مودی کی حکومت 1955کے شہریت کے قانون میں ترمیمی بل پارلیامنٹ میں پیش کرچکی ہے۔جس کی رو سے پاکستان، بنگلہ دیش، افغانستان سے آئے غیر ملکی ہندو پناہ گزینوں کو شہریت مل جائے گی۔
کیا ستم ظریفی ہے کہ ایک طرف ہندوستان کے شمال مشرقی صوبہ آسام میں مقامی ہندو آبادی کی نسلی اور لسانی برتری قائم رکھنے کیلئے40لاکھ افراد کو بنگلہ دیشی بتا کر شہریت سے محروم کر دیا جاتا ہے وہیں دوسری طرف جموں و کشمیر کی نسلی ، لسانی و مذہبی شناخت کو ختم کرنے کیلئے آئین کی دفعہ 35(اے) کو ختم کرنے کی کوششیں ہو رہی ہیں۔اعلانیہ دوہرے پیمانے صرف اسلئے اختیار کئے جا رہے ہیں کہ آسام کی 35 فیصد اور جموں و کشمیر کی 68فیصد مسلم آبادی ہندو فرقہ پرستوں اور موجودہ ہندوستانی حکومت کی آنکھوں میں کانٹے کی طرح کھٹک رہی ہے۔
منصوبہ ہے کہ آئین کی اس شق کو ختم کرکے ہندوستان کی دیگر ریاستوں سے ہندو آبادی کو کشمیر میں بساکر مقامی کشمیری مسلمانوں کو اپنے ہی وطن میں اقلیت میں تبدیل کرایاجائے، وہیں آسام میں برسوں سے مقیم بنگالی مسلمانوں کو غیر ملکی قرار دیکر ان کو برما کے روہنگیائی مسلمانوں کی طرح دربدر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور کراکے ہندو آبادی کو سیاسی اور آبادیاتی تحفظ فراہم کرایا جائے۔
نیشنل رجسٹر آف اسٹیزنز یعنی شہریوں کی فہرست جو 31جولائی کو جاری ہوئی ہے، ان میں جن افراد کے نام شامل نہیں ہیں ان میں ہندوستان کے مرحوم صدر فخرالدین علی احمد کا خاندان، آسام کی سابق وزیر اعلیٰ سیدہ انورہ تیمور اور انکی فیملی، ریاستی اسمبلی کے پہلے ڈپٹی اسپیکر امیرالدین کا خاندان، نیز ہندوستانی فوج، نیم فوجی تنظیموں اور پولیس کے کئی اعلیٰ عہدیدار اور ان کے اعزاو اقارب شامل ہیں۔
اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اگر ایسے مقتدر افراد کا نام یا انکے خاندان کو شہریت کی فہرست سے خارج کردیا گیا ہے توعام آدمی کا کیا حال ہوگا۔ حکومت کا کہنا ہے کہ یہ ابھی صرف ڈرافٹ لسٹ ہے اور کسی کو بھی فوری طور پربے دخل نہیں کیا جائیگا اور اس لسٹ کو چیلنج کرنے کے بھی بھر پور مواقع دئے جائینگے۔مگر ان تمام یقین دہانیوں کے باوجود پورے صوبہ میں خوف و ہراس کاماحول ہے۔ مرکزی و ریاستی وزرانیز بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے اراکین اپنے بیانات کے ذریعے اس ایشو کو بھنا کر الیکشن میں ہندو ووٹروں کو حق میں یکجا کرنے کے فراق میں ہیں۔
چونکہ خدشہ تھا کہ شہریت کی فہرست سے بنگالی ہندو بھی خارج ہوسکتے ہیں، وزیر اعظم مودی کی حکومت 1955کے شہریت کے قانون میں ترمیمی بل پارلیامنٹ میں پیش کرچکی ہے ، جو اس وقت پارلیامانی کمیٹی کے سامنے ہے۔ جس کی رو سے پاکستان، بنگلہ دیش، افغانستان سے آئے غیر ملکی ہندو پناہ گزینوں کو شہریت مل جائے گی۔ انصاف کے دوہرے معیار کی اس سے بڑھکر اور کیا مثال ہو سکتی ہے۔
