وزیر اعظم نریندر مودی کے اس دورہ کو ترتیب دینے والے وزارت خارجہ کے ایک افسر بی بالا بھاسکر کے مطابق فلسطینی دور ہ کے تین اہم مقاصد تھے۔
1979میں جب ناروے کی سمندری حدود میں پیٹرولیم کے ذخائر نکالنے کا کام شروع ہوا ،تو ملک کے اندر اور یورپ و امریکہ کے متعدد عیسائی اور یہودی اداروں نے اوسلو حکومت پر دباؤ بنایا، کہ یہ تیل اسرائیل کو ارزاں نرخ پر یا مفت مہیا کرایا جائے۔ ان کی دلیل تھی، چونکہ تیل کی دولت سے مالامال عرب ممالک اسرائیل کو تیل فراہم نہیں کرتے ہیں اور ایران میں مغرب نواز حکومت کا تختہ پلٹنے سے انرجی کی فراہمی اور زیادہ مشکل ہوگئی ہے، اس لئے ناروے کو اپنے وسائل یہودی ریاست کی بقا ء کیلئے وقف کردینے چاہئے۔ ناروے کی 150رکنی پارلیمان میں اس وقت 87اراکین فرینڈز آف اسرائیل تنظیم کے سرگرم رکن تھے۔مگر کوئی فیصلہ کرنے سے قبل ناروے کے وزیر اعظم اوڈوار نورڈلی نے فلسطین لیبریشن آرگنائزیشن یعنی پی ایل او کے راہنماؤں اور عرب ممالک کا موقف جاننے کی خواہش ظاہر کی۔ بیشتر عرب ممالک نے اسرائیل کو انرجی مہیا کروانے کی پر زور مخالفت کی ۔ ان کی دلیل تھی کہ اس کے بعد اسرائیل اور بھی زیادہ شیر ہو جائیگا اور امن مساعی مزید دشوار ہو جائیگی۔ مگر پی ایل او کے سربراہ یاسر عرفات نے ناروے کے وزیر اعظم کو بتایا کہ
’’ چاہے آپ اسرائیل کو تیل فراہم کریں یا نہ کریں، وہ یہ تیل حاصل کرکے ہی رہیگا۔ براہ راست نہ سہی بالواسطہ دنیا میں کئی ملک اور افراد ہیں جو یہ خرید کر اسرائیل کو فراہم کریں گے۔ لہذا بہتر ہے کہ ناروے اسرائیل کے ساتھ اپنی خیر سگالی کا خاطر خواہ فائدہ اٹھا کر فلسطینی قیادت اور اسرائیل کے درمیان پس پردہ مذاکرات کا سلسلہ شروع کرواکے ثالث کا کردار نبھائے۔‘
14سال بعد ناروے کی کاوشوں کی صورت میں اوسلو اکارڈ وجود میں آیا۔ جس کی رو سے فریقین نے ایک دوسرے کے وجود کو تسلیم کرتے ہوئے دو ریاستی فارمولہ پر مہر لگائی ۔ یاسر عرفات کو فلسطینی اتھارٹی کا سربراہ تسلیم کیا گیا اور مغربی کنارہ اور غازہ کی پٹی ان کے حوالے کی گئی۔بعد میں بد قسمتی سے اسرائیل نے مکمل فلسطینی ریاست کے قیام اور ریفوجیوں کی واپسی کے معاملے میں رکاوٹ پیدا کردیں، جس کی وجہ سے اوسلو اکارڈ کی روح ہی فنا ہوگئی اور قیام امن کے بجائے خطہ کا مستقبل مزید مخدوش ہو گیا ۔
خیر اس واقعہ کو بیان کرنے کا مقصد یہ تھا کہ وزیر اعظم نریندر مودی اسرائیل کے ساتھ اپنے تعلقات مستحکم کرنے اور اپنے ہم منصب بنجامين نتن یاہو سے دوستی کا اعادہ کرنے کے بعد عرب ممالک کو اب رام کرنے میں مصروف ہیں۔ اور اس سلسلے میں اردن،فلسطین، متحدہ عرب امارات اور عمان کا دورہ مکمل کرکے واپس آگئے ہیں۔ چونکہ ان کو معلوم ہے کہ قضیہ فلسطین عربوں اور دنیا بھر کے مسلمانوں کی رگوں میں بسا ہو ا ہے، اس لئے فلسطینی عارضی دارلحکومت رملہ میں ان کا دن بھر کا قیام ان کے عرب آوٹ ریچ پروگرام کا اہم ترین جزو تھا۔ چھ ماہ قبل اسرئیل کا دورہ کرکے اور پھر پچھلے ماہ نتن یاہو کی میزبانی کرکے مودی نے اپنے مسلم مخالف ہندو تو احلقہ کی پذیرائی حاصل تو کی، مگر کیا کیا جائے اس بگڑتی ہوئی معیشت کا، جو ان کی حکومت کے قابو میں ہی نہیں آرہی ہے۔ زراعت، انڈسٹری، سروسز، برآمدات، غرض ہر شعبہ کی تصویر تسلی بخش نہیں ہے۔ مودی کو معلوم ہے کہ اگر اقتصادی صورت حال فوراً تبدیل نہیں ہوجاتی ہے، تو اگلے سال کے اوائل میں ان کے لیے دوبارہ اقتدار میں آنا مشکل ہوسکتا ہے۔ شاید عوام جذباتی نعروں کے بجائے اس بار پیٹ کو زیادہ فوقیت دیں گے۔عرب خاص طور پر خلیجی ممالک ہندوستان کیلئے نہ صرف انرجی کے حصول کا ذریعہ ہیں بلکہ فی الحال اس کی اقتصادیات کی شہ رگ ہیں۔
ویڈیو : وزیر اعظم نریندر مودی کے فلسطین دورے پر سدھارتھ وردراجن سے بات چیت
ہندوستان کی تجارت کا 20فیصد حصہ خلیجی ممالک سے وابستہ ہے۔ تیل کے علاوہ دیگر اشیا ء کی دو طرفہ تجارت کا حجم ہی 110بلین ڈالر سے تجاوز کرچکا ہے۔ اسکے علاوہ یہ خطہ ہندوستان کی انرجی کی 65فیصد ضروریات بھی پوری کرتا ہے۔اسکے علاوہ اس خطہ میں 18 ملین ہندوستانی شہری کام کرتے ہیں۔ پچھلے سال انہوں نے 40بلین ڈالر کی رقوم اپنے گھروں کو بھیجی ، جو کمزور ہوتی ہوئی معیشت کو سہارا دینے کا ایک بڑا ذریعہ ہے۔ لہذا اپنے حلقہ کے جذبات کو ایڈریس کرنے کے بعد حقیقت پسندانہ رویہ اپنا کر عربوں کو لبھانا ضروری تھا۔ اپنے دورہ سے قبل مودی نے وزیر خارجہ سشما سوراج کو سعودی عرب کے چار روزہ دورہ پر بھیجا۔ سعودی عرب کے وزیر تیل اس ماہ کے آواخر میں دہلی آر ہے ہیں۔ ایرانی صدر حسن روحانی بھی اگلے ماہ ہندوستان وارد ہور ہے ہیں۔
مودی کے اس دورہ کو ترتیب دینے والے وزارت خارجہ کے ایک افسر بی بالا بھاسکر کے مطابق فلسطینی دور ہ کے تین اہم مقاصد تھے۔ ایک تو عرب دنیا کو یہ باور کرانا کہ ہندوستان کی اسرائیل کے ساتھ بڑھتی قربت کا مطلب فلسطینی موقف سے دستبردار ہونا نہیں ہے۔ دوسرا فلسطینیوں کو ملکی تعمیر میں مدد دینا اور تیسرا یہ پیغام دینا تھا کہ ہندوستان دنیا کے کسی بھی فورم میں فلسطین کی ممبر شپ کی حمایت جاری رکھے گا ۔ اس سلسلے میں ان کا کہنا تھا، کہ حال ہی میں انٹر پول کی طرف سے فلسطین کو ممبربنانے میں ہندوستان کا بڑا ہاتھ تھا۔ ذرائع کے مطابق مودی کی سیکورٹی پر مامور افراد نے ان کو فی الحال اس دورہ سے باز رکھنے کی بھر پور کوشش کی تھی۔ مگر وہ جانے کیلئے اتنے بیتاب تھے کہ انہوں نے خدشات کو درکنار کرتے ہوئے آخری وقت اردن کے دارلحکومت عمان کے ذریعے رملہ پہنچنے کا فیصلہ کیا۔ جس وقت حکومت اردن کے ہیلی کاپٹر میں وہ بحیرہ میت اور دریائے اردن کے اوپر پرواز کر رہے تھے، تو کچھ فاصلے پر شمالی اسرائیل میں اسوقت راکٹوں اور میزائل الرٹ کے سائرن بج رہے تھے۔ اس علاقہ میں اسی دن اسرائیل کا ایک ایف۔17جہاز مار گرایا گیا تھا ، جو شامی حدود کے اندر ایک ایرانی ڈرون مستقر پر بمباری کرنے گیا تھا۔ اسی وقت اسرائیلی فضائیہ شامی حدود میں میزائلوں سے حملہ کر رہی تھی۔ گو کہ اسرائیلی طیاروں نے فضائی راستہ کو کلیر کرنے کیلئے متعدد جنگی طیاروں اور راڈر سسٹم کوخصوصی طور پر متعین کیاہوا تھا اور اسکے جنگی طیارے عمان سے رملہ اور واپسی تک مودی کے ہیلی کاپٹر کے اردگرد حلقہ بنائے ہوئے تھے، مگر ماہرین کے مطابق یہ دورہ کسی رسک (Risk)سے کم نہیں تھا۔
راکٹوں اور میزائلوں کے برسنے کا اس قدر خوف تھا، کہ اسرائیل نے اپنے تل ابیب کے بن گورین بین الاقوامی ایرپورٹ کو سبھی پروازوں کیلئے بند کیا ہوا تھا۔عمان سے ہیلی کاپٹر سے جانے کا مقصد یہ بھی تھا، کہ ہندوستان ، اسرائیل اور فلسطین کو ایک دوسرے کی نظروں سے دیکھنے کے بجائے اپنے مفادات کی عینک اور آزادانہ حثیت میں اب دیکھنے کا قائل ہے۔ ایک اور ہندوستانی افسر کے مطابق کہ عرب ممالک اکثر و بیشتر تنازعہ فلسطین اور کشمیر کو ایک ہی نظریہ سے دیکھتے ہیں اور ان ممالک میں پاکستان اور اسکی خارجہ پالیسی کا اچھا خاصا اثر و رسوخ ہے۔ مودی کے ذریعے یہ باور کرانا کہ فلسطینی کاز کو اسرائیل کی دوستی پر قربان نہیں کر نے دیا جائیگا، عربوں کو یہ واضع پیغام دینا تھا کہ وہ اپنے کشمیر کے موقف میں نظر ثانی کریں اور ہندوستان کی حساسیت کا خیال کرتے ہوئے فلسطین اور کشمیر کو ایک ہی پلڑے میں نہ تولیں۔ ان کے مطابق اگر ہندوستان مغربی ایشیا میں امن قائم کروانے میں رول ادا کرتا ہے تو یہ ایک ایسا سفارتی اسٹروک ہوگا جس سے پاکستان مسلم دنیا میں بھی الگ تھلگ پڑ سکتا ہے۔
چند برس قبل جب صحافیوں کے ایک گروپ کے ہمراہ میں اسرائیل ، مقبوضہ فلسطینی علاقوں کے دورہ پر تھا، تو دورہ کے آخری دن مغربی یروشلم میں اسرائیلی وزارت خارجہ کے دفتر میں بریفنگ طے تھی۔ یہ آف ریکارڈ بریفنگ اسرائیلی نائب وزیر خارجہ ڈینی ائالون اور ان کی ٹیم نے دفتر خارجہ کے چوتھے فلور میں ایک کانفرنس روم میں کی۔ چونکہ اب کئی برس گذر چکے ہیں اسلئے اب اس کو بیان کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ دورہ کے دوران مجھے معلوم ہوا کہ اسرائیلی اور فلسطینی دونوں ہندوستان پاکستان اور کشمیر میں رونماہونے والے واقعات پر خاصی نظر رکھتے ہیں۔ اسرائیلی نائب وزیر خارجہ نے اپنی بریفنگ ہی کشمیر سے شروع کی۔ چونکہ ہم صبح سے ہی پیکنگ وغیرہ میں مصروف تھے اسلئے کشمیر میں اس دن رونما ہونے والے واقعات سے لاعلم تھے۔ اس نے بتایا کہ آج کشمیر میں ہندوستانی فوج نے 4افراد کو شوٹ کیا، مگر اقوام متحدہ نہ ہی کوئی اور بین الاقوامی فورم اسکا نوٹس لے گی۔ پھر اس نے سوال کیا کہ آخر ایسا کیوں جبکہ کشمیر اور فلسطین کے ایشو تقریباً ایک ہی وقت میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں پہنچے اور دونوں اسکے ایجنڈہ میں ایک ہی وقت شامل ہوئے، بین الاقوامی برادری کا یہ دوہرا معیار کیوں؟
