اگر آپ صرف وزیر اعظم نریندر مودی کی ٹوئٹر ٹائم لائن دیکھیںگے، تو آپ کو پتہ نہیں چلے گا کہ ملک میں کیا چل رہا ہے۔
وزیر اعظم نریندر مودی کے ٹوئٹر پر 4.2 کروڑ، فیس بک پر 4.3 کروڑ اور انسٹاگرام پر 1.3 کروڑ فالوورس ہیں۔ ان اعداد و شمار کو دیکھتے ہوئے یہ کہنا مبالغہ نہیں ہوگا کہ نریندر مودی سوشل میڈیا پر ہندوستان کے سب سے مقبول عام رہنما ہیں۔ 2014 کی لوک سبھا انتخاب کے ٹھیک بعد انگلینڈ کے فنانشیل ٹائمس اخبار نے ان کو ‘ ہندوستان کا پہلا سوشل میڈیا وزیر اعظم ‘ قرار دیا تھا۔ گزشتہ 4 سالوں سے مودی اور ان کے بھکت اس خطاب کا مظاہرہ بےشمار بار کسی تمغہ کی طرح کرتے رہے ہیں، خاص کر ان کا مقابلہ ان کے پیش رو منموہن سنگھ سے کرتے وقت، جن کا کمزور مکالمہ کامیاب چٹکلوں کا موضوع بن گیا تھا۔
لیکن، مودی کا ‘ مون موہن ‘ والا طنز، لوٹکر ان کو ہی ستانے لگا ہے۔ 2014 کے لوک سبھا انتخابات کے لئے تشہیر کرتے ہوئے، اس وقت گجرات کے وزیراعلیٰ مودی اکثر حکومت میں بد عنوانی کے الزامات پر منموہن سنگھ کی خاموشی کو لےکر ان کا مذاق اڑاتے رہتے تھے۔
. @narendramodi – Yesterday in HP visit Dr. 'Maunmohan' Singh came & news today that he broke silence in Himachal! http://t.co/iIp502PV
— narendramodi_in (@narendramodi_in) October 29, 2012
. @narendramodi – I was happy Dr. 'Maunmohan' Singh said there is development but added money was from Delhi. This is an insult.
— narendramodi_in (@narendramodi_in) October 29, 2012
لیکن یہ گزرے ہوئے زمانے کی بات ہے۔ 4 سال بعد حقیقت کافی الگ ہے۔ ہمارے باتونی وزیر اعظم نے چپی اوڑھ لی ہے۔ اپنے پیش رو کے برعکس مودی نے آج تک ایک بھی پریس کانفرنس کو خطاب نہیں کیا ہے اور وہ صرف پہلے سے طے کیا گیا، بے جان انٹرویو دینا ہی پسند کرتے ہیں۔
منموہن سنگھ کی ہی طرح وزیر اعظم مودی، ان کی حکومت کی امیج کو خراب کرنے والے مسائل پر خاموش رہے ہیں اور یہ بات لوگوں کی نگاہوں سے چھپی نہیں ہے۔ ایک طرف تو مودی اپنے غیر ملکی ہم منصب کو ان کے جنم دن پر مبارکباد دینے اور ان کے یہاں ہوئے چھوٹے سے چھوٹے حملوں کو لےکر بھی اپنی ہمدردی ظاہر کرنے میں آگے رہے ہیں، لیکن اخلاق کی پیٹ پیٹ کر بے رحمی سے قتل، نوٹ بندی کے بعد اے ٹی ایم کی قطاروں میں جان گنوانے والے لوگ، گئوغنڈہ گردی، اونا معاملہ ، کٹھوعہ اور اناؤریپ اور دوسرے کئی واقعات وزیر اعظم کی توجہ پانے میں ناکام رہے ۔
