خبریں

سنبھل مسجد کمیٹی کے سربراہ کا دعویٰ – پولیس نے بھیڑ پر گولیاں چلائیں؛ اپنی گاڑیوں میں توڑ پھوڑ کی

سنبھل مسجد کی انتظامی کمیٹی کے چیئرمین سینئر وکیل ظفر علی نے سوال اٹھایا کہ مظاہرین ایک دوسرے کو کیوں ماریں گے؟ اگر انہیں گولی چلانی ہی تھی تو وہ عوام پر نہیں پولیس پر گولی چلاتے۔ علی نے دعویٰ کیا کہ انہوں نے خود پولیس کو بھیڑ پر گولیاں چلاتے ہوئے دیکھا تھا۔

سنبھل ویڈیو کا اسکرین گریب، جس میں مبینہ طور پربندوقوں سےفائرنگ ہوتی نظر آ رہی ہے۔

سنبھل ویڈیو کا اسکرین گریب، جس میں مبینہ طور پربندوقوں سےفائرنگ ہوتی نظر آ رہی ہے۔

نئی دہلی: اترپردیش کے سنبھل میں مغلیہ دور کی شاہی جامع مسجد کے سروے کے دوران ہوئے تشدد میں چار مسلمانوں کی موت ہو گئی ہے۔

 ایک طرف پولیس نے دعویٰ کیا ہے کہ اس نے بھیڑ کے خلاف کوئی مہلک ہتھیار استعمال نہیں کیا۔دوسری جانب مسجد کی انتظامی کمیٹی کے چیئرمین کا کہنا ہے کہ انہوں نے خود پولیس کو بھیڑ پر فائرنگ کرتے دیکھا تھا۔

‘میری موجودگی میں عوام کی جانب سے کوئی گولی نہیں چلی’

مسجد کی انتظامی کمیٹی کے چیئرمین اور سینئر وکیل ظفر علی کے ان الزامات کے بعد پولیس کے اس دعوے پر سوال اٹھ رہے ہیں کہ انہوں نے بھیڑ پر کوئی مہلک ہتھیار استعمال نہیں کیا اور لوگوں کو منتشر کرنے کے لیے صرف آنسو گیس ، لاٹھی چارج ک ربڑ  پیلٹ گن کا ہی استعمال کیا ہے۔

معلوم ہو کہ علی کی جانب سے سوموار (25 نومبر) کو ایک پریس کانفرنس میں یہ الزامات لگانے کے فوراً بعد پولیس نے انہیں پوچھ گچھ کے لیے بلایا اور ان کے دعوےکی تردید کے لیے اپنی طرف سے ایک پریس کانفرنس کا بھی اہتمام کیا تھا۔

پولیس نے ان کے الزامات کو ‘گمراہ کن’ اور ‘سیاسی طور پر محرک’ قرار دیا۔

اس کے بعد علی کو گھر جانے کی اجازت دی گئی اور پولیس نے واضح کیا کہ انہیں حراست میں نہیں لیا جا رہا اور گرفتار نہیں کیا جا رہا ہے۔

واضح ہو کہ 24 نومبر کی صبح شاہی جامع مسجد کے سروے کے دوران ہوئے تشدد میں اب تک چار مسلمانوں کی ہلاکت کی تصدیق ہو چکی ہے ۔ پولیس کے مطابق پوسٹ مارٹم رپورٹ میں انکشاف ہوا ہے کہ ان افراد کی موت بندوق کی گولی لگنے سے ہوئی ہے۔ تاہم، پولیس کا کہنا ہے کہ ان لوگوں  پر دیسی ہتھیاروں سے حملہ کیا گیا تھا۔

پولیس نے زوردے کر کہا کہ مجسٹریٹ کی تحقیقاتی رپورٹ کے بعد سب کچھ واضح ہو جائے گا۔ لیکن پولیس نے اس پورے  معاملے کو ایسا ظاہر کرنے کی کوشش کی ہے جیسےبھیڑنے انتشار کے دوران ایک دوسرے پر گولی چلائی، جس کی وجہ سے ان لوگوں کی موت ہوئی۔

ظفر علی۔ (تصویر بہ شکریہ: اسکرین گریب)

ظفر علی۔ (تصویر بہ شکریہ: اسکرین گریب)

اس معاملے میں علی نے اپنی پریس کانفرنس میں کہا، ‘میں نے دیکھا کہ پولیس گولیاں چلا رہی تھی۔ یہ میرے سامنے ہی ہوا۔ میری موجودگی میں عوام کی طرف سے کوئی گولی نہیں چلائی گئی، پولیس نے اپنی ہی گاڑیوں میں توڑ پھوڑ کی۔’

