گورکھ پور میں ملی ہار یوگی آدتیہ ناتھ کے لئے بڑا جھٹکا ہے۔ بی جے پی کارکن ان کو 2024 میں وزیر اعظم کی صورت میں دیکھ رہے تھے، لیکن اپنی سیٹ چھوڑو وہ اپنا بوتھ تک نہیں بچا پائے۔
اتر پردیش میں ضمنی انتخاب کے جو نتیجے آئے ہیں۔ یہ مرکزی حکومت اور خاص طورپر وزیر اعظم نریندر مودی کے لئے ایک بہت بڑا جھٹکا ہے۔ وزیراعلیٰ اور نائب وزیر اعلیٰ کی پارلیامانی سیٹ اس وقت گنوانا جب لوک سبھا انتخاب نزدیک ہے، یہ بھارتیہ جنتا پارٹی کے لئے خطرے کی گھنٹی ہے۔گزشتہ سال ہوئے اسمبلی انتخاب میں بی جے پی کو جو بھاری اکثریت ملی تھی اب اس میں سیندھ لگنی شروع ہو گئی ہے۔پھول پور لوک سبھا سیٹ کی بات کی جائے تو یہ سب کو معلوم تھا کہ بی جے پی یہ سیٹ ہار جائےگی۔ نائب وزیراعلیٰ کیشو پرساد موریہ کا عوام میں کوئی مینڈیٹ نہیں ہے اور نہ ہی پارٹی میں کوئی خاص کردار۔ریاستی صدر بھی ریموٹ سے چلنے والے تھے اور وہ ریموٹ دلی سے چلتا تھا۔ ان کی عوام میں کوئی خاص امیج نہیں تھی اور نہ ہی انہوں نے اپنے علاقہ میں کوئی کام کیا۔
جس بڑے فرق سے بی جے پی پھول پور ہاری ہے۔ یہ ثابت کرتا ہے کہ عوام میں غصہ تھا۔ عوام کو لگنے لگا تھا کہ یہ لوگ صرف زبانی بیان بازیکرتے ہیں اور کام کچھ نہیں کرتے۔
جو مسئلہ اکھلیش کی حکومت اور منموہن حکومت کے وقت میں تھا اس میں کچھ تبدیلی نہیں آئی ہے۔سڑکوں پر گڈھے اسی طرح ہیں اور کرپشن میں کوئی کمی نہیں آئی ہے۔ عوام یہ سب دیکھ رہی تھی اور جب اس کو موقع ملا تو اس نے اقتدار سے باہر کرنے کا راستہ دکھایا اوربھاری فرق سے ہرا دیا۔ گورکھ پور لوک سبھا سیٹ کا جو نتیجہ آیا ہے یہ چونکا دینے والا تھا۔ پارٹی کے لئے۔۔۔ حزب مخالف کے لئے اور خود یوگی کے لئے۔یہ نتیجہ عوام کا جواب تھا کہ اس کو کام کرنے والے نمائندہ چاہیے۔ یوگی کی ساکھ پر سوال کھڑا ہوا ہے۔وہ کام کرنا نہیں جانتے۔ ان کو حکومت کرنا نہیں آتا۔ وہ ریاست کو مٹھ کی طرح چلا رہے ہیں جیسے وہ گورکھ پور میں چلایا کرتے تھے۔ ان کو غلط فہمی ہے کہ لوگ مہنت کی بات ہمیشہ مانیںگے کہ وہ دن کہہ دے تو دن اور رات کہہ دے تو رات۔
یوگی خود کو اسٹار کیمپینر ثابت کرنے میں لگے رہے ہیں کہ وہ پورے ملک میں انتخاب جیتوا سکتے ہیں۔ سب جانتے ہیں کہ ان کو وزیراعلیٰ اس لئے نہیں بنایا گیا کہ انہوں نے کچھ کام کیا تھا۔ ان کے وزیراعلیٰ بننے کے پیچھے صرف ان کا بھگوا لباس تھا۔
گورکھ پور بہت پچھڑا علاقہ ہے اور وہاں ان کا مٹھ چھوڑ کر کچھ بھی نہیں ہے۔ ایم پی رہتے ہوئے انہوں نے کچھ کام نہیں کیا، جس کے لئے عوام ان کے نام پر ووٹ دیتی۔ مقامی سطح پر عوام کا غصہ صاف ہے کہ نہ وہ یوگی سے خوش ہیں اور نہ مودی سے ۔یوگی آدتیہ ناتھ کا سب سے بڑامسئلہ ہے کہ وہ اپنی غلطی قبول نہیں کرتے۔ بی آر ڈی ہسپتال کا جو معاملہ ہوا ،اس میں آکسیجن کی کمی سے بچوں کے مرنے کی بات سے انکار ہی کر دیااور صرف ایک مسلم ڈاکٹر کو نشانہ بنایا۔ان کو جب میں نے گورکھ پور کی سڑکوں پر گڈھے ہونے کی بات کہی تو انہوں نے اس پر بھی منع کر دیا۔ حالانکہ بطور رکن پارلیامان یا وزیراعلیٰ یہ ذمہ داری ہونی چاہیے کہ غلطی قبولکریں اور اس کی تصحیح کریں۔لیکن یوگی کو لگتا ہے کہ سب اچھا چل رہا ہے اور سب صحیح ہے کوئی کمی نہیں ہے۔ ان کو نہیں دکھ رہا لیکن عوام نے دیکھ لیا اور اپنا جواب دے دیا۔
