خبریں

کیا راجستھان میں بابا رام دیو کا پروجیکٹ کسانوں کی زمین پرقبضہ کرنے کی ترکیب ہے؟

خصوصی رپورٹ :سالوں سے اپنی زمین کے لئے پرانے ریکارڈ کی بھول بھلیاں، لچیلے سرکاری نظام اور سیاسی رسوخ کے چکرویو سے لڑ رہے کسانوں کے سامنے اب بابا رام دیو نامی بڑا چیلنج کھڑا ہو گیا ہے۔

Baba-Ramdev-Vasundhara-Raje-Mandir-Trust-The-Wire

راجستھان کے کرولی ضلع میں مجوزہ سوامی رام دیو کے ڈریم پروجیکٹ کے بارے میں 20 جون کو ‘دی وائر ‘کے انکشاف کے بعد وسندھرا حکومت، بابا رام دیو اور مندر ٹرسٹ پھونک-پھونک‌کر قدم آگے بڑھا رہے ہیں۔حکومت کے اشارے پر شری گووند دیو جی مندر ٹرسٹ اور پتنجلی یوگ ٹرسٹ نئے سرے سے قرار کرنے کو تیار تو ہیں، لیکن ان کے قدم آگے  بڑھنے سے پہلے ہی ٹھٹک گئے ہیں۔

‘ دی وائر ‘ کو اس معاملے میں جو نئے حقائق معلوم ہوئے ہیں وہ چونکانے والےہیں۔ ان کے مطابق اس زمین پر شری گووند دیو جی مندر ٹرسٹ کا دعویٰ ہی سوالوں کے گھیرے میں ہے۔ قانون کے مطابق زمین پر ان کسانوں کا حق ہے، جو سالوں سے یہاں کھیتی کر رہے ہیں۔پرانے ریکارڈ کی بھول بھلیاں، لچیلے سرکاری نظام اور سیاسی رسوخ نے کسانوں کو ایسے چکرویو میں پھنسا لیا ہے کہ ان کو اس بیش قیمتی زمین کو بھولنے کے علاوہ دوسرا راستہ نظر نہیں آ رہا۔

کسانوں کو ان کی زمین سے بےدخل کرنے کے اس کھیل میں بابا رام دیو کا پروجیکٹ آخری پڑاؤ ثابت ہوتا ہوا دکھائی دے رہا ہے۔ زیادہ تر کسان تو پہلے ہی ہتھیار ڈال چکے تھے، جو بچے ہیں وہ لڑ تو رہے ہیں پر ان کی ہمت بھی اب جواب دینے لگی ہے۔

یہ بھی پڑھیں : راجستھان میں بابا رام دیو کو دیا 401بیگھہ کا پروجیکٹ کیسے اصولوں کا قبرستان بن گیا ہے

جس زمین پر بابا رام دیو اپنا ‘ڈریم پروجیکٹ’بنانا چاہتے ہیں وہ کسانوں کی کیسے ہے اور اس پر شری گووند دیو جی مندر ٹرسٹ کا کوئی حق کیوں نہیں ہے، یہ جاننے کے لئے ریاستی عہد کے راجستھان کے نظام کو سمجھنا ضروری ہے۔ اس وقت کے راجا مندروں کی خدمت و عبادت کے لئے ان کو زمین دیا کرتے تھے۔  یہ زمین جاگیر کے روپ میں ہوتی تھی، جس پر لگان نہیں وصول کیا جاتا تھا۔

ریاستی عہدکے راجستھان کے گواہ  رہے  سنسکرت کےعالم دیورشی کالا ناتھ شاستری بتاتے ہیں،’راجستھان میں مندروں کو بطور جاگیر زمین دینے کی روایت رہی ہے۔ تقریباً تمام مندروں کو زمین دی گئی۔  جئے پور کے گووند دیو جی مندر کو تو 36 گاؤں جاگیر میں دئے گئے۔ کرولی کے گووند دیو جی مندر کو بھی 700 بیگھہ سے زیادہ زمین جاگیر کے طور پر ملی۔  اس سے ہونے والی آمدنی سے ہی مندروں میں خدمت اور پوجا کی جاتی تھی۔  ‘

