فکر و نظر

ہندوستان میں مسلمانوں کے خلاف نفرت اور تشدد وبائی شکل اختیار کر چکا ہے

مسلمانوں کے خلاف تشدد کرنے والے ہندو کم ہو سکتے ہیں، لیکن یہ بھی سچ ہے کہ ہندوؤں کی اکثریت کو مسلمانوں کے خلاف تشدد سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔

(السٹریشن: پری پلب چکرورتی/ دی وائر)

(السٹریشن: پری پلب چکرورتی/ دی وائر)

ایک مسلمان بزرگ کو  ہندو  نوجوانوں نے ٹرین میں مارا، اور جان سے مارنے کی دھمکی دیتے رہے۔ ٹرین چلتی رہی۔ ایک مسلمان مزدور کو کچھ ہندوؤں نے سب کے سامنے پیٹ پیٹ کر ہلاک کر دیا۔ ایک مسلمان پر کسی جرم کا الزام لگتے ہی  انتظامیہ نے بلڈوزر سے اس کے گھر اور دکان کو توڑ دیا۔ بجرنگ دل کے غنڈوں نے اسکول میں گھس کر مسلم لڑکیوں پر حملہ کیا۔ ایک علاقے میں مسجد کی تعمیر کے خلاف وہاں کے مکینوں نے جلوس نکالا اور مسجد کو گرانے کی اپیل  کی۔ایک  مسلمان کے مکان خریدنے کے خلاف محلے کے لوگوں نے احتجاج کیا۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کے ایم ایل اے نے مسلمانوں کو مسجد میں گھس کرجان سے مارنے کی دھمکی دی۔

یہ ہندوستان کی روزانہ کی خبریں ہیں۔ میڈیا والے ان کی تکرار سے بیزارہونے لگتے ہیں۔ ان سے  کوئی سنسنی پیدا نہیں ہوتی۔ قارئین بھی یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ بات کئی بار کہی جا چکی ہے اور اس کے بارے میں ہم جانتے ہیں۔ اس میں نیا کیا ہے؟

ہندوستان میں مسلمانوں پر حملے کے بارے میں سن سن کر اب بوریت کا احساس ہونے لگا ہے۔ لوگ روز کچھ نیا پڑھنا یا سننا چاہتے ہیں۔ اخبارات نے اب اسے نمایاں طور پر لکھنا اورچھاپنا بند کر دیا ہے۔ اداریوں کے لیے اور بھی بہت سے موضوعات ہیں۔

اس میں تکرار یہ  ہے کہ ہندوستان میں مسلمانوں کے خلاف تشدد کیا جا رہا ہے۔ ان کے خلاف نفرت پھیلائی جا رہی ہے۔ اس بات کو کیا ایک بار کہہ دینے سے بات ختم ہو جاتی ہے یا لوگ اس کی سنگینی کو سمجھ جاتے ہیں؟ خصوصی طو رپر ہندو؟ انتظامیہ اور پولیس؟ جب یہ تشدد روزانہ ، مختلف طریقوں سے ہندوستان کے مختلف حصوں میں کیا جاتا ہے، تو کیا اس پر بات نہیں ہونی چاہیے؟

جو لوگ اس تکرار سے تنگ آ جاتے ہیں ،انہیں یہ بھی ذہن میں رکھنا چاہیے کہ یہ تشدد ہر بار ایک نئے شخص کو نشانہ بناتا ہے۔ ہر شخص جو دوسرے سے مختلف ہے، جس کی تاریخ اور حال دوسروں سے مختلف ہے۔ اس کے رشتوں کی دنیا الگ ہے، اس کےسکھ دکھ  الگ ہیں۔

ہریانہ کے چرخی دادری میں جو مارا گیا،اس  کا نام صابر ملک ہے اور مہاراشٹر میں جس بزرگ پر حملہ کیا گیا اس کا نام حاجی اشرف  ہے۔ اسی طرح بالائی آسام کے دول باغان میں جن 15 مسلمانوں کی پٹائی کی گئی،ان کے 15 مختلف نام ہیں۔ جنہیں تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا ہے، صرف وہ الگ الگ نہیں ہیں۔ تشدد کرنے والے بھی الگ الگ ہیں۔

