک زندہ دستاویز ہے، جس میں وقتاً فوقتاً ملک اور عوام کی فلاح و بہبود کو مدنظر رکھتے ہوئے ترمیم کی جاتی ہے۔ ‘