تقسیم ہند اور 1971 میں سقوط مشرقی پاکستان کے وقفہ کے دوران تقریباً ایک کروڑ افراد ہجرت کرکے شمال مشرقی ریاستوں میں بس گئے تھے۔ پاکستان کو سفارتی سطح پر زچ کرنے کیلئے سرحدیں کھول دی گئیں تھیں اور اس طرح کی ہجرت کی حوصلہ افزائی بھی کی جارہی تھی۔ جب بنگلہ دیش وجود میں آیا تو اکثر لوگ واپس چلے گئےْ ۔ 1978سے 1985 کے درمیان آل آسام اسٹوڈنٹس (آسو) سمیت کچھ تنظیموں نے پرپگینڈہ شروع کیا کہ بہت سے پناہ گزین بنگلہ دیش جانے کے بجائے آسام میں بس گئے ہیں۔
1978ء میں ہوئے اسمبلی کے انتخابات میں 17 مسلمان منتخب ہو گئے تھے۔ بس پھرکیا تھا، آسمان سر پر اٹھا لیا گیا کہ آسام کو ”اسلامی ریاست‘‘ میں تبدیل کرنے کے لئے بنگلہ دیشی مسلمانوں کا ایک ریلا چلا آرہا ہے۔ اسی طرح 1979ء میں فرقہ پرست تنظیموں اور حکومتوں کی در پردہ حمایت آسونے صدیوں سے آباد بنگالی آبادی کے خلاف پْرتشدد اور خونیں مہم چلائی۔اس سے قبل اس صوبہ میں غیر آسامیوں یعنی ہندی بولنے والوں کے خلاف تحریک شروع کی گئی تھی پھر اس کا رخ بعد میں غیر ملکیوں اور خاص کر بنگلہ دیشیوں کے خلاف موڑ دیا گیا۔
بعدازاں اسے آر ایس ایس اور دیگر فرقہ پرستوں کی شہ پر خونریز مسلم مخالف تحریک میں تبدیل کردیا گیا۔ آسام کی تاریخ گواہ ہے کہ غیر ملکی اور خاص کر بنگلہ دیشی ہونے کا الزام لگا کر مسلمانوں کی نسل کشی کی گئی جس میں 1983کا نیلی اور چولکاوا کے قتل عام کے روح فرسا واقعات کبھی فراموش نہیں کئے جاسکتے جس میں تقریباً تین ہزار ( غیر سرکاری 10ہزار) افراد کو محض چھ گھنٹوں میں موت کے گھاٹ اتار دیا گیاتھا مگر متاثرین کو آج تک انصاف نہیں مل سکا۔
1985 میں اس وقت کے وزیر اعظم راجیو گاندھی کی نگرانی میں مرکزی حکومت، آسام حکومت او ر احتجاجی طلبہ لیڈروں کے درمیان باہمی رضامندی سے آسام آکارڈ وجود میں آیا۔پولیس نے نیلی قتل عام میں ملوث کئی سو افراد کے خلاف فرد جرم عائد کی مگرآسام اکارڈکی ایک شرط کے تحت کیسز واپس لئے گئے‘ اور آج تک اس نسل کشی کے لئے کسی کو سزا ملی نہ ہی کسی کو ذمہ دار ٹھہرایا گیا۔ اس واقعے کو ایسے دبا دیا گیا جیسے کچھ ہوا ہی نہیں تھا۔
بنگالی مسلمانوں کے خلاف یہ مہم چلانے والی آل آسام سٹوڈنٹس یونین کے بطن سے نکلی آسام گن پریشد کو بطور انعام اقتدار سونپ دیا گیا۔ اس ایکارڈ کے مطابق 25، مارچ 1971 کو بنیاد مان کر اس سے پہلے آسام آکر بس جانے والوں کو شہری تسلیم کیا گیا ۔چنانچہ اس معاہدہ کے بعد پارلیامنٹ نے ایک ترمیمی بل کو منظوری دی جس پر اس وقت کسی نے کوئی اعتراض نہیں کیا بلکہ تمام سیاسی جماعتوں بشمول کانگریس، بی جے پی ،کمیونسٹ جماعتوں نیز تمام غیر سیاسی وسماجی تنظیموں نے بھی اسے تسلیم کیا تھا۔
مگرچونکہ یہ مسئلہ ریاست میں مسلمانوں ایک سیاسی قوت بننے سے روکنے کی غرض سے کھڑا کیا گیا ہے۔ اس لئے 2009 میں اور پھر 2012 میں آسام سمیلیٹا مہا سنگھ سمیت مختلف فرقہ پرست اور مفاد پرست افراد اور تنظیموں نے سپریم کورٹ میں اس معاہدہ کے خلاف مفاد عامہ کی ایک عرضداشت داخل کرکے 5 مارچ 1971 کی بجائے 1951 کی ووٹر لسٹ کو بنیاد بناکر آسام میں شہریت کا فیصلہ کرنے کی استدعا کی نیز اس معاہدہ کی قانونی حیثیت بھی چیلنج کیا، جس کی وجہ سے آسام کے لاکھوں افراد بلکہ ہر تیسر ے فرد پر شہریت کی تلوار لٹک گئی۔
