ملک کی یونیورسٹیاں، بالخصوص مرکزی یونیورسٹیاں، ایک طرح سے مرکزی حکومت کے ‘توسیعی دفاتر’ میں تبدیل ہو چکی ہیں۔ کوئی بھی تعلیمی شعبہ انتظامیہ کے ‘فلٹر’ سے گزرے بغیر کسی قسم کی تقریب منعقد نہیں کر سکتا۔
ہندوستان کی بہترین یونیورسٹیوں میں سے ایک جواہر لال نہرو یونیورسٹی ( نئی دہلی) سے متعلق دو خبریں سامنے آئی ہیں۔ پہلی خبر ‘تقسیم کی ہولناکیوں کےیادگاری دن’ سے متعلق ہے۔ یونیورسٹی گرانٹس کمیشن (یو جی سی)، نئی دہلی، ہندوستان کی تمام یونیورسٹیوں اور اعلیٰ تعلیمی اداروں سے اس ’یادگاری دن‘ کو منانے کی اپیل کرتے ہوئے خط لکھتا ہے، جسے ہر ‘ادارہ’ ایک فرمان کی طرح تسلیم کرتاہے۔
اسی تناظر میں سعادت حسن منٹو (1912-1955) کی کہانی ‘کھول دو’ کو جواہر لال نہرو یونیورسٹی میں طالبعلموں کی جانب سے اسٹیج کیا جانا تھا، لیکن آخری لمحے میں ایک زبانی فرمان کے تحت اس پروگرام کو روک دیا گیا۔ اتنا ہی نہیں، یہ بھی کہا گیا کہ اگر اسے اسٹیج کرنا ہی ہے تو اس کہانی کی کردار ‘سکینہ’ کا نام بدل کر ‘سمیرا’ کر دیجیے اور ‘اللہ’ کو ‘ایشور’کردیجیے،جیسا کہ جواہر لال نہرو یونیورسٹی کےاسٹوڈنٹ یونین کے ’پریسیڈنٹ‘ دھننجےنے اپنے ویڈیو میں اس بارے میں وضاحت کی ہے۔
سوال یہ ہے کہ یونیورسٹی میں ایک نامور فکشن نویس کی کہانی کے ساتھ ‘چھیڑ چھاڑ’ کی ذہنیت کس طرح پیدا ہو رہی ہے؟ کہانی کے کردار کا ‘ہندوکرن’ کرنے کو کیوں کہا جا رہا ہے؟
سب سے اہم سوال تو یہی ہے کہ ہندوستان کو ‘تقسیم کی ہولناکیوں کےیادگاری دن’ کے انعقاد کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی اور وہ بھی 14 اگست کو، جبکہ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ نہ تو اس دن پاکستان کی پیدائش ہوئی تھی اور نہ ہی تقسیم کی ہولناکیاں اس دن شروع ہوئی تھیں۔
درحقیقت’تقسیم کی ہولناکیوں کےیادگاری دن’ کے تصور، نوعیت اور منصوبے کا تجزیہ کیجیےتو اس کے پس پردہ عیاری ، چالاکی اور مکاری نظر آئےگی ۔ ‘تقسیم کی ہولناکیوں کےیادگاری دن’سے متعلق دستاویز بھی بڑی چالاکی سے باور کراتے ہیں کہ تقسیم میں ہندوؤں کا زیادہ نقصان ہوا، بربریت مسلمانوں نے کی تھی۔ تقسیم کی وجہ اس وقت کے کانگریسی لیڈروں کا اقتدار کا لالچ تھا۔
سال 2023 میں اس وقت کی مرکزی حکومت (جوابھی لوک سبھا انتخابات کے بعد ایک بار پھر سے اقتدارمیں ہے) کی طرف سے جاری کردہ دستاویز میں بھی کچھ ایسی ہی باتیں تھیں۔ یہاں تک کہ جو دستاویز 2024 میں نشر کیا گیا ہے، اس میں بھی زیادہ تر حوالہ 1946 میں کلکتہ میں ہونے والے فسادات کا ہے، جس کی شروعات میں لکھاگیا ہے کہ ’تقسیم ہند کی تاریخ کا تذکرہ 1946 کے کلکتہ کے بہیمانہ قتل عام کے ذکر بغیر نامکمل ہے، جب کلکتہ کوفرقہ پرست طاقتوں نے اپنے قبضے میں لےلیا تھا۔ مسلم لیگ نے قیام پاکستان کے واحد ایجنڈے پر الیکشن لڑا تھا۔ پروپیگنڈہ یہ تھا کہ یہ مہم انگریزوں کے خلاف ہے، لیکن حقیقت میں یہ سکھوں اور ہندوؤں کے خلاف تھا۔‘