یہ سلسلہ 1952 میں’راجستھان لینڈ ریفارم اینڈ رجنپشن آف جاگیر ایکٹ’کے نافذ ہونے تک چلا۔  اس ایکٹ کے تحت جاگیرداروں کے پاس وہی زمین بچی جس پر وہ خود زراعت کرتے تھے۔  باقی زمین پر سرکار کا حق ہو گیا۔  اس کے عوض میں حکومت نے جاگیرداروں کو معاوضہ دیا۔  مندروں کو ملی زمین بھی اس ایکٹ کے دائرے میں تھی۔اس ایکٹ کے اہتماموں کو اور واضح کرتے ہوئے راجستھان ہائی کورٹ میں ریونیو معاملوں کے وکیل ہمانشو سوگانی کہتے ہیں،’ راجستھان لینڈ ریفارم اینڈ رجنپشن آف جاگیر ایکٹ کی دفعہ-9 میں صاف لکھا ہے کہ جاگیر زمینوں میں کھاتےداری حق اس کاشت کار کو ملیں‌گے جو زمین پر کھاتےدار، پٹّادار یا خادم دار کے طور پر قابض ہیں۔  ‘

فوٹو: فیس بک

فوٹو: فیس بک

اس سوال پر کہ مندر کو ملی زمین پر کھاتےداری کا حق کس کا ہوگا، سوگانی کہتے ہیں،’ایکٹ کے نافذ ہونے سے پہلے سرکاری ریکارڈ میں یہ لکھا جاتا تھا کہ زمین پر خودکاشت کون ہے۔ اگر اس کالم میں مندر کی مورتی کا نام لکھا ہے تو یہ زمین مندر کی ہوگی اور اگر کسی دیگر کا نام لکھا ہے تو اس کو ملے‌گی۔ کسی کا نام نہیں لکھا ہو تو اس پر حکومت کا مالکانہ حق ہو گا۔ ‘جانکاری کے مطابق، کرولی کی شری گووند دیو جی مندر کے پاس جاگیر کے طور پر 725 بیگھہ سے زیادہ زمین تھی۔  اس میں سے زیادہ تر کو مندر انتظامیہ نے کسانوں کو زراعت کرنے کے لئے دے رکھا تھا۔  یہ کسان کئی نسلوں سے یہاں زراعت کر رہے تھے۔  1954 میں’راجستھان لینڈ ریفارم اینڈ رجنپشن آف جاگیر ایکٹ’نافذ ہونے کے بعد یہ زمین فطری طورپر ان کسانوں کے کھاتے میں آ جانی چاہیے تھی۔

شری گووند دیو جی مندر ٹرسٹ کا ریکارڈ بھی اس کی تصدیق کرتا ہے کہ جاگیر ایکٹ نافذ ہونے کے بعد 725 بیگھہ میں سے ایک انچ زمین بھی مندر کے پاس نہیں بچی۔  دراصل، ریاست میں کسی بھی ٹرسٹ کا دیومندر محکمے میں رجسٹریشن’راجستھان عوامی مصالحت قانون، 1959’کے تحت ہوتا ہے۔  ا س کے اہتماموں کے مطابق، کسی بھی ٹرسٹ کو رجسٹریشن کے وقت اپنی منقولہ و غیر منقولہ جائیدادوں کی تفصیل دینا ضروری ہے۔شری گووند دیو جی مندر ٹرسٹ کا رجسٹریشن 29 جون، 1964 کو ہوا۔  ٹرسٹ نے ‘راجستھان عوامی مصالحت قانون، 1959 ‘ کے مطابق غیر منقولہ جائیداد کی جو فہرست پیش کی اس میں مندر کے نام کسی بھی قسم کی زراعت زمین ہونے کا ذکر نہیں تھا۔ یعنی اس وقت 725 بیگھہ زمین پر مندر کا کوئی حق نہیں تھا۔

راجستھان ہائی کورٹ میں ریونیومعاملوں کے وکیل انل مہتہ کہتے ہیں،’راجستھان میں جاگیر دوبارہ حصول کا  عمل جون، 1954 میں شروع ہوا اور اس کی آخری نوٹیفکیشن 21 جون 1963 کو جاری ہوئی۔ کرولی کے گووند دیو جی مندر کی زمین بھی اسی مدت میں رزیوم ہوئی۔  اسی وجہ سے ٹرسٹ نے اپنی غیر منقولہ جائیدادوں کی فہرست میں زمین کا ذکر نہیں کیا۔  مندر کی پوری زمین یا تو کسانوں کے نام ہوئی ہوگی یا حکومت کے نام۔  ‘

