فیض آباد لوک سبھا سیٹ کے رائے دہندگان نے واضح طور پر جواب دیا ہے کہ وزیر اعظم کی پارٹی ایودھیا کی نمائندگی کرنے کی اہل نہیں ہے۔
لگتا ہے کہ نیوز چینلوں کے اس بار کےایگزٹ پول کے بالکل ہضم نہ ہونے والےاندازوں سے متعلق تمام سوالوں کا جواب ملک میں سب سے زیادہ (اسی) لوک سبھا سیٹ رکھنے والی اتر پردیش کے رائے دہندگان کو دینا تھا! کمال ہےکہ انہوں نے یہ ذمہ داری اٹھائی تو خود کو سب کا ‘تایا’ ثابت کرتے ہوئے ایگزٹ پول کرنے والے تقریباً تمام خیالی ماہرین کو سر دھننے، الٹا لٹکنے اور پانی مانگنے پر مجبور کر دیا! البتہ، ان کو نہیں، جو اپنی آنکھوں میں ذرا سا بھی پانی یا تھوڑی سی بھی شرم بچا پائے ہیں۔
اس دوران ایک لمحہ ایسا بھی آیا، جب ایسا لگا کہ وارانسی کے رائے دہندگان موجودہ وزیر اعظم کو شکست دینے کے 1977 کے رائے بریلی کے رائے دہنگان کے ریکارڈ (جو انہوں نے اس وقت کی وزیر اعظم اندرا گاندھی کو شکست دے کر بنایا تھا) کی برابری کرنے کو آمادہ ہیں۔ وہاں سے عام طور پر ناقابل تسخیر سمجھے جانے والے وزیر اعظم نریندر مودی کے ووٹوں کی گنتی میں پچھڑنے کی خبر آئی (وہ بھی 2014 اور 2019 میں ان کے خلاف تیسرے نمبر پر رہے کانگریس کے امیدوار اجئے رائے کے مقابلے، جن کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ وہ انہیں محض ایک علامتی چیلنج دے رہے ہیں) تو فطری طور پر بھاجپائیوں کے چہروں کا رنگ اتر گیا۔ خاص طور پر ان کا، جو وزیراعظم کو دس لاکھ ووٹوں سے آگے لے جانے کا بلند بانگ دعویٰ کر رہے تھے۔
کون جانے، وہ سوچنے لگے ہوں کہ یہ کیا ہوا کہ کنیا کماری میں وزیر اعظم کا ‘دھیان’ اور ‘سادھنا’ بھی ان کے کام نہیں آ رہا۔ شکر ہے کہ بعد میں وارانسی کے لوگوں کو ان پر کچھ ترس آ گیا۔
‘بے رحم’ ایودھیا!
لیکن ایودھیا (یعنی فیض آباد لوک سبھا سیٹ) کے رائے دہندگان نے ‘بے رحمی’ سے ہی کام لیا۔ صاف کہہ دیا کہ وزیر اعظم کی پارٹی ایودھیا کی نمائندگی کرنے کی اہل نہیں ہے۔
بی جے پی کے ہندوتوا کی زبان میں کہیں تو انہوں نے اس کے للو نام کے امیدوار کو ‘للو’ ثابت کیا اور ایس پی کے ‘اودھیش’ پرساد کو چن لیا۔
بتادیں کہ بھگوان رام کو بھی اودھیش کہا جاتا ہے، ان کے والد دشرتھ کو بھی اور اس نے اس بار ایس پی کے اودھیش پرساد کو چن لیا ہے (جس کے سپریمو اکھلیش یادو کے 22 جنوری کے رام للا کی پران—پرتشٹھا کی تقریب میں نہ آ نے کو لے کر بی جے پی نے ان کی جانے کتنی لعنت ملامت کی تھی) تو جتنے منھ اتنی باتیں ہوگئی ہیں۔
