مدھیہ پردیش کے مندسور میں 8 سالہ بچی کے ساتھ ہوئے ریپ کو سوشل میڈیا پر فرقہ وارانہ رنگ دینے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
نئی دہلی : مدھیہ پردیش کے مندسور میں ایک نابالغ کے ساتھ ہوئے ریپ کو لےکر سوشل میڈیا پر ایک خبر پھیلائی جا رہی ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ شہر کے مسلموں نے حراست میں لئے گئے عرفان کو رہا کرنے کے لئے ریلی نکالی تھی اور قرآن میں دوسرے مذہب کی لڑکیوں سے ریپ جائز ہے۔ ٹوئٹر اور فیس بک پر ہزاروں لوگوں نے اس خبر کو شیئر کیا ہے، لیکن یہ خبر بالکل جھوٹی ہے۔ آلٹ نیوز کے مطابق؛ اس خبر کا اصل ماخذ انڈیافلیئر ڈاٹ کام [www.indiaflare.com] نام کی ایک ویب سائٹ کا لنک ہے، جہاں ‘ قرآن میں دوسرے مذہب کی لڑکیوں سے ریپ جائز، عرفان خان کو رہا کرو ‘ عنوان سے ایک خبر چلائی جا رہی ہے۔
1 جولائی کو پوسٹ کی گئی اس خبر کو ابتک 16000 سے زیادہ بار شیئر کیا جا چکا ہے۔
اس خبر میں لگی تصویر میں کچھ مسلم لوگ ہاتھوں میں تختیاں لئے سڑک پر ریلی نکال رہے ہیں ۔ ایک آدمی کی تختی پر ‘ عرفان کو رہا کرو ‘ لکھا دکھائی دیتا ہے، وہیں پیچھے کچھ تختیوں پر ‘ رہا کرو ‘ لکھا ہے۔ حالانکہ یہ تصویر اور اس مضمون میں کئے گئے دعوے پوری طرح جھوٹے ہیں۔
اس ویب سائٹ کے ذریعے استعمال کی گئی تصویر کے ساتھ چھیڑچھاڑ کی گئی ہے۔ گوگل پر یہ تصویر سرچ کرنے پر آسانی سے مل جاتی ہے۔ یہ ریلی ملزم کی حمایت میں نہیں بلکہ اس ریپ کے واقعہ کے بعد متاثرہ کی حمایت میں نکالی گئی تھی۔ اصلی تصویر نیچے دیکھی جا سکتی ہے۔ اس میں صاف دکھتا ہے کہ پہلی تختی پر ‘ نہیں سہیںگے بیٹی پر وار، بند کرو یہ اتیاچار ‘ لکھا ہوا ہے ، جسے انڈیافلیئر ویب سائٹ پر ‘ عرفان کو رہا کرو ‘ کر دیا گیا ہے۔
وہیں پیچھے کی تختیوں پر لکھے ‘ درندے کو پھانسی دو ‘ کو ‘ رہا کرو ‘ میں بدل دیا گیا ہے۔
اس مضمون میں یہ دعویٰ بھی کیا گیا ہے کہ اس معاملے میں ملزم کو پھانسی دلوانے کے لئے کوئی مسلم سڑک پر نہیں اترا لیکن قرآن کا حوالہ دیتے ہوئے ملزم کی حمایت میں ریلی نکالی۔ یہاں تک کہ اس میں انہوں نے قارئین کو خبردار بھی کیا کہ وہ اس رپورٹ کے بر عکس میڈیا میں چل رہی کسی بھی دوسری رپورٹ پر اعتماد نہ کریں کیونکہ وہ جھوٹی ہے۔ ان کا یہ دعویٰ بھی بالکل جھوٹا ہے۔
اس بارے میں کئی میڈیا رپورٹس موجود ہیں جو یہ بتاتی ہیں کہ علاقے کے مسلموں نے بھی اس واقعہ کے خلاف مخالفت درج کروائی تھی اور ملزم کو کڑی سے کڑی سزا دینے کی مانگ کی تھی۔ کچھ تنظیموں نے ملزمین کے لئے پھانسی کی مانگ کی تو کچھ نے کہا کہ وہ ان ملزمین کو دفنانے کے لئے مندسور یا نیمچ میں جگہ نہیں دیںگے۔
مضمون میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ کانگریس کے رہنما ملزم کی حمایت میں سامنے آئے ہیں۔ ویب سائٹ پر شائع ایک دوسرے مضمون میں کہا گیا ہے کہ مدھیہ پردیش کے کانگریس رہنما جیوترادتیہ سندھیا نے کہا کہ دونوں ملزم بےقصور ہیں اور معاملے کی سی بی آئی جانچ کروائی جانی چاہیے ۔ یہ بھی جھوٹ ہے۔ جیوترادتیہ سندھیا نے خود اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر ایک فوٹو پوسٹ کی ہے جہاں وہ ملزمین کو پھانسی کی سزا دینے کی مانگکر رہی ایک ریلی میں شامل دکھ رہے ہیں۔
#मंदसौर की बेटी के साथ हैवानियत झकझोरने वाली है। इस बर्बरतापूर्ण कृत्य की फाँसी के सिवाय कोई सज़ा हो ही नहीं सकती| सरकार की ज़िम्मेदारी बनती है की मामला फ़ास्ट ट्रैक कोर्ट में चलाये और 15 दिन के भीतर सज़ा हो ये सुनिश्चित करें|#JusticeForMandsaurGirl pic.twitter.com/wqnbwVrZ5h
— Jyotiraditya Scindia (@JM_Scindia) July 2, 2018
آلٹ نیوز کی جانچ میں یہ پتا لگا کہ اس ویب سائٹ کو پچھلے مہینے 22 جون کو ہی رجسٹر کروایا گیا ہے۔ ویب سائٹ پر جاکر کوئی بھی آسانی سے دیکھ سکتا ہے کہ یہاں گمراہ کن ‘ نیوز ‘ رپورٹس دکھائی دیتی ہیں۔
اس ویب سائٹ کا ٹوئٹر اکاؤنٹ بھی جون 2018 میں بنایا گیا ہے، جس سے ابتک قریب 10 ٹوئٹ کئے گئے ہیں۔
Categories: خبریں