ایسے میں یہ سوال اٹھنا لازمی ہے کہ جب 29 جون، 1964 کو شری گووند دیو جی مندر کے پاس ایک انچ زراعت کی زمین نہیں تھی تو بعد میں یہ اس کے نام کیسے ہو گئی۔  کرولی ضلع عدالت میں وکیل بھرت سنگھ اس کی وجہ بتاتے ہیں۔وہ کہتے ہیں،’یہ سب پرانے ریونیو ریکارڈ گڑبڑجھالا ہے۔  وکرم سموت 2012 کے ریکارڈ میں اس زمین کے کئی کھسروں میں خودکاشت کے طور پر مندر کا نام لکھا ہے۔  اسی کی بنیاد پر ٹرسٹ اس زمین کو اپنا بتاتا ہے۔  ‘مقامی عدالت کے وکیل پیوش شرما بھی اس کی تصدیق کرتے ہیں۔  وہ کہتے ہیں،’جب سے ٹرسٹ کے لوگوں کو یہ پتا چلا ہے کہ وکرم سموت 2012 کے ریکارڈ میں اس زمین کے کئی کھسروں میں مندر کی مورتی کا نام لکھا ہے، وہ کورٹ میں دعویٰ کرنے لگے۔  ان میں سے کئی دعووں میں انہوں نے اس بنیاد پر کامیابی بھی حاصل کر لی۔ لیکن جو کسان پورے ریکارڈ کے ساتھ اوپر تک لڑے ان کو زمین واپس ملی۔  ‘

‘ دی وائر ‘کے پاس عدلیہ ریونیو ڈویزن، اجمیر کے 14 ستمبر، 2016 کے دئے ایک ایسے ہی حکم کی کاپی ہے۔  اس  میں بھی ٹرسٹ کے وکیل نے یہ دلیل رکھی کہ متعلقہ زمین وکرم سموت 2012 کی جمع بندی میں مندر کے نام بطور کسان / کھاتےدار درج ہے۔  دعویٰ کرنے والے کسان کو اس کو محض زراعت کرنے کے لئے دیا تھا۔عدالت نے ٹرسٹ کے وکیل کی دلیلوں کو نہیں مانتے ہوئے فیصلہ سنایا کہ متعلقہ زمین وکرم سموت 2010، 2013 اور 2015 کے ریونیو ریکارڈ میں کسان کے نام خوکاشت کے طور پر درج ہے اس لئے اس کو مندر کی زمین نہیں مانی جا سکتی۔

عدالت نے اپنے فیصلے میں یہ بھی لکھا کہ ریونیو اپیل افسر نے حقائق کا جاگیر ایکٹ کے تناظر میں وضاحت اور تجزیہ نہیں کیا۔اس معاملہ میں بھی انصاف اس لئے مل پایا، کیونکہ کسان بادامی دیوی نے اپنی زمین پرکاش چند مہاجن کو بیچ دی۔ جب شری گووند دیو جی مندر ٹرسٹ نے ریونیو اپیل اتھارٹی کے یہاں معاملہ دائر کیا تو پرکاش چند نے ہی قانونی لڑائی لڑی اور یہاں سے خلاف فیصلہ آنے پر انہوں نے ہی ریونیو عدالت میں اپیل کی۔شری گووند دیو جی مندر ٹرسٹ پر سوالیہ نشان پہلی بار نہیں لگ رہے ہیں۔  خود دیومندر محکمہ اپنی تفتیش میں اس کی گڑبڑیوں کو اجاگر کر چکا ہے۔  محکمے کے معاون کمشنر کرشن کمار کھنڈیل وال نے 30 جولائی، 2010 کو ٹرسٹ کا جائزہ لیا تو ان کو یہاں خوبیاں کم اور خامیاں زیادہ ملیں۔

کھنڈیل وال کی طرف سے پیش جانچ رپورٹ کی کاپی’دی وائر ‘کے پاس ہے۔ اس میں انہوں نے سالانہ بجٹ نہیں بنانے کے ساتھ آڈٹ نہیں ہونے پر سوال کھڑے کئے ہیں۔  رپورٹ میں لکھا ہے، ‘اس ٹرسٹ کے پاس بہت سی غیر منقولہ جائیداد ہے اور آمدنی کے باقاعدہ ذرائع ہیں پھر بھی آڈٹ نہیں کرایا جانا سنگین مسئلہ ہے۔  ‘دیوم استھان محکمے کے معاون کمشنر کی اس رپورٹ میں ٹرسٹ کی جائیدادوں کو غیر قانونی طور پر لیز پر دینے کا بھی ذکر ہے۔  ٹرسٹ نے ایک مکان کو 99 سال اور زمین کے ایک حصے کو پیٹرولیئم کمپنی کو 19 سال کی لیز پر دیا۔  رپورٹ میں اس کو اصولوں کے خلاف بتاتے ہوئے اعتراض کیا ہے۔

