ادبستان

استاد بسم اللہ خاں موسیقی کی دنیا کے سنت کبیر تھے، جن کے لیے مندر مسجد اور ہندو مسلمان کا فرق مٹ گیا تھا

یوم پیدائش پر خاص:استاد بسم اللہ خاں ایسے بنارسی تھے جو گنگا میں وضو کر کے نماز پڑھتے تھے اور سرسوتی کو یاد کر کے شہنائی کی تان چھیڑتے  تھے ۔اسلام کے ایسے پیروکار تھے جو اپنے مذہب میں موسیقی کے حرام ہونے کے سوال پر ہنس کر کہتے تھے ،کیا ہو اسلا م میں موسیقی کی ممانعت ہے ،قرآن کی شروعات تو’ بسم اللہ‘ سے ہی ہوتی ہے۔

استاد بسم اللہ خاں پر گوگل ڈوڈل

استاد بسم اللہ خاں پر گوگل ڈوڈل

ملک کے پہلے وزیر اعظم جواہرلال نہرو گنگا ندی کو ‘ ہندوستانی  تہذیب و ثقافت کی علامت ‘ مانتے تھے۔  بچپن سے اپنے لگاؤ اور اپنے ہم وطنوں کی پیاری  گنگا اور محنت کشوں کی زمین سے اپنی بے پناہ محبت کے سبب انہوں نے اپنی وصیت میں، اپنے نراج پسندی اور ترقی پسند نظریات کے ساتھ، یہ خواہش ظاہر کی تھی کہ جب ان کی وفات ہو تو ان کی راکھ گنگا میں بہا دی جائے۔ہندوستان کی جیون ریکھا گنگا، اپنے مادر وطن اور اس کے عقیدے سے اسی قسم کا پیار کرنے والی ایک اور عظیم ہستی کو آج یاد کرنے کا دن ہے اور وہ ہیں شہنائی کے سرتاج استاد بسم اللہ خاں۔

ایک واقعہ کا جگہ جگہ ذکر ملتا ہے کہ ایک بار استاد بسم اللہ خاں شکاگو یونیورسٹی میں موسیقی سکھانے کے لئے گئے تھے۔  یونیورسٹی نے پیشکش کی کہ اگر استاد وہیں پر رک جائیں تو وہاں پر ان کے آس پاس بنارس جیسا ماحول بنادیا جائے‌گا، وہ چاہیں تو اپنے قریبی لوگوں کو بھی شکاگو بلا سکتے ہیں، وہاں پر مناسب انتظام کر دیا جائے‌گا۔  لیکن خاں صاحب نے ٹکا سا جواب دیا کہ ‘ یہ تو سب کر لو‌گے میاں! لیکن میری گنگا کہاں سے لاؤ‌گے؟ ‘

استاد بسم اللہ خاں ہندوستانی کلاسیکی موسیقی کی وہ ہستی ہیں، جو بنارس کے عوامی سُر کو کلاسیکی موسیقی کے ساتھ گھول‌کر اپنی شہنائی کی آواز کی لہروں کے ساتھ گنگا کی سیڑھیوں، مندر کے نوبت خانوں سے گونجاتے ہوئے نہ صرف آزاد ہندوستان کے پہلے قومی جشن میں راجدھانی دہلی تک لےکر آئے، بلکہ سرحدوں کو لانگھ‌کر اسےدنیا بھر میں لافانی کر دیا۔  اس طرح مندروں، شادی تقریبات اور جنازوں میں بجنے والی شہنائی بین الاقوامی آرٹ فورمز میں گونجنے لگی۔

سینئر صحافی ریحان فضل لکھتے ہیں، ‘ 1947 میں جب ہندوستان آزاد ہونے کو ہوا تو جواہرلال نہرو کا من ہوا کہ اس موقع پر بسم اللہ خاں شہنائی بجائیں۔  جشنِ یوم آزادی کی تقریب کا انتظام دیکھ رہے جوائنٹ سکریٹری بدرالدین طیب جی کو یہ ذمہ داری دی گئی کہ وہ خاں صاحب کو ڈھونڈیں اور انھیں دہلی آنے کے لئے مدعو کریں… انھیں ہوائی جہاز سے دہلی لایا گیا اور سجان سنگھ پارک میں سرکاری مہمان کے طور پر ٹھہرایا گیا… بسم اللہ اس موقع پر شہنائی بجانے کا موقع ملنے پر پرجوش ضرور تھے، لیکن انہوں نے پنڈت نہرو سے کہا کہ وہ لال قلعہ پر چلتے ہوئے شہنائی نہیں بجا پائیں‌گے۔