وہ لوگ بھی ہیں جو کہتے ہیں کہ بی جے پی کی حرکتیں دیکھ کر بھگوان رام بھی اس کے خلاف ہو گئے ہیں، اس لیے وہ ان کے کام نہیں آئے۔ پورے الیکشن کے دوران وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ بار بار کہتے رہے کہ یہ لڑائی رام بھکتوں اور رام دروہیوں (غداروں) کے درمیان ہے اور بھگوان رام نے ان کی نہ صرف ایودھیا-فیض آباد بلکہ اس کے آس پاس کی لوک سبھا سیٹیں بھی نہ بچنے دے کر ثابت کر دیا کہ حقیقت میں رام دروہی (غدار) کون ہے۔
دوسری جانب، امیٹھی کے ووٹروں نے راہل گاندھی کے خلاف مسلسل مبارزطلبی کر رہی اور ان کے ‘ڈر کر میدان چھوڑ جانے’ سے خوش مرکزی وزیر اسمرتی ایرانی کو بھی نہیں بخشا، کانگریس کے ایسے ‘کمزور’ امیدوار کشوری لال شرما کے ہاتھوں بری طرح انہیں شکست دی، جسے وہ قاعدے سے لیڈر تک ماننے کو تیار نہیں تھیں۔
ریاست میں بی جے پی کے کئی دیگر وزراء اور لیڈر بھی اپنے انجام کو پہنچے، لیکن ان سب کا ذکر کرنا اس لحاظ سے غیر ضروری ہے کہ بٹلوئی کے اتنے چاول سے بھی جائزہ لیا جاسکتاہے۔
دو ہزار چودہ کا اعادہ
اس سلسلے میں سمجھنے کی سب سے بڑی بات یہ ہے کہ انتخابات کے دوران بی جے پی کے خلاف رائے دہندگان کے واضح غصے کو نظر انداز کرنے والے ‘ماہرین’ آئندہ بھی ان نتائج کی ایسی توضیح پیش کرتے رہیں گے، جس میں وہ غصہ تھوڑا کم نظر آئے۔
اس کو قبول کرنے میں ان کے تامل اور پس و پیش کو تو خیر آسانی سے سمجھا جا سکتا ہے کہ یہ نریندر مودی کی حکومت اور پارٹی کے خلاف وہی رد عمل ہے جس کا مشاہدہ 2014 میں منموہن سنگھ کی حکومت کے لیے کیا گیا تھا۔
غور طلب ہے کہ اس وقت کانگریس کی قیادت میں برسراقتدار یونائیٹڈ پروگریسو الائنس نے یہ مان لیا تھا کہ سیکولرازم کی علمبرداری کے نام پر اس کے رہنما اور حکومت جو کچھ بھی صحیح یا غلط کرے، ووٹر اسے آنکھیں بند کرکے قبول کرتے رہیں گے، کیونکہ انہیں خود بخود فرقہ واریت اور تنگ نظری سے بچنا ہے۔
اسی طرح 2014 میں ‘وکاس کے سپراسٹار’ بن کر اقتدار میں آئے نریندر مودی چولا بدل کر ‘ہندوتوا کے سپراسٹار’ بنے تو انہوں نے مان لیا کہ ‘ہندوتوا’ کے نام پر رائے دہندگان کو مہنگائی، بے روزگاری اور بدعنوانی کی چکی میں پیس کر بھی وہ اقتدار میں رہتے ہوئے مونچھ پر ہاتھ پھیرتے رہیں گے۔
اس لیے کہ انہوں نے نہ صرف ایودھیا میں ‘وہیں’ عظیم الشان رام مندر بنوا دیا ہے بلکہ اس سے متعلق رسومات میں ‘ہندوستان کے وزیر اعظم کو’ ‘دھرماچاریہ’ بنا کر آئین کی سیکولر فطرت کی بخیہ ادھیر ڈالی ہے۔ ایودھیا میں ہندوتوا کے عقائد اور وقار کو پروان چڑھانے کے لیے سینکڑوں منصوبوں پر مرکزی اور ریاستی حکومتوں کے خزانے سے تقریباً پچاس ہزار کروڑ روپے خرچ ڈالے ، سو الگ۔
عقیدے پر عقل کی جیت