امید کے مطابق ہی وزیر اعظم نے 22 مئی کو توتی کورن میں اسٹرلائٹ پلانٹ کی مخالفت کر رہے مظاہرین پر پولیس فائرنگ میں 12 لوگوں کی موت پر بھی اپنی چپی نہیں توڑی ہے۔ تمل ناڈو کے اس ساحلی شہر میں لوگ 100 سے زیادہ دنوں سے مخالفت کر رہے تھے۔ ان کا دعویٰ تھا کہ یہ یونٹ ماحول کو آلودہ کر رہی ہے اور اس سے بیماریاں پیدا ہو رہی ہیں۔ توتی کورن میں ہوئے مظاہرے اور وہاں ہوئےحادثے بھی جب وزیر اعظم کو ان کے ٹوئٹر پر لانے میں ناکام رہے، تو ہم نے ان کے ٹوئٹر ٹائم لائن کی جانچ کرنے کا فیصلہ کیا کہ آخر گزشتہ 100 دنوں سے مودی کر کیا رہے ہیں؟
جنم دن کی روٹین مبارکباد اور پارٹی کے سیاسی پروپیگنڈہ کے علاوہ ان ٹوئٹ سے کچھ باتیں واضح طور پر سامنے نکلکر آتی ہیں۔
1۔ انہوں نے کافی سفر کیا۔
2۔ جبکہ پورے مہاراشٹر میں طلبا مظاہرےکر رہے تھے، اس وقت مودی تقریباً 1300 کلومیٹر دور ایک مندر کا افتتاح کرنے میں مصروف تھے۔ شاید مودی نے سالوں سے مہاراشٹر کے پبلک سروس کمیشن کے امتحان دینے کا انتظار کر رہے طلبا کے لئے وہاں دعا کی ہو۔
3۔ جبکہ وزیر اعظم سرمایہ کار کانفرنس، تکنیک اور آرٹی فشیل انٹلی جنس کے ساتھ آگے بڑھنے کی بات کر رہے تھے، جموں و کشمیر میں ایک بی جے پی رہنما کٹھوعہ میں 8 سال کی بچی کے گینگ ریپ اور قتل کے ملزم کے حق میں منعقد ایک ریلی میں ترنگا لہرا رہا تھا۔
4۔ جب وزیر اعظم مودی کرناٹک میں کانگریس کی حکومت پر ریاست کے کسانوں کے مسائل کی اندیکھی کرنے کا الزام لگا رہے تھے، اس وقت مودی کی آبائی ریاست میں اپنی زمینوں کے چھین لیے جانے کی مخالفت کر رہے کسانوں کو ان کے ساتھ اپنے ‘ من کی بات ‘ کو شیئر کرنے کا موقع نہیں ملا۔
5۔ ایک طرف مودی دعویٰ کرتے ہیں کہ شفافیت اور جوابدہی کسی بھی جمہوریت کے لئے بےحد اہم ہیں، لیکن اتر پردیش میں یوگی آدتیہ ناتھ کی قیادت میں مشتبہ انکاؤنٹر کا کھیل جاری ہے۔
یوپی میں چل رہا انکاؤنٹر راج صرف انسانی حقوق کی ہی خلاف ورزی نہیں ،انصاف کے تمام پیٹرن کی خلاف ورزی ہے اور قانون پر عمل نہیں کرتا۔
6۔ وہ عالمی یوم خواتین کے دن ‘ ناری شکتی ‘ کی تعریف کرتے ہیں، لیکن ہر کسی کے لئے یہ ایک تعجب کی بات ہے کہ لوک سبھا میں اکثریت ہونے کے باوجود مودی حکومت نے ابھی تک وومین ریزرویشن بل کو منظور کیوں نہیں کرایا ہے۔
اس بیچ، راجستھان میں 8 مارچ کو یوم خواتین کے انعقاد میں حصہ لے رہی عورتوں نے پایا کہ ان کے لئے کیا گیا انتظام وزیر اعظم کے الفاظ سے میل نہیں کھاتا۔ شروتی جین کی رپورٹ کے مطابق، جہاں پروگرام منعقد کیاگیا تھا وہاں پر عورتوں کے لئے بنائے گئے ٹائلٹ میں نہ ہی دروازے تھے، نہ ہی فلش اور پانی تھا۔ یعنی وہ کسی کام کے نہیں تھے۔
7۔ بھلے انہوں نے پبلک سورینٹس سے یہ تاکید کی ہے کہ وہ سوشل میڈیا کا استعمال اپنی تعریف کے لئے کرنے کی جگہ صرف عوامی فائدے کے لئے کریں، لیکن مودی اکثر اپنے فالوورس کے تعریفی ٹوئٹ کا جواب دےکر ان کے ساتھ بات چیت کرتے نظر آتے ہیں۔