نہرو نے ان سے کہا، ‘ آپ لال قلعہ پر ایک معمولی فنکار کی طرح نہیں چلیں‌گے۔  آپ آگے چلیں‌گے۔  آپ کے پیچھے میں اور پورا ملک چلے‌گا۔  ‘ بسم اللہ خاں اور ان کے دوستوں نے راگ کافی بجاکر آزادی کی اس صبح کا استقبال کیا۔  1997 میں جب آزادی کی پچاسویں سال گرہ منائی گئی تو بسم اللہ خاں کو لال قلعہ کی فصیل سے شہنائی بجانے کے لئے پھر مدعو کیا گیا۔  ‘

1947 میں آزادی کی تقریب کے علاوہ انہوں نے پہلے یوم جمہوریہ 26 جنوری، 1950 کو بھی لال قلعہ کی فصیل سے شہنائی بجائی تھی۔  اسی کے ساتھ یہ سلسلہ شروع ہوا کہ استاد کی شہنائی ہرسال یوم آزادی پر ہونے والے ثقافتی پروگرام کا حصہ بن گئی۔  وزیر اعظم کی تقریر کے بعد دوردرشن پر ان کی شہنائی کی نشریات ہوتی تھی۔

بہار کے ڈمراؤ ں میں 21 مارچ، 1916 کو پیدا ہوئے استاد بسم اللہ خاں کا تعلق مسلمانوں میں میلا ڈھونے والی برادری حلال خور سے بتایا جاتا ہے۔وہ بچپن میں اپنے مامو علی بخش کے یہاں بنارس کتابی تعلیم حاصل کرنے آئے تھے، جہاں وہ اپنی آخری دنوں کی ‘ بیگم ‘ یعنی شہنائی سے دل لگا بیٹھے۔کہتے ہیں کہ وہ اپنی شہنائی کو ہی اپنی بیگم کہتے تھے۔  استاد کے بچپن کا نام قمرالدّین تھا۔  ان کے والد پیغبربخش خاں عرف بچئی میاں راجا بھوج پور کے دربار میں شہنائی بجاتے تھے اور ان کے ماموں علی بخش صاحب بنارس کے بالاجی مندر میں شہنائی بجاتے تھے۔بالاجی مندر میں ہی ریاض کرنے والے ماموں کے ہاتھ سے ننھے استاد سے جو شہنائی تھامی تو تاعمر ایسی تان چھیڑتے رہے جس نے خود ان کو اور ان کی بنارسی ٹھسک بھرے موسیقی کو شہرت کی بلندیوں پر پہنچا دیا۔

Photo: oriental-traditional-music.blogspot.in

Photo: oriental-traditional-music.blogspot.in

آج کے ہندوستان میں شاید ہی کوئی ہوگا، جس نے سیکولر ہندوستان کے بانی نہرو کو دیکھا ہوگا، لیکن ہم میں سے بہت لوگ ایسے ہیں جنہوں نے سیکولرزم کی علامت بن چکے استاد بسم اللہ خاں کو دیکھا ہوگا، جنہوں نے 2006 میں بنارس کے سنکٹ موچن مندر پر دہشت گردانہ حملے کی سب سے پہلے نہ صرف مخالفت کی بلکہ گنگا کے کنارے جاکر امن اور سکون کے لئے شہنائی بجائی۔

گاندھی کے قتل کے تقریباً چھ دہائی بعد گنگا کے کنارے پر استاد کی شہنائی نے مندر پر حملے کی مخالفت میں مہاتما گاندھی کا من پسند بھجن گایا-رگھوپتی راگھو راجا رام…

بنارس میں بم دھماکے جیسے ‘ شیطانی کار نامہ ‘ سے مجروح بسم اللہ کے اندر کا فنکار اپنے انداز میں یہی رد عمل دے سکتا تھا۔  انہوں نے گاندھی کا زمانہ دیکھا تھا، آزادی کے پہلے جشن میں پنڈت نہرو کے ساتھ شرکت کی تھی اور اب جب مدّتوں بعد اپنے اس ہندوستان میں مذہبی فسادات کے گواہ بن رہے تھے تو ان کو مہاتما گاندھی یاد آ رہے تھے۔