آج کون کہہ سکتا ہے کہ لوک سبھا انتخابات کے دوران اپنی ریلیوں میں انہوں نے جم کر ہندو مسلم کیا تو اس کے پس پردہ بھی ان کی یہی بد نیتی کارفرما نہیں تھی؟
اس سے قبل اتر پردیش کی بی جے پی حکومت اور اس کے زیر کنٹرول ایودھیا کی انتظامیہ نے زیر تعمیر رام مندر میں درشن اور پوجا کے لیے آنے والے عقیدت مندوں اور سیاحوں کے ہجوم کے لیے سڑکوں کو چوڑا کرنے کے مقصد سے شہریوں سے کیے گئے مناسب معاوضہ اور باز آبادی کے وعدے نبھائے بغیر ان کے ہزاروں گھروں، دکانوں اور اداروں کو گرانے کی مہم چلائی تو اس کے بہت سے حامیوں نے یہ تاثر دینا شروع کر دیا کہ اگر اس سب کے ساتھ رام جی پورے ملک میں بی جے پی کا بیڑہ پار لگا دیں تو ایودھیا کے لوگوں کی ناراضگی کی وجہ سے فیض آباد کی ایک سیٹ ہار جانا اس کی بہت چھوٹی قیمت ہوگی، بھلے ہی وہ کبھی مونچھ یا ناک کا بال ہوا کرتی تھی۔
ہاں، بعد میں اس کے ایم پی اور امیدوار للو سنگھ ‘چار سو پار’ کے وزیر اعظم کے نعرے کی کامیابی آکو ئین میں تبدیلی کے لیے ضروری بتا کر اور اس سیٹ پر بھی جیت کو ضروری بتانے لگے تھے۔
اب جبکہ پوری ریاست کے رائے دہندگان نے واضح کر دیا ہے کہ ایودھیا اور ہندو مسلم کے نام پر بہت ہو چکا، اب وہ عقیدے پر اپنی عقل کو ترجیح دینے اور کامیاب بنانے کے حق میں ہیں، ساتھ ہی خود کو کسی ‘زیادتی ‘ کے لیے استعمال نہیں ہونے دیں گے، کئی خود ساختہ ماہرین اس ‘دلیل’ کے پیچھے چھپنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ یہ ہندوتوا کے خلاف سیکولرازم کی نہیں (کیونکہ اپوزیشن جماعتیں بھی خوشی سے اس کا علم اٹھائے نہیں پھر رہی تھیں) ذات پات کے ایکویشن کی جیت ہے۔
لیکن اگر ایسا ہے بھی تو یہ بی جے پی کے لیے اس لحاظ سے خطرے کی گھنٹی ہے کہ اس کے دس سال کے اقتدار کے دوران نئے سرے سے ہندو بننے کی خواہش میں اس کے ہندوتوا کی طرف راغب ہونے والی دلت اور پچھڑی ذاتوں کا اس سے دل بھر گیا ہے اور وہ اس کی چھتری کے نیچے اپنی بھلائی نہ دیکھ کر یہ آئین اور ریزرویشن کو (اس سے) بچانے کی اپوزیشن کی مہم کا حصہ بن گئی ہے۔
خوب چلا ایس پی کا پی ڈی اے
اس بہانے ہی صحیح، ان ‘ماہرین’ کو اب اس حکومت مخالف لہر کو تسلیم کر لینا چاہیے جسے وہ اب تک مودی کے چہرے کی مبینہ مقبولیت کی آڑ میں چھپاتے آ رہے تھے۔ بلاشبہ، ‘انڈیا’ اتحاد اس بار بہتر حکمت عملی اور سماجی اور ذات پات کے مساوات کے ساتھ اس ریاست میں ووٹروں کے سامنے گیا۔ اس کی سب سے بڑی اتحادی جماعت سماج وادی پارٹی نے نہ صرف یادو اور مسلمانوں کی پارٹی ہونے کا لیبل اتار پھینکا بلکہ اپنے پرانے ایم وائی (مسلم- یادو) مساوات کو جیت کے لیے ناکافی مانا اور اسے بھی پی ڈی اے (پچھڑا، دلت، اقلیت اور آدھی آبادی) سے بدل دیا۔