8۔ انہوں نے بڑی چالاکی سے اپنے نجی ایپ کی تشہیر کی، جس کو 5000000 لوگوں کے ذریعے صرف انڈرائڈ پر انسٹال کیا جا چکا ہے۔ (نوٹ : اگر آپ نے نمو ایپ کے لئے اپنی رضامندی دی ہے، تو آپ کا نجی ڈیٹا آپ کی اجازت کے بغیر کسی دوسرے کے ساتھ شیئر کیا جا رہا ہے۔ )
9۔ انہوں نے انڈین سائنس کانگریس سے اپنی تقریر شیئر کی، لیکن وہ کچھ چیزوں پر تبصرہ کرنا بھول گئے۔ مثلاً، آخر اس کا انعقادی مقام ایک دلت طالب علم کی موت کے بعد اچانک عثمانیہ یونیورسٹی سے بدلکر منی پور یونیورسٹی کیوں کر دیا گیا اور آخر اس انعقاد کے لئے دلائی لاما کو دی گئی دعوت رد کیوں کر دی گئی؟
10۔ حال میں ہوئے ضمنی انتخاب کے شروعاتی رجحان میں جب گورکھپور سے بی جے پی کوپیچھے ہوتا ہوا دکھایا گیا، تب وہاں کے کلکٹر کے ذریعے میڈیا اہلکاروں کو کاؤنٹنگ سینٹر سے رپورٹنگ کرنے سے روکنے کی کوشش کی خبر آئی۔ اس کے 2 دن بعد وزیر اعظم نے دہلی میں ایک شام اس پر بات کرتے ہوئے گزاری کہ ہندوستان کیسے آگے بڑھ رہا ہے؟
11۔ 30 مارچ کو، وزیر اعظم نے اپنے جوان دوستوں سے ‘ 125 کروڑ ہندوستانیوں کی زندگی میں تبدیلی لانے والے اختراعات پر کام کرنے کے لئے کہا ‘۔ ایک دن بعد ایک بی جے پی کی حکومت والی ریاست نے 5 مذہبی رہنماؤں کو ‘ وزیر مملکت ‘ کا درجہ دے دیا۔
خاص نوٹ : یہ 5 لوگ نرمدا کے تحفظ کے لئے تشکیل دی گئی کمیٹی میں اس لئے مقرر کئے گئے تھے، کیونکہ وہ اس موضوع کے ماہر ہیں۔
12۔ وہ یوگ کے بارے میں ٹوئٹ کرتے ہیں۔ اصل میں ڈھیر سارے ٹوئٹ…
Begin your week by practising Vrikshasana. Apart from other benefits, this Asana improves concentration and reduces back pain. #4thYogaDay #FitIndia pic.twitter.com/AAkveX7dJ6
— Narendra Modi (@narendramodi) April 2, 2018
13۔ وزیر اعظم نے بابو جگ جیون رام کو یاد کیا، لیکن ہم جگ جیون رام کی آبائی ریاست بہار میں فرقہ وارانہ تشدد کے واقعات پر ان کا ایک بیان بھی نہیں کھوج پائے۔
بہار کے 38 ضلع میں سے کم سے کم 9 فرقہ وارانہ فسادات سے متاثر ہوئے ہیں۔
14۔ پردھان سیوک نے پارٹی کے ‘ استھاپنا دیوس ‘ پر بی جے پی کے کارکنان کی تعریف کی۔ انہوں نے ٹوئٹ کیا، ‘ بی جے پی نئے ہندوستان کی پارٹی ہے۔ہم خوش قسمت ہیں کہ ہمیں تمام عمرکے لوگوں ، سماج کے سبھی طبقوں کے لوگوں کی دعائیں حاصل ہیں۔ ہم ایک ایسی پارٹی ہیں، جو ہندوستان کے تنوع، ہماری بے مثال تہذیب اور سب سے بڑھکر 125 کروڑ ہندوستانیوں کی طاقت میں یقین کرتی ہے۔ ‘
