خبریں

گدھوں کی رہائی،راہل گاندھی کا مذہبی عقیدہ ،’پاکستان زندہ باد‘کے نعرے اور مویشیوں کے ساتھ زیادتی کا سچ

فیک نیوزراؤنڈاپ:خبر کا بازار گرم ہو تو کیا نہیں بیچا جا سکتا ہے  اور آج کے اس تکنیکی دور میں میڈیا سب کچھ بیچ رہا ہے۔

rahul-1

میڈیا کی ذمہ داری یہ ہے کہ  وہ حکومت اور سماج کے معاملات کو صحیح طریقےسے سماج  کے سامنے رکھے ،اور اس کے لئے ضروری ہے کہ میڈیا  کو انتظامیہ کے اداروں کی صحیح شناخت ہونی چاہیے۔ اتر پردیش کے ضلع جا لون میں کچھ گدھوں کی ضلع جیل  سے رہائی کی خبر میڈیا کی اسی لا علمی کی وجہ سے  تھی ،جس میں یوپی پولیس کو بہت بدنام کیا گیا !سب سے پہلے نیوز اجنسی اے این آئی نےٹوئٹر پر  ایک ویڈیو پوسٹ کیا، جس میں کہا گیا کہ اتر پردیش پولیس نے گدھوں کے ایک جُھنڈ کو جیل سے رہا کیا، گدھوں پر بیش قیمتی  پودوں کو کھانے کا الزام تھا !

اس کے بعد ٹائمز آف انڈیا، انڈیا ٹوڈے، اور NDTV جیسے ذمہ دار میڈیا اداروں نے “پولیس” کو نشانہ بناکر ہی خبر کو شائع کیا۔خبر کےتعلق سے   مین اسٹریم میڈیا کی اس جلدبازی اور سوشل میڈیا کے لطیفوں میں اتر پردیش پولیس کا چہرہ کافی حد تک گندہ کر دیا گیا اور اس بات کو نظر انداز کر دیا گیا کہ صوبے میں ضلع جیلوں کا انتظام پولیس ڈیپارٹمنٹ کی ذمہ داری نہیں ہوتی ہے ۔ صوبے کی وزارت داخلہ کی نگرانی میں جس طرح پولیس ڈیپارٹمنٹ آتا ہے اسی طرح جیل ڈیپارٹمنٹ کا اپنا آزادنہ وجود ہوتا ہے۔ جیل ڈیپارٹمنٹ اور پولیس ڈیپارٹمنٹ کے طریقے اور ذمہ داریاں الگ الگ ہیں ۔ ضلع جیل کی نگرانی جیل ڈیپارٹمنٹ کرتا ہے۔

بقول الٹ نیوز، اتر پردیش پولیس نے ٹوئٹر کے ذریعے راہل کنول اور NDTV کی مدیر سُپرنا سنگھ کو ان کی غلطی کا احساس دلایا لیکن میڈیا سننے کو ہرگز تیار نہیں ہوا ! پولیس نے کہا کہ گدھوں کی رہائی والی خبر سے اتر پردیش پولیس کا کوئی لینا دینا نہیں ہے، لہذا اس غلطی کی اصلاح کی  جائے !

fn1

فیک  نیوز کے تذکرے میں اگلی بات راہل  گاندھی  کے خلاف  کئے گئے اس دعوے کی کرتے ہیں جس میں یہ توہمت لگائی گئی  کہ راہل گاندھی نے گجرات کے سومناتھ مندر میں غیر ہندوعقیدت مندوں کے  رجسٹر میں دستخط کئے اور خود کو ہندو ماننے سے گریز کیا ! سب سے پہلے یہ دعویٰ  زی کےگجراتی چینل (زی گجراتی) نے کیا، اس کے بعد صحافی تیجش مودی نے اسکو ٹوئٹ کیا۔ ہر بار کی طرح اس بار بھی بی جے پی کے آئی ٹی سیل کے صدر امت مالویہ نے بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے میں کوئی کمی نہ کی اور راہل کو اپنے ٹوئٹ میں گھیرنا چاہا !زی نیوز نے راہل کے عقیدے پر اسٹوری بھی کر دی، ٹائمز آ ف انڈیا نے اسے اپنے اخبار میں فرنٹ پیج کی رونق بنا ڈالا اور سب سے بڑھکر ٹائمز ناؤ نے اپنے چینل پر ایک گھنٹے  کا پرائم ٹائم  کیا !

فرسٹ پوسٹ اور الٹ نیوز نے اس افواہ کی حقیقت سے پردہ اٹھایا اور واضح کیا کہ پہلے کی طرح یہ بھی راہل گاندھی کے خلاف ایک پروپیگنڈہ تھا۔ مبینہ طور پر جس تصویر کو مندر کے رجسٹر کی تصویر بتایا جا رہا تھا، وو جعلی تصویر تھی اور اصلی تصویر کانگریس پارٹی نے جاری کرتے ہوئے کہا کہ راہل گاندھی نہ صرف ہندو ہیں بلکہ وو جنیئو پوش ہندو ہیں۔ الٹ نیوز کی ٹیم نے تصویر میں موجود ہ لکھائی کی تفتیش کی اور پایا:

  1. تصویر میں موجود لکھائی راہل گاندھی کی نہیں ہے۔
  2. تصویر میں دو شخصیات کا نام ہے ، راہل گاندھی کے نام کے ساتھ احمد پٹیل کا نام بھی موجود ہے ۔ دونوں میں ایک ہی لکھائی ہے اور احمد پٹیل کے نام کا املا غلط ہے !
  3. راہل گاندھی کے نام کے آخر میں “جی” لگا ہے جو یہ سوال اٹھاتا ہے راہل اپنے نام میں “جی” کیوں لگائیں گے؟
  4. رجسٹر کے آخری کالم میں راقم کا نام اور موبائل نمبر بھی موجود ہے جسے نظرانداز کر دیا گیا !

