کانگریس میں نئی عمرا ور تازی ہوا کا عمل دخل بڑھانے اور نئی تبدیلیوں کو لے کر راہل گاندھی سے کافی توقعات وابستہ ہیں، مگر نو تشکیل شدہ سی وی سی ان توقعات پر پوری نہیں اُتر رہی۔
لوک سبھا میں حال ہی پیش کی گئی تحریکِ عدم اعتماد پر بولتے ہوئے راہل کے تیور تو خاصے سخت تھے لیکن ان کے الزامات جس گہرائی اور گیرائی کے متقاضی تھے، اس کا فقدان نظر آ رہا تھا۔ بطور صدرِ کانگریس راہل پہلا عام الیکشن اگلے سال لڑنے جا رہے ہیں، مگر ان کے یہاں قول و عمل کے تضادات نظر آنے لگے ہیں، جو کانگریس صدر اور ایک پختہ کار سیاستداں کی شبیہ کے لیے سخت نقصاندہ ثابت ہو سکتا ہے۔
قول و عمل کے اس تضاد کی تازہ مثال حال ہی کی گئی کانگریس ورکنگ کمیٹی (سی ڈبلیو سی) کی تشکیل نو کے معاملے میں صاف دیکھی جا سکتی ہے۔ 18 مارچ 2018 کو ہوئی آل انڈیا کانگریس کمیٹی (اے آئی سی سی) کی میٹنگ کے بعد سے ہی راہل گاندھی اس معاملے کو لے کر متفکر اور منتظر بھی تھے۔ کانگریس کے آئین کے مطابق اصولی طور پر ورکنگ کمیٹی میں 12 منتخبہ (اے آئی سی سی کے 1300 سے زیادہ نمائندوں کے ذریعے چنے گئے) اور 12 ہی نامزد ممبر ہوتے ہیں۔ پارٹی کے آئین میں اس کی وضاحت ہے کہ منتخبہ ممبران میں کمزور طبقات، آدیواسی، خواتین اور سماج کے حاشیے پر جوجھ رہے لوگوں کو اولیت دی جائے گی۔ ایسے میں راہل نے اپنے خصوصی اختیار کا استعمال کرتے ہوئے پارٹی کی راہ متعین کرنے والی اس کمیٹی میں خواتین کو یکسر نظر انداز کر دیا۔ وہ بھی ایسے وقت میں جب وہ وزیرِ اعظم نریندر مودی پر لوک سبھا اور وِدھان سبھاؤں میں خواتین کے لیے 33 فی صد نشستیں محفوظ کرنے کا دباؤ بنا رہے ہوں۔راہل کے قول و عمل کا یہ تضاد انہیں نقصان پہنچائے گا، خصوصاً تب، جب آئندہ سال یعنی 2019 میں ہونے والے عام انتخابات کے مدنظر وہ مرکزِ نگاہ ہیں۔
کانگریس کے پاس با صلاحیت لوگوں کی کمی نہیں ہے۔ لہٰذا یہ بہت حیران کُن ہے کہ سی وی سی ممبران کی نئی فہرست سے جے رام رمیش، ششی تھرور، پرتھوی راج چوہان اور سلمان خورشید جیسے جغادری نیتاؤں کے نام غائب ہیں۔ کانگریس ورکنگ کمیٹی عموماً مفکرین، پالیسی ساز ماہرین کا چہرہ ہوتی ہے، جو پارٹی کا بیش قیمتی اثاثہ مانے جاتے ہیں۔
پارٹی کی روایت نبھاتے ہوئے اپنے صدر کے اس فیصلے کی تاویل کچھ لوگوں نے یوں پیش کی کہ ایسی اہلیت رکھنے والی خواتین کا پارٹی میں فقدان ہے، اسی وجہ سے راہل 23 ممبران والی سی ڈبلیو سی میں خواتین کے لیے 8 نشستیں محفوظ نہ رکھ سکے۔ معقولیت کے لحاظ سے اس طرح کے بیانات کو سطحی اور غیر موزوں قرار دیا جا سکتا ہے۔ درحقیقت موجودہ کانگریس میں ایسی اہل خواتین لیڈرس کی کمی نہیں ہے، جو پارٹی کے مرد نیتاؤں سے کسی طرح کم تر ہوں۔