اسی دستاویز میں مزید ایسی باتیں کہی گئی ہیں (مثلاً اخبار ’اسٹیٹس مین‘ کا ایک تراشہ منسلک کیا گیا ہے، جس میں یہ لکھا گیا ہے کہ ’جوائن اسلام اور برن‘ اسی طرح یہ بھی لکھا گیا ہے کہ ’سب سے پہلا حملہ رام گنج تھانے کے علاقے میں ایک بازار میں ہندوؤں کی ملکیت والے کاروبار پر کیا گیا تھا۔’) جن سے یہ گمان ہوتا ہے کہ تقسیم کے وقت ہندوؤں پر بہت زیادہ مظالم ہوئے۔یہ بھی سمجھا جا سکتا ہے کہ آج کی نئی نسل اس دستاویز کو دیکھے گی تو فطری طور پر ان کے ذہن میں یہ بات بیٹھ جائے گی کہ تقسیم کے سب سے زیادہ شکار ہندو ہوئےاور جو کوئی خود کو ہندو سمجھے گا اس کے دل میں مسلمانوں کے لیےنفرت پیدا ہو گی۔ یہی وہ سیاسی مقصد ہے، جس کے لیے ‘تقسیم کی ہولناکیوں کےیادگاری دن’ کا انعقاد کیا جا رہا ہے۔
مذکورہ دستاویز کے ساتھ ایک ڈرامہ بھی کچھ ہندوستانی زبانوں میں دیا گیا ہے۔ ہندی میں دیے گئے ڈرامے میں ‘دادا جی’ نامی کردار ایک مکالمے میں کہتا ہے کہ ‘جو ہوا،سو ہوا… سنو ہمارے پردھان منتری جی نے کیا کہا ہے:’ اور پھر وزیر اعظم (جو یقیناً موجودہ وزیر اعظم وزیر نریندر مودی ہیں۔) کی آواز میں ان کا پیغام دیا گیا ہے۔ سمجھا جا سکتا ہے اور پوچھا جانا چاہیے کہ تقسیم ہند کے دوران مشکل ترین حالات کا سامنا اس وقت کے اور پہلے وزیر اعظم جواہر لعل نہرو نے کیا تھا نہ کہ موجودہ وزیر اعظم! تقسیم ہند کی ہولناکیوں پر لکھے گئے ڈرامے میں موجودہ وزیراعظم کی آواز یا ان کے خیالات کا حوالہ کس طرح دیا جا سکتا ہے؟
ان باتوں کی روشنی میں سمجھا جا سکتا ہے کہ ‘کھول دو’کی سکینہ کا نام بدل کر ‘سمیرا’ کرنے کو کیوں کہا جا رہا ہے؟ بات یہی ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی اور راشٹریہ سویم سیوک سنگھ چاہتے ہیں کہ جو اس المناک تاریخ کو بھی موجودہ سیاسی فائدے کے لیے استعمال کیا جائے اور سیاسی مقصد (بنیاد پرست ہندوتوا کی مدد سے اقتدار میں بنے رہنا) کو حاصل کیا جا سکے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے جامعات جیسے سماجی اداروں کو بھی بڑے پیمانے پر استعمال کیا جا رہا ہے۔
جواہر لال نہرو یونیورسٹی سے متعلق دوسری خبر یہ ہے کہ یونیورسٹی شدید مالی بحران سے گزر رہی ہے، اس لیے وہ اپنے اثاثے فروخت کرے گی۔ واضح ہو کہ ہندوستان کی موجودہ وزیر خزانہ نرملا سیتا رمن اس یونیورسٹی کی طالبعلم رہی ہیں۔
