ادبستان

مریم ابو ذہاب :اردو کی نامور فرانسیسی مترجم

مریم ابو ذہاب کو اردو سے  خصوصی لگاؤ تھا ۔ ہندوستان اور پاکستان کا سفر ان کے لئے کسی سفرِ عشق سے کم نہیں تھا جہاں اُنہیں اپنی پسندیدہ زبان کو استعمال  کرنے اور اُس پر کام  کرنے کا موقع ملتاتھا۔

Photo: Institute of Regional Studies

Photo: Institute of Regional Studies

 فرانس کی معروف محقق مریم ابو ذہاب کا انتقال یکم نومبر  کو اس سال پیرس میں ہوا ۔ بین الاقوامی سطح پر پاکستان اور افغانستان کی خارجہ پالیسی کی ماہراس خاتون کا رشتہ ہندوستان سے بھی تھا جہاں انہوں نے کئی بار سفر کیا۔مریم ابو ذہاب کی پیدائش 1952 میں فرانس کے ایک چھوٹے شہر  Hon Hergies میں ہوئی۔ ان کا نام ماری پیر واقمان تھا، تبدیلی مذہب کے بعد انہوں نے اپنا نام مریم ابو ذہاب رکھا ۔

ایک معلم کے طور پر انہوں نے 25 سالوں تک Inalco, Paris میں اور Institut d’études politiques میں پاکستان اور افغانستان کی تاریخ، پاکستان کا معاشرہ  خاص طور پر جنگی صورت حال  اور دہشت گردی پر بیش لیکچر دیے ۔ ان ہی  موضوعات پر انہوں نے بے شمار مضامین لکھے ۔ دراصل 1980 سے ہی انہوں نے پاکستان اور افغانستان کا سفر کرنا شروع کر دیا تھا۔ ابو ذہاب فرانس کے ان گنے چنے عالموں میں سے تھیں جنہوں نے بہت لمبے عرصہ تک ان دونوں ممالک میں دہشت گردی پر ریسرچ کیا ۔

مریم ابو ذہاب کو اردو سے  خصوصی لگاؤ تھا ۔ ہندوستان اور پاکستان کا سفر ان کے لئے کسی سفرِ عشق سے کم نہیں تھا جہاں اُنہیں اپنی پسندیدہ زبان کو استعمال  کرنے اور اُس پر کام  کرنے کا موقع ملتاتھا۔ اکثر اپنے لکچرس میں جنوبی ایشیا کی معاشرت پر تبصرہ اور  معائنہ کرنے کے لئے وہ اردو ادب کا سہارا لیتیں ۔ فرانسیسی زبان میں اپنے لکچرس کے لئے کئی ادیبوں کی تحریروں کا ترجمہ کرکے اردوادب کوفرانس میں فروغ دیا ۔ وہ نیرمسعود کی تصانیف سے بے حد متاثر رہیں ۔ ان کی کتاب  عطرِ کافور کا فرانسیسی میں ترجمہ بھی کیا ۔ فرانس کے اردو شائقین اور ادبی حلقوں میں اس ترجمے سے اُن کی الگ پہچان بنی ۔

مریم ابو ذہاب کا شمار اُن محققوں  میں ہوتاہے جنہوں نے اپنے رِیسرچ کو انسانیت اور ہمدردی سے جوڑا ۔ اُن کی زندگی کا سب سے بڑا مقصد بے سہاروں کی مدد کرنا، غریب اور ستائے ہوئے لوگوں کے حمایت میں آواز اُٹھانا، دہشت گردی اور جنگ کے شکار  معصوم بچّوں کو تقویت اور امداد پہچانا تھا ۔ اُن کے بھائی دومینیک والقمان کا کہنا ہے کہ مریم نے اپنی وفات سے پہلے ایسا انتظام کیاہے کہ استعانت کا سِلسِلہ جاری رہے گا۔

(مضمون نگار انالکو ،پیرس میں شعبہ  جنوبی ایشیا اور ہمالیہ ڈپارٹمنٹ کے ڈپٹی ڈائریکٹر ہیں۔)