بعد ازاں سپریم کورٹ نے 1971کو بنیاد تسلیم کرتے ہوئے شہریوں کی ایک نئی لسٹ تیار کرنے کا فرمان جاری کیا۔جغرافیائی اعتبار سے صوبہ آسام تین حصوں میں بٹا ہوا ہے۔ لور (نشیبی) آسام جو مغربی علاقہ ہے، اَپر (بالائی) آسام جو مشرقی علاقہ ہے اور بارک ویلی جو جنوب میں واقع ہے۔ 2014ء کے پارلیامانی انتخابات میں ہندو قوم پرست بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے ریاست کے 14 میں سے سات پارلیامانی حلقوں میں کامیابی حاصل کی۔ اس کے دو سال بعد بی جے پی نے ریاستی اسمبلی میں بھی اکثریت حاصل کرکے حکومت بنا لی۔
آسام کی آبادی کے تناسب پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ بنیادی طور پر ایک قبائلی ریاست ہے جہاں کی تقریباً40 فیصد آبادی مختلف قبائل پر مشتمل ہے، مگر ان کو زبردستی ایک تو ہندو بنا کر رکھا گیا ہے اور دوسرے مسلمانوں اور بنگلہ دیشی پناہ گزینوں کے نام پر ان کو خوف کی نفسیات میں مبتلا کرکے بی جے پی زمین اپنے حق میں ہموارکر نے میں کامیاب ہوگئی۔ انتخابات سے قبل تقریباً پانچ لاکھ بنگالیوں کو مشتبہ ووٹر قرار دے دیا گیا تھا۔
جولائی 2012 میں بوڈو قبائلی کونسل کے زیر انتظام کوکرا جھار اور گوپال پاڑا اضلاع میں بوڈو انتہا پسندوں نے پْرتشدد حملے کئے جن کے نتیجے میں تقریباً چار لاکھ افراد کو عارضی کیمپوں میں جان بچا کر پناہ لینا پڑی تھی۔ بی جے پی کی زیر قیادت والی پچھلی حکومت نے 2003میں بوڈو لبریشن ٹائیگرز سے معاہدہ کرکے بوڈو علاقائی کونسل قائم کی۔ یہ معاہدہ جنوبی افریقہ کی سفید فام اقلیت کے نسلی حکمرانی (اپارتھیڈ رول) کی یاد دلاتا ہے کیونکہ جن اضلاع میں یہ کونسل قائم کی گئی‘ ان میں بوڈو قبائل کی تعداد محض 28 فیصد ہے۔
اسی پس منظر میں بنگالی بولنے والی آبادی نے اپنے مفادات کے تحفظ کے لئے 80ء کی دہائی میں یونائیٹڈ مائنارٹیز فرنٹ کے نام سے ایک سیاسی تنظیم بنائی تھی لیکن یہ تجربہ باہمی اختلافات کی وجہ سے زیادہ کامیاب نہ ہو سکا‘حالانکہ اسے اسمبلی اور پارلیامنٹ میں قابل ذکر کامیابی ملی تھی۔ فرنٹ سے منتخب ہونے والے رکن پارلیامان بیرسٹر ایف ایم غلام عثمانی (مرحوم) اور دیگر لیڈر کانگریس میں چلے گئے۔ ریاست کے حالات اور کانگریسی حکومت کے رویے سے مایوس ہو کر اکتوبر 2005 میں اس تجربے کا احیا کیا گیا۔
چنانچہ صوبے کی 13 ملی تنظیموں نے ایک نیا سیاسی محاذ آل انڈیا ڈیموکریٹک فرنٹ کے نام سے تشکیل دیا۔ اس کی تشکیل میں ایڈووکیٹ عبدالرشید چودھری کا اہم رول رہا، لیکن انہوں نے اس کی قیادت قبول نہیں کی کیونکہ کوئی سیاسی جماعت چلانے کے لئے پیسے کی ضرورت ہوتی ہے۔قرعہ فال عْود اور عطر کے بڑے تاجر مولانا بدرالدین اجمل قاسمی کے نام نکلا۔ ان کی قیادت میں فرنٹ ریاست میں حزب مخالف کی سب سے بڑی جماعت بن گیا‘ اور پارلیامنٹ میں بھی اس کی نمائندگی ایک سے بڑھ کر تین ہو گئی۔ ویسے آسام میں ابتدا سے جمعیۃ العلماء ہند کا خاصا اثر رہا ہے اور ہر چپے پر مدارس نظر آتے ہیں۔