مذکورہ بالا دونوں خبریں ہندوستانی یونیورسٹیوں کی حالت زارکو واضح کرتی ہیں۔ ایک بات تویہی ہے کہ یونیورسٹیاں منطق، مکالمے اور بحث کے لیے بنائی جاتی ہیں، ان سب کی اب یہاں کوئی جگہ نہیں ہے۔ منٹو غیر منقسم ہندوستان کے ان ادیبوں میں ہیں، جنہوں نے تقسیم کے درد کو حساس ذہن کے ساتھ بیان کیا ہے۔ اس کوبدتمیزی ہی تصور کیا جائے گا کہ ان کی کہانی کو اسٹیج کرنےسے پہلےکرداروں کا نام تبدیل کرنے کی شرط یونیورسٹی انتظامیہ کی طرف سے لگائی جا رہی ہے۔
واضح ہے کہ ہندوستانی یونیورسٹیوں میں اکیڈمک آزادی شدید خطرے میں ہے اور یہ تقریباً ختم ہو چکی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی ہر روز محسوس ہوتا ہے کہ یونیورسٹیاں، بالخصوص مرکزی یونیورسٹیاں، ایک طرح سے مرکزی حکومت کے ‘توسیعی دفاتر’ میں تبدیل ہو چکی ہیں۔ کوئی بھی تعلیمی شعبہ انتظامیہ کے ‘فلٹر’ سے گزرے بغیر کسی قسم کی تقریب منعقد نہیں کر سکتا۔
اپنے فنڈ سے کیے جانے والے پروگراموں پر زور ہے اور جہاں مرکزی حکومت یاکہنا چاہیے کی جس پارٹی کی مرکزی حکومت ہے کی طرف سے مجوزہ پروگرام (مثال کے طور پر ‘سیلفی پوائنٹ’، ‘2047 ترقی یافتہ ہندوستان’، 22 جنوری 2024 کو ایودھیا میں رام مندر کی تقریب سے متعلق’دیا جلانا’ وغیرہ )کے لیے پیسے کی کبھی کمی نہیں ہوتی۔
دوسری جانب ملک کی باوقار یونیورسٹیوں کو اپنی مالی حالت بہتر بنانے کے لیے اپنے اثاثے کو فروخت کرنے کی ضرورت آن پڑی ہے۔ ان دونوں باتوں سے واضح ہے کہ ہندوستانی یونیورسٹیوں کے پاس نہ تو تعلیمی آزادی ہے اور نہ ہی انہیں ضروری وسائل فراہم کیے جائیں گے کہ وہ اپنا کام اطمینان سے کرپائیں۔
اس کے ساتھ یہ بھی ہے کہ زیادہ تر مرکزی یونیورسٹیوں میں سول سروس رولز لاگو ہیں جو حکومت کی کسی پالیسی پر تنقید کا حق نہیں دیتے۔ یہ واضح ہے کہ اس کی وجہ سے اور اس کے نتیجے میں اساتذہ (جن کا بنیادی کام منطقی اور تنقیدی طور پر سوچنا ہے) کو محض ‘سرکاری ملازمین’ کا درجہ دے دیا گیا ہے، ان کی تعلیمی آزادی چھین لی گئی ہے، اس لیے وہ کھل کر ان سب باتوں کی مخالفت نہیں کر پاتے اور دوسری طرف یونیورسٹی کو مالی وسائل سے محروم کر دیا گیا ہے۔
عجیب بات یہ ہے کہ اس وقت ہندوستان کو بڑے جوش و خروش سے ‘وشوگرو’ مشتہر کیا جا رہا ہے۔ ہمیشہ یہ شکایت کی جاتی ہے کہ ہماری یونیورسٹیاں دنیا کی بہترین یونیورسٹیوں میں شامل نہیں ہیں۔ واضح ہو کہ دنیا کی بہترین سمجھی جانے والی یونیورسٹیاں اپنی حکومت کی تقریبات کومنعقد کرنے کے لیے نہیں بلکہ اپنی تعلیمی حصولیابیوں اور بلندیوں کی وجہ سے جانی جاتی ہیں۔
ایک طرف ہندوستانی یونیورسٹیوں کی ترقی کے لیے ان کے محدود وسائل بھی چھین لیے گئے ہیں اور دوسری طرف امید کی جاتی ہے کہ وہ بہترین ہو جائیں۔ یہ کبیر کے زمانے سے بھی زیادہ الٹ بانسی ہے جس کا مطلب کوئی معمہ نہیں ہے بلکہ یہ روزمرہ کا براہ راست تجربہ ہے۔
(یوگیش پرتاپ شیکھر، سینٹرل یونیورسٹی آف ساؤتھ بہار میں ہندی پڑھاتے ہیں۔)
Categories: فکر و نظر