جے این یو کے طالبعلم نجیب احمد کی گمشدگی کےتقریباً آٹھ سال بعد دہلی کی ایک عدالت نے اس معاملے میں سی بی آئی کی کلوزر رپورٹ کو منظور کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر مستقبل میں کوئی نیا ثبوت سامنے آتا ہے تو اس کیس کو دوبارہ کھولا جا سکتا ہے۔ نجیب 15 اکتوبر 2016 سے لاپتہ ہیں۔

نجیب احمد کے اہل خانہ معاملے کی تحقیقات میں تیزی کا مطالبہ کرتے ہوئے ۔ (فائل فوٹو: پی ٹی آئی)
نئی دہلی: دہلی کی ایک عدالت نے سوموار (30 جون) کو جواہر لعل نہرو یونیورسٹی (جے این یو) کے طالبعلم نجیب احمد کے معاملے میں مرکزی تفتیشی بیورو (سی بی آئی) کی جانب سے دائر کی گئی کلوزر رپورٹ کو منظور کر لیا ہے ۔ نجیب 15 اکتوبر 2016 سے لاپتہ ہیں۔
ستائیس سالہ نجیب احمد جے این یو ہاسٹل سے لاپتہ ہوئے تھے۔ لاپتہ ہونے سے ایک دن پہلے اکھل بھارتیہ ودیارتھی پریشد(اے بی وی پی) کے کچھ ارکان کے ساتھ ان کی مبینہ جھڑپ ہوئی تھی۔
انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق، راؤز ایونیو کورٹ کے ایڈیشنل چیف جوڈیشل مجسٹریٹ جیوتی مہیشوری نے کہا، ‘ہاسٹل انتخابات جیسے حساس ماحول اور جے این یو جیسے کیمپس میں اس طرح کی جھڑپ اور بحث ومباحثہ کوئی غیر معمولی بات نہیں ہے، لیکن صرف اس بنیاد پر یہ سمجھنا مناسب نہیں ہے کہ نوجوان طالبعلم کسی ساتھی طالبعلم کو غائب کرنے جیسا قدم اٹھا سکتے ہیں ، خاص طور پر جب ریکارڈ پر ایساکوئی ثبوت موجود نہیں ہے۔’
سی بی آئی کی کلوزر رپورٹ کو قبول کرتے ہوئے عدالت نے یہ بھی کہا کہ اگر مستقبل میں کوئی نیا ثبوت سامنے آتا ہے تو کیس کو دوبارہ کھولا جا سکتا ہے۔
عدالت نے کہا، ‘یہ عدالت اس ماں کے درد کو سمجھتی ہے جو 2016 سے اپنے بیٹے کی تلاش میں ہے، لیکن اس معاملے میں جانچ ایجنسی یعنی سی بی آئی کی جانب سے کی گئی تحقیقات میں کوئی لاپرواہی نہیں پائی گئی ہے۔ ہر مجرمانہ تفتیش کی بنیاد سچائی کی تلاش ہوتی ہے، لیکن بعض معاملات میں تمام تر کوششوں کے باوجود تحقیقات کسی ٹھوس نتیجے پر نہیں پہنچ پاتی ہیں۔’
معلوم ہو کہ سی بی آئی نے اس معاملے میں سال 2018 میں کلوزر رپورٹ داخل کی تھی ، جس کے خلاف نجیب کی والدہ فاطمہ نفیس نے عدالت میں عرضی داخل کی تھی ۔ انہوں نے الزام لگایا تھا کہ سی بی آئی نے نو مشتبہ افراد کے کردار کی صحیح طریقے سے تفتیش نہیں کی۔
سی بی آئی نے عدالت کو بتایا کہ مشتبہ افراد کے کال ڈیٹیل ریکارڈ کی جانچ کی گئی لیکن نجیب کی گمشدگی سے متعلق کوئی ثبوت نہیں ملا۔
عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا،’اگرچہ 14 اکتوبر 2016 کی رات نجیب احمد کے ساتھ مارپیٹ اور دھمکیوں کے الزامات گواہوں کی گواہی سے ثابت ہوتے ہیں، لیکن ریکارڈ پر ان واقعات اور 15 اکتوبر 2016 کو ان کے لاپتہ ہونے کے واقعے سے متعلق کوئی براہ راست یا قرائنی شہادت ریکارڈ میں نہیں ہیں۔’
معلوم ہو کہ نجیب 15 اکتوبر 2016 کو جے این یو کے ماہی مانڈوی ہاسٹل سے غائب ہوئے تھے ۔ واقعہ سے ایک رات قبل ان کا اے بی وی پی سے وابستہ کچھ طلبہ کے ساتھ جھگڑا ہوا تھا۔ جب واقعہ کے سات ماہ گزرنے کے بعد بھی دہلی پولیس کو اس معاملے میں کوئی جانکاری نہیں ملی تو ہائی کورٹ نے 16 مئی 2017 کو کیس کی جانچ سی بی آئی کو سونپ دی ۔
تاہم، بعد میں سی بی آئی نےشواہد کے فقدان کے باعث معاملے کی جانچ بند کر دی تھی۔