علی نے یہ بھی الزام لگایا کہ واقعے کے دوران پولیس کے پاس دیسی کٹے بھی تھے اور انہوں نے مسجد کے قریب کھڑی اپنی  گاڑیوں میں خود توڑ پھوڑ کی اور آگ لگا دی۔

علی نے یہ سوال بھی اٹھایا کہ وہ (مظاہرین) ایک دوسرے کو کیوں ماریں گے؟ اگر انہیں گولی چلانی ہی تھی  تو وہ عوام پر نہیں پولیس پر گولی چلاتے۔ یہ سوچنے والی بات ہے۔

سینئر وکیل علی نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ وہ اس وقت موقع پر موجود تھے جب انہوں نے مرادآباد کے ڈپٹی انسپکٹر جنرل، سنبھل کے پولیس سپرنٹنڈنٹ اور سنبھل کے ضلع مجسٹریٹ کو تبادلہ خیال کرتے ہوئے سنا کہ بھیڑ کے خلاف گولی چلانے کے حکم دیے جائیں۔

تاہم، سنبھل کے پولیس سپرنٹنڈنٹ کرشن کمار بشنوئی نے ان الزامات کی تردید کی کہ پولیس نے مظاہرین پر گولی چلائی۔ انہوں نے کہا کہ جب ربڑ کی گولیوں سے حالات پر قابو پا لیا گیا تو پھر ہم فائرنگ کیوں کریں گے۔

ایس پی بشنوئی نے کہا، ‘واقعے کے وقت پولیس اور بھیڑ 100-150 میٹر سے کم کی دوری پر نہیں تھی۔ یہ کہنا کہ پولیس وہاں کھڑی تھی اور ان پر قریب سے گولی ماری  اور دیسی پستول سے گولی چلائی گئی، اپنے آپ میں سوال کھڑا کرتا ہے۔ ہم ایک پیشہ ور پولیس فورس ہیں۔’

انہوں نے کہا کہ پولیس اور فسادات پر قابو پانے والی پولیس کے پاس آنسو گیس کے ہتھیار اور پمپ ایکشن گن تھیں، انہوں نے ان الزامات کو مسترد کردیا کہ پولیس نےدیسی  ہتھیار استعمال کیے تھے۔

افسر نے اس الزام کی بھی تردید کی کہ وہ، ڈپٹی انسپکٹر جنرل اور ضلع مجسٹریٹ کے ساتھ فائرنگ کے حکم پر تبادلہ خیال کر رہے تھے۔ بشنوئی نے کہا، ‘کسی بھی حالت میں ہم تینوں ایک جگہ پر نہیں تھے۔’

انہوں نے علی کے اس الزام کو بھی سیاسی قرار دیا کہ پولیس نے اپنی ہی گاڑیوں کو آگ لگائی ہے۔

علی کے الزامات ‘گمراہ کن’: پولیس، انتظامیہ

ایس پی اور ڈی ایم راجندر پنسیا نے مشترکہ پریس کانفرنس میں کہا کہ علی کے الزامات گمراہ کن اور ایک سازش کا حصہ ہیں۔

انہوں نے کہا کہ علی نے ملزمان کو بچانے سماجی اور میڈیا کے دباؤ کو استعمال کرنےاور پتھراؤ کے واقعے میں زخمی ہونے والے پولیس اہلکاروں سے پتھراؤ کرنے والوں کے تئیں ہمدردی حاصل کرنے کے لیے پولیس فائرنگ کے یہ الزامات لگائے ہیں۔

ڈی ایم نے علی کے اس دعوے کو بھی مسترد کر دیا کہ انہوں نے فائرنگ دیکھی تھی۔ ڈی ایم کے مطابق، علی صبح 10.30 سے 11 بجے تک مسجد میں سروے کروا رہے تھے۔ ایسے میں وہ باہر فائرنگ کیسے دیکھ رہے تھے؟

کھدائی کی افواہ

علی نے اپنی پریس کانفرنس میں بتایا کہ یہ سارا واقعہ اس افواہ کے پھیلنے کے بعد شروع ہوا کہ سروے ٹیم نے مسجد میں کھدائی شروع کر دی ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ افواہ اس وقت پھیلائی گئی جب مسجد میں نہانے کے ٹینک کو پیمائش کے لیے خالی کر دیا گیا تھا جس کی وجہ سے لوگوں کا خیال تھا کہ کھدائی ہو رہی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اگرچہ اس کی وضاحت کے لیے ایک اعلان کیا گیا تھا لیکن لوگوں کا اس افواہ پر یقین قائم رہا۔

علی نے کہا کہ بھیڑ کو بھڑکانے کے  لیے ایس ڈی ایم اور سرکل آفیسر (سی او) پولیس سنبھل قصوروار ہیں۔