لیکن ان سارے معاملوں میں بس ایک چیز مشترک ہے؛ تشدد کے شکار مسلمان ہیں اور تشدد کرنے والے ہندوتوا دی نفرت میں مبتلا ہندو۔ وہ جس کو مار رہے ہیں اسے نہ تو  صابر ہونے کی وجہ سے مارتے ہیں  اور نہ حاجی اشرف ہونے کی وجہ سے۔ جو مار رہا ہے وہ نہیں جانتا کہ وہ کس کو مار رہا ہے۔ اس نے اس کے ساتھ ایسا کچھ نہیں کیا جس کی وجہ سے وہ اس کے خلاف تشددپر آمادہ ہو۔ بس یہ جاننے کے بعد  کہ  وہ مسلمان ہے، مارنے والے کے اندر تشدد سر اٹھانے لگتا ہے۔

یہ بات حیران کن ہو سکتی ہے کہ 10 سال سے مسلمانوں کے خلاف تشدد کا اوپن لائسنس مل جانے کے باوجود اب بھی مارنے والے یاتشدد کرنے والے کو اپنے تشدد کے لیے کوئی بہانہ تلاش کرنا ضروری لگتا ہے۔ مثلاً، کسی کے پاس گائے کا گوشت ملا ہے یا کسی نے ہندو لڑکی کے ساتھ کوئی شرارت کی ہے۔ لیکن ہم نے یہ بھی مشاہدہ کیا ہے کہ مسلمانوں کو صرف نماز پڑھنے کی وجہ سے بھی مارا جا سکتا ہے۔

اس تشدد کے پس پردہ  وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ وہ نماز کے نام پر عوامی مقامات پر قبضہ کر رہے ہیں۔ لیکن حال ہی میں ہم نے ایک اسکول کے اندر بند کمرے میں نماز پڑھ رہی مسلمان لڑکیوں پر باہر سے آئے غنڈوں کے حملے کا مشاہدہ کیا۔ اس کا مطلب ہے کہ اب ڈھونڈڈھونڈ کر، گھروں میں گھس کرمسلمانوں پر  حملہ کیا جا رہا ہے۔ کسی کو صرف اس لیے مارا جا سکتا ہے کہ اس کا حلیہ  مسلمان جیسا  ہے۔ نریندر مودی کے پہلی بار وزیر اعظم بننے کے بعد پونے میں محسن شیخ کو محض اس لیے قتل کر دیا گیا تھا کہ اس کے مسلمان حلیے سے کچھ ہندوؤں کا غصہ بھڑک گیا تھا۔ عدالت نے بھی اس لیےاس قتل کے جرم کو  کم سنگین مانا ۔ بے چارے ہندوؤں کو محسن کی مسلم شناخت نے مشتعل کر دیا تھا، ورنہ وہ فطرتاً ہتھیارے نہیں ہیں!

ان تمام حملوں کے لیے کوئی نہ کوئی وجہ بتائی جاتی ہے گویا تشدد کو جائز قرار دینے کا بہانہ تلاس کیا جاتا ہے۔ جبکہ اب تو پوچھا ہی جا سکتا ہے کہ کیا ہندوستان میں مسلمان کو مارنے کی کوئی وجہ بتانا ضروری ہے؟ کیا اس ملک میں کسی مسلمان کو صرف مسلمان ہونے کی وجہ سے نہیں مارا  جا سکتا؟ اگر آپ ہندوستان میں مسلمانوں کو نہیں مار سکتے تو کیا باہر ماریں گے؟

کچھ عرصہ پہلے تک جب بھی ایسی خبریں آتی تھیں تو کہا جاتا تھا کہ یہ تشدد حاشیے کے لوگ کر  رہے ہیں۔ ایک وقت تک نریندر مودی کو بھی بی جے پی میں اہم لیڈرنہیں مانا جاتا تھا، امت شاہ تو کسی  شمار میں ہی  نہیں تھے۔ جب مودی مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز بیانات دیتے تھے تو کہا جاتا تھا کہ اصلی لیڈرتو اٹل بہاری واجپائی ہیں، اڈوانی ہیں، مودی کی باتوں کو بی جے پی کی بات نہیں مانا جانا چاہیے۔ ان کو اتنی اہمیت نہیں دینی چاہیے۔

لیکن اب ہم دیکھ ہی رہے ہیں کہ چاہے وہ وزیر اعظم ہوں یا وزیر داخلہ یا بی جے پی کے دیگر وزراء یا وزیر اعلیٰ اور ان کے ممبران پارلیامنٹ یا ایم ایل اے، سب مسلمانوں کے خلاف نفرت اور تشدد کو ہوا دے رہے ہیں۔ پہلے بجرنگ دل اور وشو ہندو پریشد جیسی آر ایس ایس کی تنظیمیں مسلمانوں کے خلاف کھلم کھلا تشدد کا کھیل  کرتی تھیں۔ اب یہ کام کرنے والی بہت سی تنظیمیں مختلف جگہوں پر پیدا ہوگئی  ہیں۔ عام لوگ بھی اس تشدد میں حصہ لیتے ہیں اور مزہ لیتے ہیں۔

