ایسے میں اسٹریٹجک سوال یہ بنتا ہے کہ آخر عدم اطمینان اور ناپسندیدگی کی اس لہر کو قابو میں کیسے کیا جائے؟
وسط اکتوبر سے لےکر اب تک ہماری اجتماعی سیاسی توانائی، انتخابی سرگرمیوں میں کھپ گئی ہے۔ سرکاری ترجیحات گجرات الیکشن کی وجہ سے شدید طور پر بھٹک گئی ہیں۔ یہی حال ملازمین کی حمایت کا ہے۔ہماچل کا انتخابی ہنگامہ ابھی تھما بھی نہیں تھا کہ گجرات کی انتخابی لڑائی ہم پر حاوی ہو گئی۔ اگلا انتخاب کرناٹک میں ہونے والا ہے۔ اس کے بعد راجستھان، چھتیس گڑھ، مدھیہ پردیش میں زور آزمائش ہوگی۔
اس انتخابی گھماسان کا فائنل 2019 میں ہوگا، جب لوک سبھا کے لئے ووٹ ڈالے جائیںگے۔ یقینی طور پر انتخابی مقابلے، جمہوری نظام کے مرکز میں ہیں اور اس کو جواز بھی فراہم کرتے ہیں۔ الیکشن کی جیت، فاتحین کو حکومت کرنے کا عوامی فرمان دیتی ہے۔ اس لئے ہر انتخابی مقابلے میں جیت حاصل کرنے کا اپنا ایک تقاضا اور جواز ہوتا ہے۔ چنانچہ کسی بھی قیمت پر جیت حاصل کرنا واحد کام بن جاتا ہے۔
اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ سیاستدانوں کو ایڈمنسڑیٹو، نظریہ ساز، مصلح یا انقلابی رہنما بننے سے پہلے منتخب ہو کر آنا ہوتا ہے۔ پہلے سام، دام، دنڈ، بھید کسی بھی طرح سے جیت حاصل کیجئے اور اس کے بعد روشن دماغ اور سمجھداری کے ساتھ حکومت چلائیے۔پھربھی، تمام انتخابی مقابلے اپنے ساتھ اخلاقی خطرات کو لےکرآتے ہی ہیں،مثلاًواضح طورپرلبرل جد وجہد کا نتیجہ اس کے بالکل بر عکس ہوگا؟اس بات کے امکان کو خارج نہیں کیا سکتا ہے کہ انتخابی نظام سیاست کی تجدیدکاری اور سب کے مفاد کےلئے کرنے کی اس صلاحیت کو بہتر کرنے کی جگہ، اصل میں جمہوری اقدار، روایات اور اداروں کو ہی نقصان پہنچاتی ہے۔ فی الحال ہم ایک ایسےہی پریشان کرنے والے ماحول سے روبرو ہیں۔2014 سے اب تک حکمراں تنظیم نے بے حد ماہرانہ طریقے سی اپنے حق میں ایک سیاسی ماحول کو تیار کیا ہے۔ ایسا کرنے کے لئے اس نے بےحد ہوشیار طریقے سے ایک ایسی کہانی گڑھ لی ہے، جس میں دشمنوں کی کثرت ہے اور جن کو قابو میں کیا جانا ضروری ہے۔
کبھی دشمن کا یہ کردار چین کو دیا گیا۔ کبھی یہ کام پاکستان نے کیا۔ کبھی دونوں کی جگل بندی کرائی گئی اور ان کو مشترکہ دشمن کے طور پر پیش کیا گیا۔ دشمن کا مقابلہ کرنا قومی ترجیحات اور وطن پرستی کے فرائض میں سے تھا۔ شہریوں کو ہانکا جانا تھا۔ ان کو تیار کیا جانا تھا اور ضرورت پڑے تو ان کو زبردستی بھارت ماتا کے لئے نمائشی طریقے سے کھڑا کروایا جانا تھا۔ان کو وقت وقت پر وندےماترم چلاکر، سینما ہال میں قومی ترانہ کے وقت کھڑے ہوکر اپنی حب الوطنی ثابت کرنا تھا۔ بیچ بیچ میں جن کی حب الوطنی پر شک ہوا، ان کی پٹائی کی گئی، یہاں تک کہ ان کو غدار تک قرار دیا گیا۔ ویسے تمام لوگوں کو، جن کے پاس حکمراں تنظیم کی مخالفت کرنے کی جائز وجہ تھی، ان کو بھلے سیدھے غدار کا تمغہ نہ دیا گیا ہو، لیکن ان کو ملک مخالف قرار دینے میں دیر نہیں لگائی گئی۔