استاد بسم اللہ خاں ایسے مسلمان تھے جو سرسوتی کی پوجا کرتے تھے۔  وہ ایسے پانچ وقت کے نمازی تھے جو موسیقی کو ایشور کی ریاضت مانتے تھے اور جن کی شہنائی کی گونج کے ساتھ بابا وشوناتھ مندر کے دروازے کھلتے تھے۔وہ ایسے بنارسی تھے جو گنگا، سنکٹ موچن اور بالاجی مندر کے بغیر اپنی زندگی کا تصور نہیں کر سکتے تھے۔  وہ ایسے بین الاقوامی موسیقی کے جویا تھے جو بنارسی کجری، چیتی، ٹھمری اور اپنی لسانی ٹھسک کو نہیں چھوڑ سکتے تھے۔وہ ایسے بنارسی تھے جو گنگا میں وضو کرکے نماز پڑھتے تھے اور سرسوتی کو یاد کرکے شہنائی کی تان چھیڑتے تھے۔  وہ اسلام کے ایسے پیروکار تھے جو اپنے مذہب میں موسیقی کے حرام ہونے کے سوال پر ہنس‌کر کہہ دیتے تھے، ‘ کیا ہوا اسلام میں موسیقی ممنوع ہے، قرآن کی شروعات تو ‘ بسم اللہ ‘ سے ہی ہوتی ہے۔  ‘

بسم اللہ ہندوستان کی ایک ایسی مورتی کی طرح لگتے ہیں، جن کا رگ رگ ہندوستان کے تنوع سے مل‌کر بنا نظر آتا  ہے۔  ان کو دیکھ‌کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ تمام مذاہب، عقیدے، دیوی، دیوتا، خدا، ندی، پہاڑ، عوام، زبان، انداز، خیال، آرٹ، ادب، موسیقی، ریاضت، ساز، نماز اور پوجا سب ملاکر کوئی پہاڑ جیسی شخصیت بنتی ہے، جس کو استاد بسم اللہ خاں کے نام سے پہچانا جاتا ہے۔  یہی پہچان تو ہندوستان کی ہے۔شہنائی کو نوبت خانوں سے باہر نکال‌کر عالمی منچ پر پہنچانے والے خاں صاحب ایسے فنکار تھے جن کو ہندوستان کے چاروں اعلیٰ ترین شہری اعزازات پدم شری، پدم بھوشن، پدم وبھوشن اور بھارت رتن سے نوازا گیا۔اس کے علاوہ ان کوسنگیت ناٹک اکادمی انعام اور ایران کے قومی انعام سمیت کئی قومی اور عالمی انعام ملے تھے۔  ان کو بنارس ہندو یونیورسٹی اور شانتی نکیتن یونیورسٹی سےاعزاز ڈگری بھی حاصل تھیں۔  خاں صاحب ہندوستانی موسیقی کی ایسی شخصیت ہیں، جن پر آدھے درجن سے زیادہ اہم کتابیں لکھی گئی ہیں۔

ان  پر کتاب لکھنے والے مرلی منوہر شریواستو لکھتے ہیں، ‘ بسم اللہ خاں سچے، سیدھے-سادے اور خدا میں عقیدہ اور مندروں میں اعتماد رکھنے والے ایسے انسان تھے، جنہوں نے معمولی سی چٹائی سے بڑے منچوں تک رکارڈ قائم کیا۔  شہنائی کی آوازوں کے ذریعے کربلا کے درد کو لوگوں کے سامنے پیش کرتے تو حضرت امام حسین کی شہادت کا منظر زندہ ہو اٹھتا اور محرّم کی ماتمی دھن سننے والے رو اٹھتے تھے۔  ‘

استاد بسم اللہ خاں (فوٹو :یوٹیوب)

استاد بسم اللہ خاں (فوٹو :یوٹیوب)

