خبریں

سیڈیشن کیس میں شرجیل امام کو دہلی ہائی کورٹ سے ضمانت ملی

آئی آئی ٹی سے گریجویشن کرنے کے بعد جے این یو سے پی ایچ ڈی کر رہے شرجیل امام جنوری 2020 سے جیل میں ہیں۔ دہلی ہائی کورٹ سے سیڈیشن  کے ایک معاملےمیں ضمانت ملنے کے باوجود وہ جیل میں ہی رہیں گے کیونکہ ان پر دہلی فسادات سے متعلق ایک کیس میں یو اے پی اے کے تحت الزام لگائے گئے ہیں۔

شرجیل امام، فوٹو بہ شکریہ ، فیس بک

شرجیل امام، فوٹو بہ شکریہ ، فیس بک

نئی دہلی: جواہر لعل نہرو یونیورسٹی (جے این یو) کے اسکالر شرجیل امام کو دہلی ہائی کورٹ نے ضمانت دے دی ہے۔ امام پر الزام ہے کہ انہوں نے دہلی کے جامعہ نگر اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں مبینہ طور پر  ملک مخالف بیان دیے تھے۔

جنوری 2020 میں گرفتار کیے گئے امام چار سال سے زیادہ عرصے سے جیل میں ہیں۔ ان کے خلاف درج کسی بھی معاملے میں انہیں قصوروار نہیں ٹھہرایا گیا ہے۔ شرجیل امام کو جو ضمانت ملی ہے وہ ایک گرفتار شخص کو اس وقت ملتی  ہے، جب پولیس اپنی جانچ مکمل کرنے میں ناکام رہتی ہے۔

لائیو لاء کے مطابق، شرجیل امام نے عدالت سے اس بنیاد پر ضمانت کی درخواست کی تھی کہ ان پر جو الزام لگے ہیں ، اس میں زیادہ سے زیادہ سزا سات سال کی ہوتی ہے اور وہ اس مدت کا نصف سے زیادہ جیل میں گزار چکے ہیں۔

تاہم، ہائی کورٹ کی اس ضمانت کے بعد بھی شرجیل امام جیل سے باہر نہیں آسکیں گے کیونکہ ان پر دہلی فسادات کی مبینہ سازش والے کیس میں یو اے پی اے کے تحت الزام لگائے گئے ہیں۔

ٹرائل کورٹ نے خارج کر دی تھی ضمانت کی عرضی

لائیو لاء کے مطابق، 17 فروری کو ٹرائل کورٹ نے یہ کہتے ہوئے امام کی ضمانت کی درخواست مسترد کر دی تھی کہ ان کی تقریروں اور سرگرمیوں نے ‘عوام کو تحریک دی’ جس کی وجہ سے شمال-مشرقی دہلی میں فسادات ہوئے۔

دہلی پولیس نے الزام لگایا تھا کہ شہریت ترمیمی قانون (سی اے اے) کے خلاف احتجاج کے دوران علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور جامعہ ملیہ اسلامیہ یونیورسٹی کے علاقوں میں امام کی تقریریں اشتعال انگیز تھیں۔

تقریر وائرل ہونے کے بعد پولیس نے امام کے خلاف کارروائی کی۔ چند دنوں کے اندر ان کے خلاف اتر پردیش، دہلی، آسام، اروناچل پردیش اور منی پور میں پانچ ایف آئی آر درج کی گئیں۔ جب انہوں نے سریندر کیا تو انہیں گرفتار کر لیا گیا۔

امام ایک آئی آئی ٹی گریجویٹ اور پی ایچ ڈی اسکالر ہیں۔ ان کے اہل خانہ نے اس سال کے شروع میں دی وائر کو بتایا تھا کہ امام کو سول سوسائٹی کی جانب سے نظر انداز کیا گیا ہے۔

دی وائر سے بات کرتے ہوئے امام کے چھوٹے بھائی مزمل نے کہا تھا، ‘ان کی زندگی کے چار سال ضائع ہو گئے۔ اگر وہ باہر ہوتے تو اور پڑھ سکتے تھے، اور ریسرچ کر سکتے تھے۔ انہوں نے ابھی تک اپنی پی ایچ ڈی بھی مکمل نہیں کی ہے۔ لیکن ان کا حوصلہ کم نہیں ہوا ہے۔ وہ مسکراتے ہیں، امید کو امید دلاتے رہتے ہیں کہ سب ٹھیک ہو جائے گا۔’

ان کا کہنا تھا، ‘جیل میں قید کسی بھی سیاسی قیدی کے خاندان کے لیے استقامت باقی نہیں رہتی۔ میری ماں کے لیے ان کی زندگی بس ہم دو بھائی ہیں۔ اب تو ایک طرح سے زندگی ٹھہر سی  گئی ہے۔