اگر حکومت سفارشات پر کُنڈلی مارکر بیٹھی رہے اور کچھ نہ کرتے ہوئے اپنی ذمہ داری نبھانے میں ناکام ہوتی ہے، تو یہ قانوناً اقتدار کا غلط استعمال ہے۔
نئی دہلی: سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس کرین جوزف نے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس دیپک مشرا کو خط لکھتے ہوئے کہا ہے کہ سپریم کورٹ کا وجود خطرے میں ہے اور اگر ملک کی سپریم کورٹ ایک سینئر وکیل اور ایک جج کی ترقی سےمتعلق کالیجئم کی سفارش پر حکومت کے رویے پر رد عمل نہیں دیتا ہے تو تاریخ ہمیں معاف نہیں کرےگی۔انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق، جسٹس جوزف فروری مہینے میں کالیجئم کے ذریعے لئے گئے اس فیصلے کا حوالہ دے رہے تھے جس میں سینئر وکیل اندو ملہوترا اور اتراکھنڈ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کو سپریم کورٹ کا جج بنائے جانے کی سفارش کی گئی تھی۔
جسٹس جوزف نے اپنے خط میں سخت الفاظ میں لکھا کہ یہ اس کورٹ کی تاریخ میں پہلی بار ہوا ہے جب کالیجئم کی سفارش کے تین مہینے بعد بھی یہ پتا نہیں ہے کہ اس سفارش کا کیا ہوا۔انہوں نے سی جے آئی دیپک مشرا سے گزارش کی کہ وہ حکومت کے ذریعے ان دو ناموں کو ہری جھنڈی نہیں دینے سے متعلق سپریم کورٹ کے سات سینئر ججوں کی بنچ کی تشکیل کر کے معاملے کی خود جانکاری لیں۔غور طلب ہے کہ اگر اس مانگ کو منظور کر لیا جاتا ہے تو اس کا مطلب ہوگا کہ ایک کھلی عدالت میں سپریم کورٹ کے سینئر سات جج سماعت کریںگے اور حکومت کو حکم دے سکتے ہیں کہ وہ کالیجئم کی زیر سماعت سفارشوں پر فیصلہ کرے۔
وہ حکومت سے یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ وہ ایک معیّنہ مدت میں ججو ں کی تقرری کے تعلق سے وارنٹ جاری کرے اور اگر وہ ایسا کرنے میں ناکام ہوتی ہے تو وہ عدالت کی توہین کرنے کی ذمہ دار ہوگی۔جسٹس کرین نے سی جے آئی سے اس معاملے میں فوراً مداخلت کی مانگ کرتے ہوئے کہا ہے، ‘ حمل کی مدت پوری ہونے پر بھی نارمل پیدائشنہیں ہوتی تو ایک سیزیرین محکمہ بھی ہوتا ہے۔ جب اس کے ذریعے صحیح وقت پر سرجیکل مداخلت نہیں کی جاتی تو حمل میں موجود بچّہ مر جاتا ہے۔ ‘
سپریم کورٹ کو عہدہ میں ترقی کے لئے ناموں کی سفارش کرنے والے کالیجئم کے ممبر جسٹس جوزف جو اس سال نومبر میں سبکدوش ہوںگے، انہوں نے خبردارکیا کہ اس ادارے کا وقار اور عزت دن بہ دن نیچے کی طرف جا رہا ہے کیونکہ ہم اس عدالت میں تقرری کے لئے سفارشوں کو عام طور پر مناسب وقت میں ان کے صحیح انجام تک نہیں پہنچا پا رہے ہیں۔سپریم کورٹ کے 22 دوسرے ججوں کو بھی بھیجے گئے اپنے خط میں جسٹس جوزف نے لکھا ہے، ‘ حکومت کا فرض ہے کہ وہ کالیجئم کے ذریعے جیسے ہی سفارشیں بھیجی جائیں، ان پر رد عمل دے۔ اگر وہ سفارشوں پر کُنڈلی مارکر بیٹھی رہے اور کچھ نہ کرتے ہوئے اپنی ذمہ داری نبھانے میں ناکام ہوتی ہے، تو یہ قانوناً اقتدار کا غلط استعمال ہے۔ ‘
انہوں نے آگے لکھا، ‘ اس سے بھی آگے یہ ایک غلط پیغام دیتا ہے جو تمام ججوں کے لئے بالکل واضح ہے کہ حکومت سے کوئی بھی عدم اتفاق نہ دکھائیں، ورنہ انجام بھگتنے ہوںگے۔ کیا یہ عدلیہ کی آزادی کے لئے خطرہ نہیں ہے؟ ‘غور طلب ہے کہ سوموار کو ہی جسٹس جوزف نے میڈیا اور عدلیہ کو جمہوریت کے دو پہرےدار بتاتے ہوئے کہا تھا کہ دونوں پہرےدار کو محتاط رہنا ہوگا۔ جمہوریت کو بچانے کے لئے بھونکنا ہوگا۔ مالک کی جائیداد کے خطرے میں ہونے پر بھونکنا ہوگا۔ بھونکنے سے جمہوریت نہ بچے تو کاٹنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوگا۔
ساتھ ہی انہوں نے کہا تھا کہ وہ سبکدوشی کے بعد حکومت کے ذریعے دیا گیا کوئی بھی عہدہ قبول نہیں کریںگے۔جسٹس جوزف سپریم کورٹ کے سینئر چار ججوں میں سے ایک ہیں۔ انہوں نے جنوری میں ایک پریس کانفرنس کرتے ہوئے ہندوستان کے چیف جسٹس دیپک مشرا کو نومبر 2017 میں سپریم کورٹ میں زیر سماعت معاملوں کے غیرمتوازن بٹوارے کو لےکر لکھا ایک خط بھی عام کیا تھا۔
Categories: خبریں