کچھ وقت تک یہ نسخہ کارگر بھی ثابت ہوتا رہا۔ پاکستان بھی اپنا معاون کردار نبھاتا رہا۔ پہلے دینانگر تھا، پھر پٹھان کوٹ ؛ پھر حافظ سعید تھا، جو کبھی جیل کے اندر ہوتا، کبھی باہر ؛ کشمیر کی سڑکوں پر پتھربازی کرنے والی بھیڑ تھی، جنگ بندی کی خلاف ورزی کے واقعات تھے ؛ سرحد پار سے ہونے والی دہشت گردانہ وارداتیں تھیں۔ مشتعل قوم پرستی کو ہی ڈاکٹر کی گولی مان لی گئی۔ تب ہم نے بےحد اطمینان بخش’سرجکل اسٹرائک ‘ کے اعلان سنے اور ان کو شاندار طریقے سے اتّر پردیش انتخابات میں بھنائے جاتے ہوئے دیکھا۔بازی اچانک پلٹ گئی۔ پہلے نوٹ بندی نام کی آفت آئی۔ اس کے بعد جی ایس ٹی کی رکاوٹ آئی۔ شروع میں فیصلہ کن قیادت کو لےکر جو جوش تھا، وہ چھومنتر ہو گیا اور لاکھوں، لاکھوں کی تعداد میں لوگوں نے بے لگام مصیبتوں، روزگار کی کمی اور بےروزگاری کی طرف دھیان دینا شروع کر دیا۔ جس اچھے دن کا وعدہ کیا گیا تھا، اس کے آنے میں ہو رہی دیری کو لےکر وہ سوال پوچھنے لگے۔
سب سے خراب یہ تھا کہ وہ، ہمیں ہماری روزانہ کی مصیبتوں سے باہر نکال پانے کے حکمراں کے موجودہ گروپ کی لیاقت اور صلاحیت کو لےکر سوال پوچھنے لگے۔ سوشل میڈیا میں لوگوں کی بھنبھناہٹوں اور مذاقوں کا سیلاب آ گیا۔سیکولر ترقی کو لےکر سوال پوچھے جانے لگے ہیں۔ ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ ترقی کا نام نہادگجرات ماڈل اور اس کی تشہیر ی کامیابیاں اور حصولیابی پر سوالیہ نشان لگ گیا۔ اب حریفوں کے ذریعے ناکامیوں اور ادھوری کامیابیوں کو لےکر وضاحت مانگی جا رہی ہے۔
ایسے میں اقتدار کیا کر سکتا ہے؟ آخر اکثریتی کمیونٹی کو غصے میں کیسے رکھا جائے، اس کے جذبات کو بھڑکاکر کیسے رکھا جائے؟ وہ بھی کچھ ایسے کہ ‘ فرقہ پرست’ ہونے کا الزام نہ لگے؟ پہلی بات، اس کو ہندو ووٹ بینک کو لگاتار ملک میں اور ملک سے باہر، مسلموں سے پیدا ہونے والے خطروں اور خوف کے بارے میں یاد دلاتے رہنا ہے۔ لیکن، ایسا مسلسل طور سےکر پانا آسان نہیں ہے۔ تین طلاق سپریم کورٹ کے ذریعے سلجھا دیا گیا ہے ؛ مسلموں اور ان کے رہنماؤں نے اب جوش میں آنا بند کر دیا ہے اورایک فکر مند انداز میں، وہ اپنے غار میں واپس آ گئے ہیں.۔