مغربی بنگال کی وزیرِ اعلیٰ اور کبھی کانگریس کی سرگرم و بااثر نیتا رہیں ممتا بنرجی کا سیاسی سفر اس کی زندہ مثال ہے۔ وفادار کانگریسی اور راجیو گاندھی کی معتمد کے طور پر ممتا نے پی وی نرسِمہا راؤکے دورِ اقتدار (1991-96) میں مغربی بنگال کانگریس کا صدر بننے کے لیے کافی زور لگایا۔راؤ اس وقت ملک کے وزیرِاعظم اور کانگریس صدر دونوں تھے۔ ممتا کی خواہشات کے تئیں وہ اظہارِ ہمدردی بھی کرتے تھے مگر انہیں بنگال کانگریس کا صدر بنانے کے ضمن میں پرنب مکرجی کو نظر انداز کرنے کی ہمت نہیں جٹا سکے۔ پرنب مکرجی، کسی طور ممتا بنرجی کو پارٹی کی بنگال اکائی کا صدر بنانے کے خواہش مند نہیں تھے۔ یہی نہیں نرسمہا راؤ کے جانشین سیتا رام کیسری نے بھی اس معاملے میں پرنب مکرجی کی ہی طرفداری کی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ سونیا گاندھی کے سیاست میں باقاعدہ قدم رکھنے سے کچھ پہلے دسمبر 1997 میں ممتا نے ملک کی سب سے قدیمی سیاسی پارٹی کو خیرباد کہہ دیا۔ اس کے بعد جو ہوا وہ سب کے سامنے ہے۔ ممتا آج بنگال کی قدآور و مقبول لیڈر ہونے کے ساتھ صوبے کی ایسی طاقتور وزیرِ اعلیٰ ہیں، جو گاہے بگاہے مرکز کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کے اپنی بات رکھنے میں کبھی پیچھے نہیں رہتیں۔
تاریخ میں تخیلات اور اگر مگر کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی، لیکن اس میں کوئی دو رائے نہیں ہو سکتی کہ آج کی کانگریس میں ممتا کی موجودگی امکانات سے پُر ایک بڑی طاقت ہوتی۔ راہل گاندھی اسے یاد کر سکتے ہیں کہ ان کی دادی، سابق وزیراعظم اور کانگریس صدر اندرا گاندھی اپنی معتمد امبیکا سونی کو کیسے سیاست میں لائی تھیں۔ سونی اب بھی پارٹی کے لیے کام کر رہی ہیں اور موجودہ ورکنگ کمیٹی کے ممبران میں ان کا نام بھی شامل ہے۔ قابلِ ذکر بات ہے کہ اپنے دورہ روم میں اندرا گاندھی نے امبیکا سونی کو منتخب کر لیا تھا۔ سونی کے شوہر اس وقت روم میں ہندوستان کے سفیر تھے۔ وہیں ملاقات ہوئی، جس کے بعد سونی وزیراعظم کے ساتھ فلائٹ میں تھیں۔ سونی کو فوراً یوا کانگریس میں شامل کیا گیا اور سنجے گاندھی کی قیادت میں انہوں نے سیاست کے گُر سیکھے۔
مشہور کانگریسی لیڈر محسنہ قدوائی بھی اندرا گاندھی کی کھوج تھیں۔ اپنے خسر جمیل الرحمٰن قدوائی کی حوصلہ افزائی کی بدولت شرمیلے مزاج کی محسنہ، اندرا گاندھی کے رابطے میں اس وقت آئیں، جب ملک کے سب سے بڑے صوبے اتر پردیش کی سیاست میں چندر بھان گپتا، کملا پتی ترپاٹھی اور ہیم وتی نندن بہوگنا جیسے جغادری نیتا اندرا کے ساتھ شطرنج کی چالیں چلنے میں منہمک تھے۔ 