یہ تشدد ایک نئی سطح پر پہنچ گیا ہے کیونکہ اب انتظامیہ اور پولیس مسلمانوں کے خلاف سرگرم ہو کر تشدد پر آمادہ ہیں۔ کسی مسلمان پر کوئی الزام لگنے کی دیرمحض ہے انتظامیہ بلڈوزر لے کر اس کے گھر کو گرانے پہنچ جاتی ہے۔ کئی جگہوں پر وہ بینڈ باجے کے کے ساتھ گھر کے انہدام کا جشن مناتی ہے۔ تشدد کا پورا مزہ سب کو ملنا چاہیے!

اتر پردیش کی حکومت نے کانوڑ یاترا کے دوران گوشت کی دکانیں بند کروا  دیں، جو زیادہ تر مسلمانوں کی ملکیت ہیں۔ اس سال فرمان جاری کیا گیا کہ ہر کسی کو اپنی دکان پر اپنا پورا نام لکھنا ہوگا۔ یعنی شکیل اپنی دکان کا نام سنی اسٹور نہیں رکھ سکتا۔ اگر رکھے تو یہ بھی لکھنا پڑے گا کہ یہ شکیل احمد کی دکان ہے تاکہ ہندو اسے پڑھنے کے بعد طے کر سکیں کہ وہ اس میں نہیں جائیں گے۔ جب عدالت میں کہا گیا کہ یہ امتیازی سلوک ہے تو حکومت نے تسلیم کیا کہ یہ امتیاز عارضی اور وقتی  ہے۔

پھر بھی یہ کہا جا سکتا ہے کہ کروڑوں کی آبادی والے ملک میں یہ واقعات زیادہ نہیں ہیں۔ ہندوؤں میں بھی مسلمانوں کے خلاف تشدد کرنے والے بہت کم ہیں۔ یہ سچ ہے لیکن یہ بھی سچائی ہے کہ ہندوؤں کی اکثریت کومسلمانوں کے خلاف تشدد سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ فرقہ پرستی کے خلاف کام کرنے والے پروفیسر وی کے ترپاٹھی نے ہریانہ کے چرخی دادری میں صابر ملک کے قتل کے بعد وہاں پہنچ کر آس پاس کے ہندوؤں سے بات کی۔ وہ یہ دیکھ کر بہت مایوس ہوئے کہ اس قتل سے صابر کے ہندو پڑوسی بالکل لاتعلق ہیں۔ اس قتل نے انہیں ذرا بھی مضطرب نہیں کیا ہے۔

پروفیسر ترپاٹھی گزشتہ برسوں میں تشدد کے اس طرح کے واقعات کے بعدان مقامات کا دورہ کرتے  رہے ہیں، جہاں تشدد ہوا ہے۔ زیادہ تر انہوں نے یہی مشاہدہ کیا ہے کہ ہندو ؤں میں ،جو اس تشدد میں سرگرم نہیں تھے، انہیں مسلمانوں کے خلاف تشدد سے کوئی تکلیف نہیں ہے۔

صابر ملک پر حملے کے ویڈیو غور سے دیکھیے۔ کچھ لوگ حملہ آور کی لاٹھی پکڑنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ لیکن وہ یہ کام بڑی بے دلی  سے کر رہے ہیں۔ صابر کو گھیرے میں لے کر مارے جانے کا تماشا دیکھنے والوں کو دیکھیے۔ یہ وسیع تر ہندو سماج ہے۔

یہ سب کہنے اور لکھنے پر ہندو ناراض ہوجاتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ ہمیں بدنام کیا جا رہا ہے۔ الزام لگاتے ہیں کہ ہم بنیادی طور پر غیر متشدد ہیں لیکن مسلمانوں نے ہمیں تشدد کا سہارا لینے پر مجبور کر دیا ہے۔ اب جب تشدد بند کرنے کی بات کی جاتی ہے تو کہا جاتا ہے کہ ہم تو ایسےہی  ہیں، ایسے ہی رہیں گے، جن کو اس سے مسئلہ ہے وہ پاکستان چلے جائیں یا کہیں اور ٹھور ٹھکانہ تلاش کریں۔

ہندوستان میں مسلمانوں کے خلاف نفرت اور تشدد وبائی شکل اختیار کر چکا ہے۔ اس نے ہندو سماج کو بیمار بنا دیا ہے لیکن اس کی قیمت مسلمان ادا کر رہے ہیں۔

(اپوروانند دہلی یونیورسٹی میں پڑھاتے ہیں۔)