دسمبر، 2016 میں ان کی پانچ شہنائیاں چوری ہو گئی تھیں۔  ان میں سے چار شہنائیاں چاندی کی تھیں۔  ان میں سے ایک شہنائی سابق وزیر اعظم نرسمہا راؤ نے استاد کو تحفہ میں دیا تھا۔  اس کے علاوہ ایک شہنائی سابق مرکزی وزیر کپل سبل، ایک راشٹریہ  جنتا دل کے سپریمو لالو پرساد یادو اور دیگر دو ان کے شاگرد شیلیش بھاگوت اور ایک آدھی چاندی سے جڑی شہنائی خاں صاحب کے استاد اور ماموں علی بخش صاحب نے ان کو تحفے میں دیے تھے۔

اس چوری کے بارے میں بعد میں انکشاف کیا گیا کہ انہی کے پوتے نظرعالم عرف شاداب نے چراکر ایک صراف کو بیچ دیا تھا۔  پولیس نے شہنائیوں کی جگہ گلائی ہوئی چاندی بر آمد کی۔جس طرح استاد کے وارثوں  نے ان کی شہنائی تک بیچ کھائی، اسی طرح  بھارت رتن کا اعلان کرنے والی ہندوستانی  حکومت نے بھی ان کو  وفات کے بعدنظرانداز کیا۔ ان کے آبائی گاؤں ڈمراؤ ںسے لےکر بنارس ان کے نام پر کہیں کوئی عجائب گھر وغیرہ نہیں بنوایا جا سکا۔  یہاں تک کہ استاد بسم اللہ خاں کی قبر پر بن رہی درگاہ بھی ابتک شاید ادھوری پڑی ہے۔

صحافی رویش کمار نے 2014 میں استاد بسم اللہ خاں کے نام لکھے ایک خط میں درج کیا، ‘… جس بنارس کی آپ کہانی سناتے رہے، اسی بنارس میں آپ ایک کہانی ہیں۔  لیکن اسی بنارس میں دس سال میں بھی آپ کا مزار پورا نہیں ہو سکا۔  ایک تصویر ہے اور گھیرا تاکہ پتا چلے کہ جس کی شہنائی سے آج بھی ہندوستان کا ایک حصہ جاگتا ہے، وہ یہاں سو رہا ہے۔  مزار کے پاس کھڑے ایک شخص نے بتایا کہ آپ کا مزار اس لئے کچّا ہے، کیونکہ اس جگہ کو لےکر شیعہ اور سنّی میں جھگڑا ہے۔  مقدمہ چل رہا ہے۔  فیصلہ آ جائے تو آج بنا دیں۔  ‘

وہ آگے لکھتے ہیں، ‘ یہ آپ کی نہیں اس ملک کی بد نصیبی ہے کہ آپ کو ایک عدد قبر بھی نصیب نہیں ہوئی۔  اس کے لئے بھی کسی جج کے قلم کا انتظار ہے۔  ہم کس لئے کسی کو بھارت رتن دیتے ہیں۔  کیا شیعہ اور سنّی آپ کی شہنائی میں نہیں ہیں۔  کیا وہ دو گز زمین آپ کے نام پر نہیں چھوڑ سکتے۔  کیا بنارس آپ کے لئے پہل نہیں کر سکتا۔  کس بات کے بنارس کے لوگ بنارس بنارس گاتے پھرتے ہیں! ‘

استاد بسم اللہ خاں ہندوستانی موسیقی کی دنیا کے سنت کبیر تھے، جن کے لئے مندر مسجد اور ہندو مسلمان کا فرق مٹ گیا تھا۔  ان کے لئے ‘ موسیقی کے سر بھی ایک تھے اور ایشور بھی۔ ‘

کہتے ہیں کہ سنت کبیر کی وفات ہوئی تو ہندو اور مسلمانوں میں ان کے جنازہ کے لئے جھگڑا ہو گیا تھا، لیکن جب استاد بسم اللہ خاں کی وفات ہوئی تو ہندو اور مسلمانوں کا ہجوم امڈ پڑا۔  شہنائی کی دھن کے درمیان ایک طرف مسلمان فاتحہ پڑھ رہے تھے تو دوسری طرف ہندو سندرکانڈ کا پاٹھ کر رہے تھے۔جیسے ان کی شہنائی مندروں سے لےکر درگاہوں تک گونجتی تھی، ویسے ہی استاد بسم اللہ مندروں سے لےکر لال قلعہ تک گونجتے ہوئے 21 اگست، 2006 کو اس دنیا سے رخصت ہو گئے۔

یہ مضمون 21مارچ 2018کو شائع کیا گیا تھا۔