1971 کے لوک سبھا چناؤمیں کانگریس کو صوبے کی سبھی 85 سیٹوں پر شکسست فاش کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ تبھی سن 1978 میں اعظم گڑھ میں ضمنی انتخاب ہوئے۔ اندرا گاندھی نے محسنہ قدوائی کو میدان میں اتار دیا، جنہوں نے جنتا پارٹی کے امیدوار چندرجیت یادو کو ہرا دیا۔ یہ اندرا کی سیاسی طور پر زبردست واپسی کا اشارہ تھا۔
حالیہ تشکیل شدہ کانگریس ورکنگ کمیٹی سے دِگوِجے سنگھ، سی پی جوشی، موہن پرکاش، مدھوسودن مستری جیسے نیتاؤں کو باہر کیا جانا تعجب خیز ہے۔ یو پی اے کے دورِ حکومت میں سونیا کے قریبی رہے ان لوگوں کو راہل سے بھی خاصی تقویت ملتی رہی۔ اُسی راہل سے جو کانگریس کے جنرل سکریٹری، نائب صدر سے ہوتے ہوئے اب سونیا گاندھی کے جانشین بن کر کانگریس صدر کے عہدے پر فائز ہیں۔ کانگریس کے اندرونی حلقوں میں کہا جا رہا ہے کہ اصل میں تو ان لوگوں کو باہر کا راستہ دکھایا جانا چاہیے تھا لیکن ان لوگوں پر راہل کا انحصار نیز جوشی، مستری اور پرکاش کو دی گئی اہمیت سے بھی انکار ناممکن ہے۔ اگر یہ راہل کے سیکھنے و تجربہ حاصل کرنے کے عمل کا حصہ ہے تب تو کانگریسی اسے زیادہ اہمیت نہ دیں گے۔ البتہ اگر یہ باہر کا راستہ دکھانے، کسی کو اٹھانے اور کسی کو گرانے کی منشاء سے کیے تجربات ہیں تو اسے لے کر مزید سوالات کا اٹھنا یقینی ہے۔
کانگریس میں نئی عمرا ور تازی ہوا کا عمل دخل بڑھانے اور نئی تبدیلیوں کو لے کر راہل گاندھی سے کافی توقعات وابستہ ہیں، مگر نو تشکیل شدہ سی وی سی ان توقعات پر پوری نہیں اُتر رہی۔ نئی سی وی سی میں بہت سارے پرانے نیتا جمے ہوئے ہیں۔ ممکن ہے چناوی فتوحات کی کمی کے چلتے توازن برقرار رکھنے کے لیے راہل فی الحال پارٹی میں طاقتور لوگوں کو چھیڑنا نہیں چاہتے ہوں۔ اگر ایسا ہے تو حالات کو جوں کا توں رکھنے کا یہ رویہ آئندہ وقت میں پارٹی کے لیے خاصہ نقصاندہ ثابت ہو سکتا ہے۔
سی وی سی کی تشکیلِ نو کو لے کر اس کا بھی کوئی معقول جواز نہیں دیا گیا کہ پنجاب کے وزیرِ اعلیٰ کیپٹن امرِیندر سنگھ کو کیوں نکال دیا گیا۔ اگر اس کے پیچھے یہ منشاء ہے کہ پارٹی کے وُزرائے اعلیٰ کو کانگریس ورکنگ کمیٹی میں نہیں رکھا جانا ہے، تو اس کی وضاحت کی جانی چاہیے تھی۔ اپنے سنہرے دور میں پارٹی کی یہ روایت تھی کہ باریک نکات، حکمت عملی اور پارٹی صدر کے افکار و خیالات اور طریقِ کار سے متعلق میڈیا کی مقتدر شخصیات کو بتایا جاتا تھا۔ لیکن آج چوبیس گھنٹوں چل رہے خبریہ ٹی وی چینلس و سوشل میڈیا کے دور میں اسے خیرباد کہہ دیا گیا ہے۔
(صحافی اور قلمکار رشید قدوائی اوآرایف کے وزیٹنگ فیلو ہیں)
Categories: فکر و نظر