لیکن وہ ان کو باقاعدہ طریقے سے فرقہ پرستی کو بڑھاوا دینے والا تبصرہ کرنے اور مسجدوں پر تلوار بھانجنے اور بھگوا جھنڈا پھہرانے کے لئے پھٹکار نہیں لگا سکے (جیسا کہ انہوں نے دہلی میں ایک بائک ریلی کے دوران کیا)۔
15۔ انہوں نے اپنے ‘ انتخابی جنگجوؤں ‘ کو امن بنائے رکھنے کے طریقے کے بارے میں بتایا۔
This is what I told Mamta, a BJP Karyakarta belonging to Delhi, who wanted to know how I managed to keep calm in the midst of a busy schedule. Mamta also wanted me to share a message for all booth-level workers, whom she described as ‘Election Warriors.’ pic.twitter.com/MQ15LngQtj
— Narendra Modi (@narendramodi) April 7, 2018
16۔ کیا حال میں ہوئے فرقہ وارانہ واقعات پر آپ کو غصہ آتا ہے؟ گھبرایئے مت! وزیر اعظم کے پاس اس کا بھی حل ہے صحت مند جسم اور ذہنی سکون کے لئے یوگ کیجئے۔
Making Padahastasana a regular part of your lives will make your body healthier and your mind calmer. What more can one ask for! pic.twitter.com/eOe5SxybHV
— Narendra Modi (@narendramodi) April 10, 2018
17۔ انہوں نے چنئی میں ہوئے ڈفینس ایکسپو کے کئی ویڈیو اور فوٹو شیئر کئے لیکن انہوں نے اس بارے میں ایک لفظ بھی نہیں کہا کہ شہر میں ان کا استقبال کس طرح سے کیا گیا!
18۔ اسی طرح سے 100 فیصد گاؤں میں بجلی پہنچانے کا اعلان اہم ہے، لیکن مودی اصلی کہانی بتانا بھول گئے۔
انوج شریواستو اور نور محمد کی رپورٹ بتاتی ہے کہ بھلے 100فیصدی گاؤں میں بجلی پہنچانے کا کام حاصل کر لیا گیا ہو، لیکن آج بھی ملک کے 3.1 کروڑ گھر بنا بجلی کے ہیں۔
19۔ وزیر اعظم نے مئی کا زیادہ تر حصہ کرناٹک میں تشہیر کرتے ہوئے اور کانگریس حکومت کے سوالیہ لین دین کو بتاتے ہوئے گزارا، لیکن، ہم لوگ پیرامل گروپ کے ساتھ پیوش گوئل کی مشکوک لین دین پر ان سے ایک لفظ بھی سننے کا انتظار ہی کر رہے ہیں، جس کا انکشاف روہنی سنگھ نے دی وائر پر کیا تھا۔
20۔ مودی نے حزب مخالف جماعتوں کے ذریعے پھیلائی جا رہی سیاسی تشدد کی تہذیب پر اپنا غصہ ظاہر کیا، لیکن انہوں نے ایک چھوٹی سی تفصیل چھپا لی۔ بی جے پی نے کرناٹک کے انتخاب میں مجرمانہ ریکارڈ والے سب سے زیادہ امیدوار کھڑے کئے۔
اس بیچ ہندوستان کی عوام وزیر اعظم سے پیٹرول ڈیزل کی بڑھتی ہوئی قیمت، کرناٹک کے گورنر کے ذریعے جمہوریت کا گلا گھونٹنے کی کوشش، توتی کورن میں پولیس فائرنگ میں مظاہرہ کر رہے لوگوں کی موت، ماحولیاتی قوانین کی دھجیاں اڑانے میں ویدانتا کی اسٹرلائٹ پلانٹ کو ان کی حکومت کے ذریعے کی گئی مدد، دہلی یونیورسٹی کے ذریعے ان کی ڈگری کو عام نہ کرنے کی عجیب ضد وغیرہ اور کئی دوسرے سوالوں پر بھی سننے کے لئے ترس رہی ہے۔
Categories: فکر و نظر