خبریں

مدھو کشور کے ٹویٹ، راہل گاندھی کے دعوے اور انڈیا ٹوڈے کی بارڈر سے گراؤنڈ رپورٹ کا سچ

ملک کے میڈیا اداروں کا وطنیت کے جذبات میں اس قدر اندھا ہو جانا بہت افسوس ناکہے اور ایسے حالات میں گردیو ربندر ناتھ ٹیگوربہت یاد آتے ہیں جب وہ تصور وطنیت کو غلط بتاتے ہیں۔

FN_MadhuKishwar

بھگوا  فکر کی ہمیشہ یہی کوشش رہتی ہے کہ ہندوستان کے اقلیتوں کو بدنام اور انھیں پریشان کیا جائے۔ اور اپنے اس ناپاک مقصد کے تحت وہ اکثر ہندوستان کے مسلمانوں اور عیسایوں کو نشانہ بناتے ہیں۔ فلم پدماوت  کے نام پر  ہونے والے وبال نے اس وقت ایک نیا رخ اختیار کر لیا جب گرو گرام میں کرنی سینا کے کارکنوں نے ایک اسکول بس کو سپررد آتش کر دیا ! گروگرام پولیس نے تقریباً 18 افراد کو اس جرم کے لئے گرفتار کیا ہے۔ لیکن پولیس کی اس کامیابی کو فرقہ وا رانہ رنگ دینے میں بھگوا فکر  کےحامی  افراد نے بلکل بھی وقت نہیں لیا۔

سوشل میڈیا،  انٹرنیٹ،  فیس بک، ٹویٹر اور وہاٹس اپ پر اس اس فیک نیوز کو عام کیا گیا کہ گرفتار ہونے والے افراد میںلوگ مسلمان ہیں جن کے نام صدام، ندیم، فیروز، آمر اور اشرف ہیں !بقول الٹ نیوز،  شالنی کپور نام کی ایک خاتون نے سب  سے پہلے فیس بک پر نفرت زدہ پوسٹ لکھی۔ شالنی کے علاوہ  ٹویٹر پر کچھ ایسے اکاؤنٹس بھی موجود ہیں جنکو وزیر اعظم نریندر مودی خود فالو کرتے ہیں اور ان اکاؤنٹس سے بھی یہی بدگمانی عام کی گیی ، جتیندر پرتاپ سنگھ، کنور اجے پرتاپ سنگھ اور  جے نامی اکاؤنٹس ان اکاؤنٹس میں سے ہیں۔ ان کے علاوہ مدھو پورنما کشور نے بھی اس افواہ کو اپنے ٹویٹر پر عام کیا، جب انکو ٹویٹر پر اس افواہ کو عام کرنے کا علم ہوا تو انہوں نے اپنا ٹویٹ ڈیلیٹ کر دیا اور ایک ٹویٹ میں معافی مانگی۔

اس پورے معاملے میں حقیقت یہ ہے کہ یہ سب ٹویٹ اور فیس بک پوسٹ کوری افواہیں تھی جن کو گرگرام پولیس نے اپنے ٹویٹ میں رد کیا۔ پولیس کے لکھا : “یہ واضح کیا جاتا ہے کہ ہریانہ روڈویز بس اور ایک اسکول بس پر ٹوڈ فوڈ کے معاملے میں کسی مسلم نوجوان شخس کو گرفتار نہیں کیا گیا ہے۔

22 جنوری کو دی وائر نے  ایک خبر شایع کی تھی جس میں آکسفیم (Oxfam) سروے کی رپورٹ کےحوالہ سے لکھا تھا کہ ہندوستان کی سب سے زیادہ امیر ایک فیصد آبادی ملک کی اس  73 فیصد ملکیت  اور دولت کی مالک ہے جو سال 2017 میں ملک نے پیدا کی ہے۔ کانگریس پارٹی کے موجودہ صدر راہل گاندھی نے دی وائر کی اس خبر کو  غور سے پڑھے بنا ہی وزیر اعظم نریندر مودی کو نشانہ بناتے ہوئے ٹویٹ کیا کہ کیا مودی جی! آپکا سوئٹزر لینڈ میں خیر مقدم ہے ، آپ داووس میں یہ وضاحت فرمایں کہ  ملک کی 73 فیصد دولت ایک فیصد امیر عوام کے قبضے میں کیسے ہے !” راہل گاندھی نے اپنے ٹویٹ میں دی وائر کیرپورٹ کا لنک ہی ٹویٹ کیا تھا جس میں دی وائر نے صاف طور پر پہلی لائن میں لکھا تھا کہ یہ سروے 2017 کا ہی ہے۔ لیکن راہل گاندھی نے اسے اس طرح پیش کیا جیسے کہ وہ 2014 سے اب تک کا سروے ہو۔