بی جے پی کے ہارنے کی ایک اور اہم وجہ ہے کہ انہوں نے ایس پی ا ور بی ایس پی کو سنجیدگی سے نہیں لیا۔ انہوں نے پورے انتخاب میں صرف ذاتی حملہ کیا۔ اگر کام کیا ہوتا تو ذاتی حملوں کی ضرورت نہیں پڑتی۔
ایس پی ، بی ایس پی اور جو دیگر چھوٹی پارٹیوں کا اتحاد دیکھنے کو ملا ہے یہ حزب مخالف کے لئے ایک مبارک اشارہ ہے۔ مودی کو ہٹانے کے لئےبی ایس پی اورایس پی ایک صحیح اتحاد ثابت ہو سکتا ہے۔بہت سے لوگ کہہ رہے ہیں کہ یہ ذات پرستی کی سیاست ہے۔ اگر بی جے پی نے کام کیا ہوتا تو لوگ کبھی اس اتحاد کی حمایت نہیں کرتے۔ ان ذاتوں کو بھی پتا چل گیا کہ بی جے پی ان کا اچھا نہیں کر سکتی، اس لئے وہ واپس بی ایس پی اور ایس پی کے پاس لوٹ گئے۔دونوں جماعت ساتھ آتے ہیں تو مضبوط اتحاد بنےگا، جس کو گرا پانا مشکل ہوگا۔ اس اتحاد کو بنائے رکھنے کے لئے ان کو ذاتی اختلاف، ذاتی انتشار کے ساتھ تکبر کو چھوڑنا ہوگا۔
مایاوتی چاربار وزیراعلیٰ بن چکی ہیں اور اکھلیش ایک بار، تو اب دونوں کو ایک عہدے کے لئے سمجھوتہ کرنا چاہیے اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اکھلیش ریاست کی سیاست دیکھیں اور مایاوتی مرکز میں چلی جائیں۔
یہ بہت آسان سمجھوتہ ہو سکتا ہے یا پھر اس کا الٹا بھی ہو سکتالیکن اس پر دونوں کو فیصلہ لینا ہے۔کانگریس کو اب بڑے بھائی والے کردار سے باہر آنا چاہیے اور حکمت عملی بنا کر آگے بڑھنا چاہیے۔ ایک سیاسی جماعت ہونے کے ناطے صرف انتخاب لڑنا ہی کانگریس کے لئے مہلک ہے۔اس کو کیا ضرورت تھی اپنا امیدوار کھڑا کرنے کی۔ کیوں نہ وہ ایس پی کو ہی تعاون دے دیتی۔ انتخاب لڑنے کی لالچ نے ان کی ضمانت ضبط کرا دی اور اب علاقائی جماعت ان سے کیوں اتحاد کرے، جبکہ اب وہ خود ان سے مضبوط ہیں۔راہل گاندھی اور ان کے اعلیٰ رہنماؤں میں پختگی نہیں ہے۔ ان کودور اندیشی سے کام لینا چاہیے اور طے کرنا چاہیے کہ آگے کیا کرنا ہے۔ کیشو پرساد موریہ کی ہار زیادہ معنی نہیں رکھتی کیونکہ ذاتی طور پر ان کے پاس عوام کی طاقت نہیں ہے۔ وہ 2012 میں بی جے پی سے جڑے اور اس سے پہلے صرف اشوک سنگھل کے ساتھ ہیں، ایسا لوگ جانتے تھے۔
یوگی کے لئے یہ بڑا جھٹکا ہے۔ بی جے پی کارکن ان کو 2024 میں وزیر اعظم امیدوار کی صورت میں دیکھ رہے تھے لیکن وہ اپنی سیٹ چھوڑو یہاں تک کہ اپنا بوتھ تک نہیں بچا پائے۔
ہارنا تک تو ٹھیک ہے لیکن جیسے نتیجے آ رہے تھے، تو ان کا ڈی ایم بدمعاشی کرنے لگا۔ یہ جب عوام دیکھ رہی ہے کہ میڈیا کو ہٹا دیںگے، تو کسی کو کچھ پتا نہیں چلےگا۔ یہ جھلاہٹ ثابت کرتی ہے کہ ان کے مستقبل کی سیاست خطرے میں ہے اور ان کی ذاتی سیاست پر بھی سوال کھڑا ہو گیا ہے۔
(مضمون نگار سینئر صحافی اور سیاسی تجزیہ کار ہیں۔ یہ مضمون پرشانت کنوجیا سے بات چیت پر مبنی ہے۔)
Categories: فکر و نظر