حالات حاضرہ کا جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ آج ہندوستان کی سیاست کے بُرے دور سے گزر رہا ہے جہاں نہ تو سیاسی رہنما اپنے فرائض سمجھ رہے ہیں اور نہ ہی میڈیا !

fn2

مبینہ وطن پرستی کی بنیاد پر سیاسی جذبات کو ہمیشہ بھڑکایا جاتا ہے اور اپنے مفاد کی تکمیل کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔  گزشتہ ہفتے ایسا ہی واقعہ اتر پردیش کے ضلع غازی آباد میں پیش آیا جہاں حقیقت کو جانے بغیر ہی دینک جاگرن، دینک بھاسکر، امر اجالا اور جن  ستا جیسے اخبارات نے یہ خبر شائع کر دی کہ غازی آباد کی ایک الیکشن ریلی میں مجلس اتحاد المسلمین پارٹی کے کارکنان “پاکستان زندہ باد ” کے نعرے لگا رہے ہیں۔ امر اجالا نے اپنی حد کو پار کرتے ہوئے یہ تک شائع کر دیا کہ ریلی میں موجود افراد میں اگر کسی کی بھی شناخت ہو تو فوراً پولیس کو خبر دیں !

معاملے کی تفتیش کے لئے الٹ نیوز نے صاحب آ باد کے پولیس SHO سے رابطہ کیا ۔ انہوں نے کہا کہ یہ الزامات غلط ہیں اور یہ کہ انہوں نے خود ویڈیومیں موجود آواز کو سنا ہے جو مجلس کے امیدوار حاجی شاہد کی حمایت میں ہے ۔ SHO نے کہا کہ پولیس اور تفصیلی جانچ کر رہی ہے۔ الٹ نیوز نے مجلس کے مقامی صدر پرویز پاشا سے بھی بات کی۔ پاشا نے بتایا کہ یہ غلط بیانی ہے کہ ریلی میں پاکستان کی حمایت میں نعرے لگے ہیں ۔  دراصل جس راستے سے ریلی گزر رہی تھی  وہاں حاجی ذیشان کی دو کان ہے، ریلی میں موجود افراد اتنے جوش میں تھے کہ وہ “حاجی ذیشان زندہ باد”کے نعرے لگانے لگے اور یہ نعرے آپکو “حاجی ذی شان زندہ باد” کی شکل میں سنائی دے رہے ہیں !

واضح ہو کہ ریلی کی  اسی ویڈیو میں نوجوان افراد کے ہاتھوں میں ہندستان کا قومی پرچم ترنگا بھی  نظر آ رہا ہے لیکن میڈیا نے “حاجی ذی شان زندہ باد” کے نعروں کو “پاکستان زندہ باد” کی شکل دے دی ،  یہ ظاہر کرتا ہے کہ لفظ پاکستان ا   س  قدر میڈیا کے ذہن میں رہتا ہے  کہ ان کو قومی پرچم بھی دکھائی نہیں دیتا !

خبر کا بازار گرم ہو تو کیا نہیں بیچا جا سکتا ہے  اور آج کے اس تکنیکی دور میں میڈیا سب کچھ بیچ رہا ہے ! ویڈیو ٹوئٹ میں ٹائمز ناؤ کے  رپوٹر کا دعویٰ سماعت فرمائیں :

ٹائمز ناؤ کے صحافی نے الزام لگایا ہے کہ ویڈیو میں مویشیوں کے ساتھ ظلم اور زیادتی کی جا رہی ہے اور اسکی وجہ صرف بازار میں کھانے کے لئے گوشت فراہم کرناہے !قصائی کے علاوہ مویشیوں کے مالک بھی اس ظلم سے باز نہیں آ رہے ہیں !ٹائمز ناؤ نے اس معاملے پر ایک گھنٹے کا پروگرام اپنے ٹی وی پر منعقد کیا !الٹ نیوز نے ڈاکٹر فرحت عمر سے بات کی۔ ڈاکٹر فرحت نئی دہلی میں مقیم ویٹرنری  ایکسپرٹ ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ یہ کسی طرح کی ظلم  زیادتی نہیں ہے۔ جانوروں کےاسپتال میں یہ حاملہ گایوں اور بھینسوں کی بچے دانی کو درست کرنے کا طریقہ ہے۔ بعض اوقات حاملہ مویشیوں میں بچے دانی کا رخ ترچھا ہو جاتا ہے اور بچے دانی اپنی جگہ سے ہٹ جاتی ہے۔ اگر اسی صورت حال میں بچے کی پیدائش ہونی ہو تو وہ تکلیف کی وجہ بنتی ہے۔ اس لئے اس تکلیف سے بچنے کے لئے یہ طریقہ اپنایا جاتا ہے جو ویڈیو میں دکھایا گیا ہے ، اسے (Uterine torsion) کہتے ہیں ؛ یعنی بچے دانی کوگُھما کر  اسکی قدرتی جگہ پر منتقل کر دینا !یوٹیرئین ٹورشن کا طبی طریقہ اس ویڈیو میں واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے :

(مضمون نگار مسلم یونیورسٹی علیگڑھ میں شعبہ سیاسیات میں ریسرچ اسکالر ہیں  )