اسرائیلی وزیر شاید جذبات کی رو میں کچھ اور بھی بتاتا کہ ہندوستانی صحافیوں نے اسکو ٹوکنا شروع کیا ۔ ایک خاتون ساتھی تو اتنی مشتعل ہوئی کہ اسنے ہم سب کو بریفنگ سے واک آوٹ کرنے کا مشورہ دیا۔ خیر میں نے صورت حال کو سنبھالنے کیلئے اسرائیلی وزیر سے کہا، کہ’’ یہ سچ ہے کہ دونوں خطے جبری قبضہ کے شکار ہیں۔ مگر فلسطین دورہ کے دوران ہم نے دیکھا کہ اسرائیل جبری قبضہ کے علاوہ نسلی عصبیت کا بھی مجرم ہے۔‘‘ ایک دن قبل بحیرہ میت سے واپسی پر ہم نے دیکھا تھا، کہ اسرائیل نے فلسطینیوں کیلئے ایک علیحدہ سڑک تعمیر کی تھی ان کو یہودیوں اور سیاحوں کیلئے مخصوص سڑک استعمال کرنے کی اجازت نہیں تھی۔
ہندوستانی افسران کے مطابق فلسطینی اتھارٹی انسداد دہشت گردی میں بھی نئی دہلی کے ساتھ تعاون کر رہی ہے۔ ان کے مطابق چونکہ ایک متنازعہ اور شورش زدہ خطہ ہونے کے باعث کئی تنظیمیں فلسطینی ایشو کو دہشت گردی کو بڑھاوا دینے میں استعمال کرتی ہیں اور کئی مطلوب عناصر وہاں پناہ بھی لے سکتے ہیں اسلئے یہ اشتراک لازم ہوجاتا ہے۔ اسطرح ہندوستان شاید واحد ملک ہوگا جس کا انسداد دہشت گردی کا میکانزم اسرائیل اور فلسطین دونوں کے ساتھ منسلک ہے۔فلسطینی علاقوں میں تعمیر و ترقی کیلئے مودی کے دورہ کے دوران 50ملین ڈالر کے 6معاہدوں پر دستخط ہوئے، جس میں 30ملین ڈالر سے ایک سپر اسپیشلیٹی اسپتال کا قیام بھی شامل ہے۔
اس سے قبل مودی کو فلسطین کا سب سے اعلیٰ اعزاز گرینڈ کالر آف اسٹیٹ آف فلسطین سے نوازا گیا جو ابھی تک صرف تین شخصیات سعودی فرمانروا شاہ سلمان، بحرین کے شاہ حماد اور چینی صدر شی جن پنگ کو دیا گیا ہے۔ فلسطینی صدر محمود عباس نے مودی کو کہا کہ اسرائیل کے ساتھ اپنی قربت کا فائدہ اٹھا کر وہ خطے میں امن اور نتیجہ خیز مذاکرات کی بحالی کیلئے کردار ادا کریں۔مودی نے بھی کہا کہ’’ ہندوستان فلسطینی مفادات کی حفاظت کرنے کا پابند ہے، گو کہ امن مساعی کی بحالی مشکل ضرور ہے مگراسکے لئے کوشش جاری رکھنے کی ضرورت ہے۔‘‘ ناروے کی طرح اگر ہندوستان بھی مغربی ایشیا میں پس پردہ امن بحالی کیلئے رول ادا کرتا ہے تویہ احسن قدم ہے۔ مگر کاش مودی اسی حکمت عملی سے کام لیکر اور اسی نصیحت پر خود بھی عمل کرکے پاکستان کے ساتھ امن مساعی شروع کرواکے قضیہ کشمیر کا بھی دائمی اور حتمی حل ڈھونڈنے کا تہیہ کریں اور اپنے ملک میں بھی اقلیتوں کو تحفظ کا احساس کراوائیں۔ان کی اس پہل سے جنوبی ایشیا بھی چین کی سانس لیکرتعمیر و ترقی میں دنیا کی رہنمائی کرسکے گا۔ورنہ دوسروں کونصیحت ، خود میاں فضیحت والا مقولہ ان پر صادق آتا ہے۔
Categories: فکر و نظر