انہوں نے ٹکٹوں کی تقسیم میں ان تمام طبقات کی مناسب نمائندگی کو بھی یقینی بنایا۔ انہوں نے جنرل سیٹوں پر دلت امیدواروں کو کھڑا کرنے کا تجربہ کرنے سے بھی گریز نہیں کیا۔ ان کے اس تجربے نے ریاست میں اکیس فیصد بتائے جانے والے دلت رائے دہندگان اپنی پرانی دشمنی بھلا کر ان کی طرف لانے میں ایک بڑا رول ادا کیا۔ان دلت رائے دہندگان کو بھی، جو 2019 میں بی ایس پی کو کمزور ہوتے دیکھ کر اس کے بجائے بی جے پی کی طرف چلے گئے تھے۔
غور طلب ہے کہ ایس پی نے بھگوان رام کی جائے پیدائش ایودھیا میں فیض آباد جنرل سیٹ کے لیے نہ صرف ایک دلت امیدوار کو کھڑا کیا، بلکہ اس نے میرٹھ میں ‘ٹی وی کے رام’ کہے جانے والے بی جے پی کے ارون گوول کے خلاف بھی ایک دلت خاتون امیدوار کو کھڑا کیا۔ فیض آباد میں اودھیش پرساد نے اپنی انتخابی مہم میں اس تجربے کو ‘انقلابی’ قرار دیتے ہوئے یاد دلایا کہ بی ایس پی کے بانی کانشی رام نے کبھی دلتوں کے لیے مخصوص لوک سبھا سیٹ سے انتخاب نہیں لڑا تھا اور ایس پی کے بانی ملائم سنگھ یادو نے انہیں پہلے پہل اٹاوہ سیٹ سے لوک سبھا پہنچایا تھا۔ اس نے پورے انتخابی منظر نامے کو متاثر کیا۔
فیض آباد میں 1989 کا اعادہ
چاہے اس مینڈیٹ کو قومی سطح پر 2004 کے طور پر دیکھا جائے یا کسی اور شکل میں، ایودھیا فیض آباد میں یہ بالکل 1989 کی طرح ہے، جب فیض آباد کے ووٹروں نے کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کے متراسین یادو کو ایم پی کے طور پر منتخب کیا اور وشو ہندو پریشد کی جانب سے رام مندر کے مشہور زمانہ سنگ بنیاد کے بعد پنپنے والی بی جے پی اور اس کا کریڈٹ لینے کے لیے مقابلہ کرنے والی کانگریس دونوں کو حیران کر دیا تھا۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اس الیکشن میں متراسین کو شکست دینے کے لیے بی جے پی اور کانگریس دونوں نے ہاتھ ملا لیا تھا۔ ان دنوں بی جے پی کا نعرہ تھا؛ ایک ووٹ للو کو، ایک ووٹ پنجو کو۔ اس وقت للو اسمبلی انتخابات میں حصہ لے رہے تھے اور بی جے پی اسمبلی کے لیے انہیں تو لوک سبھا کے لیے پنجو یعنی کانگریس کے پنجہ نشان والے امیدوار نرمل کھتری کو ووٹ دے رہے تھے۔ اس لیے جیت کے بعد سی پی آئی نے دعویٰ کیا تھا کہ اس نے کانگریس اور بی جے پی کے اتحاد کو شکست دی ہے۔
یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ 1989 میں بی جے پی سے ناراض ایودھیا نے پچھڑی ذات کے ایک بائیں بازو کے امیدوار کو ایم پی منتخب کیا تھا اور 2024 میں خفا ہوئی تو ایک سماجوادی دلت کو منتخب کر لیا ہے۔
(کرشن پرتاپ سنگھ سینئر صحافی ہیں۔)
Categories: الیکشن نامہ, فکر و نظر