ویڈیو : آسام میں شہریت کا مسئلہ اور سپریم کورٹ
آل انڈیا یونائٹیڈ فرنٹ کے صدر اور رکن پارلیامان مولانا بدرالدین اجمل نے جو جمعیۃ علماء ہند صوبہ آسام کے صدر بھی ہیں ، حالات کے لئے آسام کی سابق کانگریس حکومتوں اور اس کی قیادت کو سب سے زیادہ ذمہ دارقرار دیتے ہیں۔ اجمل نے جو لوک سبھا میں ریاست کی ڈھبری حلقہ سے پارلیامنٹ میں نمائندگی کرتے ہیں نے سابق کانگریسی وزیر اعلی ترون گگوئی کو خاص طور سے نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ اس نے اپنے پندرہ سالہ دور حکومت میں (2001۔16) ریاست کی لسانی اور مذہبی اقلیتوں کو تین کاری ضربیں لگائیں۔
پہلے انہوں نے 2005میں آئی ایم ڈی ٹی ایکٹ کا سپریم کورٹ میں کمزور دفاع کرکے اس کو منسوخ کرایا جس کے تحت کسی شخص کو غیر ملکی ثابت کرنے کی ذمہ داری انتظامیہ پر تھی۔ بنگلہ دیشی دراندازوں کا پتہ لگانے اور شناخت کرنے کی غرض سے آئی ایم ڈی ٹی ایکٹ 1983 میں پاس کیا گیا تھا۔ اس ایکٹ کے تحت کسی فرد کو غیر ملکی ثابت کرنے کی ذمہ داری استغاثہ پر تھی اب یہ سپریم کورٹ کے فیصلہ کے بعد ختم کردیا گیا ہے۔ اس کے بعد ان کی حکومت نے آسام میں “بارڈر پولس ڈیپارٹمنٹ” تشکیل دے کر اسے اس بات کا مکمل اختیا دے دیا کہ وہ جسے چاہے غیر ملکی قرار دیکر گرفتار کر سکتا ہے۔
ہزاروں معصوم لوگ اس ڈپارٹمنٹ کے ظلم و ستم کا شکار ہو چکے ہیں۔ واضح رہے کہ ملک کی دیگر ریاستوں میں اس طرح کا کوئی محکمہ نہیں ہے۔ مزید ستم یہ کیا گیا کہ جن لوگوں کو گرفتار کرکے حراستی مراکز میں ڈالا گیا ان سے راشن کار ڈ چھین لیے گئے۔آسام کے مسلمانوں کو روہنگیا مسلمانوں کی طرح بے حیثیت کر نے کی سازش چل رہی ہے تا کہ ان کے شہری حقوق چھین لئے جائیں اور ان سے ووٹنگ کا حق بھی سلب کر لیا جائے۔ یہاں اس کا بات تذکرہ برمحل ہوگا کہ اسلام آسام کا دوسرا بڑا مذہب ہے جہاں 13ویں صدی میں سلطان بختیار خلجی کے دور میں مسلمانوں کی آمد کا سلسلہ شروع ہوا۔
اس وقت تک آہوم سلطنت وجود میں بھی نہیں آئی تھی۔جب برٹش ایسٹ انڈیا کمپنی نے 1757کی جنگ پلاسی کے بعد بنگال پر قبضہ کیا تو اس کے زیر تسلط آسام کا علاقہ بھی آیا۔ کمپنی نے یہاں بڑے پیمانے پر بنگالیوں کو لاکر بسانا شروع کیا اوران لوگوں نے معاشی وجوہات سے اپنے رشتہ داروں کو یہاں بلانا شروع کیا۔ کیونکہ آسام میں زمینیں زرخیز تھیں۔مشرقی بنگال سے بڑی تعداد میں بے زمین کسان یہاں آکر آباد ہوگئے جن میں 85 فی صد مسلمان تھے۔ آج انہی صدیوں سے آباد مسلمانوں کو غیر ملکی یا بنگلہ دیشی قرار د یکر ان کیلئے زمین تنگ کی جارہی ہے۔
Categories: فکر و نظر