علی نے مزید کہا، ‘یہ سب سنبھل کے ایس ڈی ایم اور سی او کی سازش کی وجہ سے ہوا ہے۔ جب لوگوں نے سی او سے پوچھا کہ کیا ہو رہا ہے،مسجد میں پانی کے بارے میں تو انہوں نے انہیں گالیاں دیں اور لاٹھی چارج کا حکم دیا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ جو کوئی سوال کرے گا اسے گولی مار دی جائے گی۔ ایس ڈی ایم اور سی او سنبھل نےدہشت پیدا کر دی۔’

تاہم، ڈی ایم نے صاف طور پر اس کی تردید کی اور کہا کہ ایسی کسی بھی افواہ کی کوئی بنیاد نہیں ہے۔ راجندر پنسیا نے کہا کہ ٹینک کا پانی پیمائش کے لیے نہیں بلکہ فوٹو گرافی اور ویڈیو گرافی کے لیے خالی کیا گیا تھا۔

 شاہی جامع مسجد کے سروے کے دوران ہوئے تشدد کے لیے پولیس نے اب تک دو خواتین سمیت 25 مسلمانوں کو گرفتار کیا ہے اور سماج وادی پارٹی کے رکن پارلیامنٹ ضیاء الرحمان برق سمیت 2500 سے زیادہ لوگوں کے خلاف مقدمہ درج کیا ہے۔

اتوار کے واقعہ کے ایک دن بعد پارلیامنٹ کے باہر بات کرتے ہوئے برق نے الزام لگایا کہ کچھ افسران نے اپنے نجی ہتھیاروں کے ساتھ ساتھ اپنے سروس ہتھیاروں سے بھی گولی چلائی اور اپنی  کاروں کو آگ لگا دی۔ سنبھل پولیس نے ابھی تک ان کے الزامات کا جواب نہیں دیا ہے۔

ایس پی سربراہ اکھلیش یادو نے پارلیامنٹ کے باہر ان الزامات کو دہرایا اور پولیس افسران کے خلاف کارروائی اور ان کے خلاف قتل کا مقدمہ درج کرنے کا مطالبہ کیا۔ انہوں نے الزام لگایا کہ یہ واقعہ حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے کندرکی ضمنی انتخاب میں ‘ووٹوں کی لوٹ مار’ سے توجہ ہٹانے کے لیے کیا گیا ہے۔ حیران کن نتائج میں بی جے پی نے یہاں جیت حاصل کی ہے۔

قدیم یادگاروں کے تحفظ کا ایکٹ

پولیس نے اس معاملے میں کل سات ایف آئی آر درج کی ہیں۔ برق کا نام ایک ایف آئی آر میں ہے، جس میں ان پر چند روز قبل ایک تقریر کے ذریعے ہجوم کو اکسانے کا الزام لگایا گیا تھا، جب عدالت کے مقرر کردہ ایڈوکیٹ کمشنر کی قیادت میں انتظامیہ نے ایک مقامی کی ہدایت پر شاہی جامع مسجد کا سروے جلد بازی میں کیاتھا۔

پولیس نے کہا کہ پتھراؤ اور فائرنگ میں تقریباً 15 پولیس کانسٹبل، چار پولیس افسران اور ایک ڈپٹی کلکٹر زخمی ہوئے ہیں۔

واضح ہو کہ سول جج سینئر ڈویژن آدتیہ سنگھ نے 24 نومبر کو مسجد کے سروے کا حکم دیا تھا۔ آٹھ مدعیان نے مسجد میں داخلے کے حق کا دعویٰ کرنے کے لیے ایک سول  مقدمہ دائر کیا تھا۔ ان مدعیان کی قیادت ہندوتوا کے حامی وکیل ہری شنکر جین اور ہندو سنت مہنت رشی راج گری کر رہے تھے۔

سنبھل ضلع کی سرکاری ویب سائٹ پر ایک ‘تاریخی یادگار’کے طور پر دکھایا گیا ہے، جس کے بارے میں دعویٰ کیا جاتا ہے کہ اسے پہلے مغل بادشاہ بابر کی ہدایات پر تعمیر کیا گیا تھا۔ تاہم، ہندو درخواست گزاروں نے دعویٰ کیا کہ مسجد و وشنو کے آخری اوتار کالکی کو وقف ایک قدیم مندر کی جگہ تھی۔ اس معاملے میں وکیل اور کلیدی مدعی ہری شنکر جین کے بیٹے وشنو شنکر جین کا کہنا ہے کہ 1529 میں بابر نے ہری ہری مندر کو جزوی طور پر گرا کر مسجد میں تبدیل کرنے کی کوشش کی تھی۔

(انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں ۔ )