جہاں تک دولت کے حصول میں غیر برابری کی بات ہے، اس کیبڑی وجہ ملک کے نظام میں بد عنوانی ہے۔ آزادی کے فوراً بعد ہی ملک کے لیڈران بد عنوانی کے تعلّق سے بہت فکرمند رہتے تھے۔ یہاں تک کہ جب ہندوستان کی آئین ساز اسمبلی دہلی میں آئین بنانے کے لئے بیٹھی تھی تو مہاتما گاندھی نے بطور حکایت ایک جنتر انکو دیا تھا اور کہا تھا کے جب کوئی بھی کام کریں، کوئی بھی قانون بنایں تو ملک کے اس سب سے زیادہ غریب شخص کا چہرہ یاد کر لینا جو اپنے زندگی میں دیکھا ہو۔ اسی طرح سابق وزیر آعظم راجیو گاندھی نے بھی کہا تھا سرکاری امداد کا روپے میں دس پیسا ہی عوام تک پہنچ پاتا ہے۔ 1990 کی  معاشی  تبدیلیوں کے بعد غیر برابری اور زیادہ بڑھ گیی ہے  جہاں کارپوریٹ کو  ملک کی دولت کے بے لگاماستمعال سے کوئی روکنے والا نہیں ہے۔ اور اس میں سبھی سرکاریں ملوث ہیں، صرف بی جے پی کو کوسنا جانبدارانہ عمل ہوگا ! راہل گاندھی کو اس معاملے میں ذرا سیریس ہونے کی ضرورت ہے ۔

fn_oxfam

معاشی معاملات میں غیر برابری اور بد عنوانی کے بعد اب بات کرتے ہیں میڈیا میں موجود بد عنوانی کی اور  انڈیا ٹوڈے کی بارڈر گراؤنڈ رپورٹ کی جس کے ذریعے احساس وطنیت کا بیجا استمعال کیا گیا اور تقریباً 2 سال پرانی ویڈیو کو اپنے ٹی وی چینل پر چلا کر عوام کو گمراہ کیا گیا۔ انڈیا ٹوڈے چینل کی ویڈیو دیکھئے:  

ویڈیو میں انڈیا ٹوڈے کے ایگزیکٹو ایڈیٹر اور پرائم ٹائم شو کے اینکر گورو ساونت اپنے رپورٹر اشونی سے بات کر رہے ہیں جو یہ دکھا رہے ہیں کہ پاکستانی افواج ہندوستانی شہریوں پر ظلم کر رہی ہیں اور انکو ہلاق کر رہی ہیں ! الٹ نیوز نے اپنی تفتیش میں پایا کہ جس ویڈیو کو انڈیا ٹوڈے نے ایئر کیا ہے وہ دو سال پرانی ہے جب پاکستانی افواج نے دہشت گرد تنظیموں کے خلاف اپنے مشنضرب عزمکے تحت شمالی وزیرستان میں دہشت گردوں کو نشانہ بنایا تھا۔ انڈیا ٹوڈے نے جن افراد کو ہندوستانی قرار دیا ہے، دراصل انکا ہندوستان سے کوئی تعلّق نہیں ہے!اصل ویڈیو یہاں دیکھا جا سکتا ہے:

ملک کے میڈیا اداروں کا وطنیت کے جذبات میں اس قدر اندھا ہو جانا بہت افسوس ناکہے اور ایسے حالات میں گردیو ربندر ناتھ ٹیگوربہت یاد آتے ہیں جب وہ تصور وطنیت کو غلط بتاتے ہیں۔