جائزہ رپورٹ میں اس پر خاص طورپر اعتراض جتایا کہ ٹرسٹ کی جائیداد کا معقول طور پر انتظام وانصرام نہیں ہو رہا ہے۔  رپورٹ میں لکھا ہے، ‘ٹرسٹ اپنے مقاصد کے مطابق رقم کو خرچ نہیں کر رہا ہے۔  اس کی آمدنی کا زیادہ تر حصہ عدلیہ کاموں پر خرچ ہو رہا ہے، جو مناسب نہیں ہے۔  ‘معاون کمشنر کی اس رپورٹ پر شری گووند دیو جی مندر ٹرسٹ نے جو جواب پیش کیا اس کی کاپی بھی’دی وائر ‘کے پاس ہے۔  اس میں ٹرسٹ کی زیادہ تر گڑبڑیوں کا یہ کہہ‌کر بچاؤ کیا گیا کہ جانکاری کے فقدان میں ایسا ہو گیا۔  کیا یہ ممکن ہے کہ جو ٹرسٹ عدالتوں میں درجنوں مقدمے لڑ رہا ہو وہ خود سے جڑے اصولوں سے ہی ناواقف ہو؟

دیواستھان محکمہ ٹرسٹ کے رویے سے مطمئن نہیں ہوا اور اس نے 22 جون، 2011 کو یہ معاملہ پیشگی کارروائی کے لئے ضلع عدالت کو بھیج دیا۔  حالانکہ یہاں ٹرسٹ کی یہ دلیل کام کر گئی کہ جانکاری کے فقدان میں غلطیاں ہو گئیں۔جج نے یہ بھروسہ ملنے کے بعد کہ مستقبل میں ان غلطیوں کو نہیں دوہرایا جائے‌گا،  8 فروری، 2016 کو معاملہ کا تصفیہ کر دیا۔شری گووند دیو جی مندر ٹرسٹ اور بابا رام دیو کے پتنجلی ٹرسٹ کے درمیان 11 اگست، 2016 کو جو لیز ڈیڈ ہوئی۔ اس میں رام دیو کی طرف سے اجئے کمار آریہ کے دستخط ہیں۔

رام دیو کی جدو جہد کے دنوں کے دوست رہے آریہ بنیادی طور پر کرولی ضلع کے ہنڈون سٹی کے رہنے والے ہیں۔  ایسے میں یہ بات گلے نہیں اترتی کہ ان کو اس زمین کی قانونی پیچیدگیوں کے بارے میں پتا نہ ہو۔اس کا امکان یہ اجاگر ہونے کے بعد اور کمزور ہو جاتا ہے کہ شری گووند دیو جی مندر ٹرسٹ اور پتنجلی ٹرسٹ نے 17 اگست، 2016 کو پرانی لیز ڈیڈ میں ترمیم کیا۔  اس میں دونوں فریقوں نے تقریباً 49 بیگھہ زمین کو اس وجہ سے لیز ڈیڈ سے ہٹا دیا، کیونکہ ان سے متعلق معاملہ راجستھان ہائی کورٹ میں زیر التوا ہیں۔

‘ دی وائر ‘کے پاس دونوں لیز ڈیڈ کی کاپیاں موجود ہیں۔   ترمیم شدہ لیز ڈیڈ میں دو کھسرے جوڑے بھی گئے۔  اس ترمیم کے باوجود بچی ہوئی زمین قانونی رکاوٹیں سے دور نہیں ہوئی ہے۔  کئی کھسروں پر کرولی کی مقامی عدالت اسٹے دے چکی ہے جبکہ کئی کھسروں پر راجستھان ہائی کورٹ میں معاملہ دائر ہو گیا ہے۔ایسے میں یہ سوال اٹھنا لازمی ہے کہ بابا رام دیو کو یہ پتا ہونے کے باوجود کہ یہ زمین متنازعہ ہے، اس کو لیز پر کیوں لیا۔  وہ بھی تب جب لیز ڈیڈ میں اس شرط کا واضح طور پر ذکر ہے کہ زمین سے جڑے قانونی عمل اپنے خرچ پر مکمل کرانے کی ذمہ داری پتنجلی ٹرسٹ کی ہوگی۔