ایسے میں اسٹریٹجک سوال یہ بنتا ہے کہ آخر عدم اطمینان اور ناپسندیدگی کی اس لہر کو قابو میں کیسے کیا جائے؟ ایسے میں اسٹریٹجک سوال یہ بنتا ہے کہ آخر عدم اطمینان اور ناپسندیدگی کے آ رہی لہر کو قابو میں کیسے کیا جائے؟ اس کے لئے نئے دشمنوں کی ضرورت ہے۔ غیر ملکی دشمن کو ضرورت سے زیادہ نچوڑ لیا گیا ہے۔ اس بارے میں نئے سرے سے غور کرنے کی ضرورت ڈوکلام کے بعد پڑی، جس نے کوئی ایسا واضح نتیجہ نہیں دیا، جس کو جیتکی کہانی میں ڈھالا ڈھالا جا سکتا تھا یا انتخابی ماحول میں جس کا ڈھنڈورا پیٹا جا سکتا تھا۔ اس لئے اس دشمن کی تلاش اب گھر میں کی جا رہی رہی ہے۔ اس میں تاریخ کو کام میں لگایا گیا ہے۔
ہندو ووٹ بینک کو بچائے رکھنے کے لئے نئے نئے ایجادات اور نئی نئی تراکیب کی ضرورت ہے۔ سوال ہے کہ ہمیں لگاتار پرجوش کیسے رکھا جائے؟ اس کے لئے تاریخ یا تاریخ کے کسی خاص سبق کو ہوا دینی ہوگی، تاکہ ہمارے زخمی حصوں کو کھرونچا جا سکے۔اس لیے ہم سب کو گردن سے گھسیٹ کر تاریخ کے تعصب اور عدم اطمینان کی بدبو کو سونگھنے کے لئے کہا جا رہا ہے۔ ایسی کوئی بھی چیز ان کے کام کی نہیں ہے، جو ہمارے اندرونی خوف اور تعصب کو ابھار سکے ۔اس کے لئے دیال سنگھ کالج کا نام بدلکر وندے ماترم کالج کیا جا سکتا ہے۔ اس کی مخالفت کیجئے اور غدار وطن کا الزام لگنے کا خطرہ اٹھائیے۔اگلا میدان جنگ کرناٹک ہے، جہاں ایک چالاک وزیراعلیٰ نے تعصب اور اشتعال پیدا کرنے والے ہندو توا کے مقابلے میں کناڈگا ذیلی قومیت کے جذبہ کو ہوا دی ہے۔ وہاں ٹیپو سلطان پر داؤںکھیلا جا رہا ہے۔ ان کو محض ہندوؤں پر ظلم ڈھانے والے مسلم حکمراں کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔
پدماوتی تنازعہ صرف بہادری کے راجپوتانہ خیال کی تعریف نہیں ہے ؛ اس کو ہوا دینے اور شاید پیسے سے اس کی مدد کرنے کا مقصد راجپوت رانی کے متعلق ایک بد ذات مسلم حکمراں کے گھناؤنے عمل کو نشان زد کرنا ہے۔اور اگر اس طرح کی ریاکاری سے بھرے دومونہے بول کامیاب نہ ہوں، تو راہل گاندھی کا مقابلہ علاءالدین خلجی اور اورنگزیب جیسے عہد وسطی کے سلطان سے کیا جانا ہے۔ ہمارے حکمراں طبقہ کے سامنے ایک مسئلہ ہے۔ ہندوؤں میں مسلسل طریقے سے جذباتی جوش یا کبھی ختم نہ ہونے والی دشمنی کے جذبہ کو بنائے رکھنے کی صلاحیت نہیں ہے۔ ویسے بھی، ہندوؤں کا سارا جذباتی سرمایہ ان تین سالوں میں نچوڑ لیا گیا ہے۔ ہندو اب یہ سوال پوچھنے کے لئے بیقرار ہو سکتا ہے کہ آخر پدماوتی پر پابندی عائد کرنے سے کتنی نوکریاں پیدا ہونے والی ہیں؟ اس کو یہ بھی پتا ہے کہ دیپکا پادوکون کوئی پہلو خان نہیں ہیں۔
جنگ جیسی حالت کے نہ ہونے سے ہندو اپنے روزمرہ کے سکون میں لوٹکر خوش ہے۔ وہ اپنے ساتھ اپنی اندرونی دنیا میں امن کی حالت میں ہے۔ ہندوؤں میں اپنے بارے میں اور اپنے سماج اور ملک کو لےکر ایک مثبت اور فکری نظریہ ہے۔ یہی ہندوستان کی تہذیب کے ابتک زندہ رہنے کی جڑ میں ہے۔
(ہریش کھرے، دی ٹربیون کے ایڈیٹران چیف ہیں۔)
Categories: فکر و نظر