کہیں ایسا تو نہیں کہ پرانے ریکارڈ کی بھول بھلیاں، لچیلے سرکاری نظام اور سیاسی رسوخ کے دم پر کسانوں کو ان کی زمین سے بے دخل کرنے کے سالوں سے چل رہے کھیل کا بابا رام دیو آخری مہرہ ہوں؟  اس خدشہ پر پتنجلی ٹرسٹ کی طرف سے کوئی بھی بولنے کو تیار نہیں ہے۔اس پورے معاملے میں حکومت کا رخ شروع سےہی سوالوں کے گھیرے میں ہے۔  اوّل تو دیومندرسنستھان کو مبینہ طور پر مندر کی مانی جانے والی زمین کو غیر زراعتی کام کے لئے لیز پر دینے پر ہی ٹرسٹ کے خلاف تفتیش کرنی چاہیے تھی، لیکن وزیراعلیٰ وسندھرا راجے نے تو الٹا اس پروجیکٹ کا سنگ بنیاد رکھ دیا۔

عام طور پر کسی بھی پروجیکٹ کی بنیاد رکھنے سے پہلے اس سے جڑے تمام ضابطے پورے کیے جاتے ہیں، لیکن رام دیو سے جڑے پروجیکٹ کا سنگ بنیاد غیر قانونی لیز ڈیڈ ہونے محض سے ہو گیا۔  نہ تو انہوں نے تعمیری کام شروع کرنے کے لئے زمین کا ریگولیشن کروایا اور نہ ہی نقشہ وغیرہ پاس کروائے۔اکثروزیراعلیٰ کے ہاتھوں سنگ بنیاد کا کوئی پروگرام بنانے سے قبل اس بات کی تصدیق کی جاتی ہے کہ یہ قانون کے دائرے میں ہے یا نہیں۔  رام دیو کے پروجیکٹ میں تو سب کچھ غیرقانونی تھا تو یہ سوال اچھلے‌گا ہی کہ وزیراعلیٰ وہاں کیوں گئیں۔  آخر کن افسروں نے پروگرام کو ہری جھنڈی دی؟یا وزیراعلیٰ سب جانتے ہوئے بھی پروگرام میں گئیں؟

یہ بھی جانکاری آ رہی ہے کہ شری گووند دیو جی مندر ٹرسٹ نے رجسٹریشن کے وقت جو غیر منقولہ جائیداد کی فہرست دیومندر محکمے کو سونپی تھی، اس میں پروجیکٹ سے جڑی زمین کی انٹری ہو گئی ہے۔ راجستھان ہائی کورٹ کے وکیل وبھوتی بھوشن شرما اس کو اصولوں کے خلاف مانتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں : بابا رام دیو کو ملی 401 بیگھہ زمین کا ریگولیشن نہیں کرے گی وسندھرا حکومت، رد ہوگی لیز

شرما کہتے ہیں،’اصول یہ ہے کہ ٹرسٹ کو رجسٹریشن کے وقت اپنی غیر منقولہ جائیداد کی تفصیل دیومندر سنستھان  کو سونپنا ہوتا ہے۔  شری گووند دیو جی مندر ٹرسٹ کا رجسٹریشن 1964 میں ہوا تھا۔  اس وقت محکمے کو دی گئی غیر منقولہ جائیداد کی فہرست میں زمین کا ذکر نہیں ہے تو اس کو اب کیسے جوڑا جا سکتا ہے۔  یہ قانون کی خلاف ورزی ہے۔  ‘راحت کی بات یہ ہے کہ حکومت کی اس سرگرمی کے باوجود رام دیو کے پروجیکٹ کا کام شروع نہیں ہو پا رہا۔  اس کی بڑی وجہ ہے افسروں کا رخ۔  ایسے وقت میں جب ریاست اسمبلی انتخاب کے مہانے پر کھڑا ہے، افسر ایسا کوئی کام نہیں کرنا چاہتے جو حکومت بدلنے کی حالت میں ان کے لئے آفت بن جائے۔

(مضمون نگار آزاد صحافی ہیں اور جئے پور میں رہتے ہیں۔)