نریندر مودی سے الگ وہ اپنے خلاف لکھنے والے یا راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کے ذریعے بنائی گئی ان کی عالمی شناخت سے اتفاق نہ رکھنے والے صحافیوں سے بھی خاکساری اور نرمی کے ساتھ پیش آتے تھے۔
اٹل بہاری واجپائی ہمیشہ آسانی سے مل جانے والےاور پارٹی کے ملنسار ‘ مکھوٹا ‘ تھے۔ وہ اپنے خلاف لکھنے والے، یا راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کے ذریعے بنائی گئی ان کی عالمی شناخت سے اتفاق نہ رکھنے والے صحافیوں سے بھی خاکساری اور نرمی کے ساتھ پیش آتے تھے۔ جب وہ ان سے پوچھے گئے کسی سوال کا جواب نہیں دینا چاہتے تھے، تب وہ اس کو مذاق میں بدل دیتے تھے اور کنارے کر دیتے تھے۔
ایک بار بی جے پی کے ایک سینئر رہنما نے کسی بھی شرمناک سیاسی واقعہ سے، جو عام طور پر کسی بھی تجربہ کار رہنما کی امیج پر داغ لگا سکتا ہے، واجپائی کے بےداغ نکل آنے کی صلاحیت پر کہا تھا، ‘ دیکھیے واجپائی جی سری لنکائی گڑیا کی طرح ہیں۔ آپ اسے دائیں سے مکہ مارتے ہیں، وہ جھول جاتی ہے، لیکن جلد ہی سیدھی کھڑی ہو جاتی ہے۔ آپ اسے بائیں سے مکہ مارتے ہیں، وہ لڑکھڑاتی ہے، لیکن پھر سیدھی تن جاتی ہے۔ ‘
لیکن اس بات کو لےکر کوئی شک نہیں رہنا چاہیے کہ واجپائی بہترین سویم سیوک تھے، جو تنظیم کے کام سے پیچھے نہیں ہٹتے تھے۔ ان میں اتنی ہوشیاری تھی کہ 6 دسمبر 1992 کو جب بابری مسجد کو گرایا گیا، وہ ایودھیا میں نہیں تھے۔اس سے ایک دن پہلے، انہوں نے لکھنؤ میں کہا تھا کہ سپریم کورٹ نے متنازعہ مقام پر کچھ علاقوں کو برابر کرنے کی اجازت دے دی ہے۔ کچھ لوگوں کو یقین ہے کہ انہوں نے اسی کے سہارے رضاکاروں کو اگلے دن مسجد گرانے کے لئے اکسایا تھا۔
جیسا کہ انہوں نے خود ستمبر 2000 میں نیویارک میں بی جے پی کے سمندرپار دوستوں کو خطاب کرتے ہوئے کہا تھا، ایک دن وہ وزیر اعظم نہیں رہیںگے، لیکن ‘ جو ایک بار سویم سیوک بن گیا، وہ ہمیشہ سویم سیوک رہتا ہے۔ ‘ اپنے اس ایک جملے سے انہوں نے سنگھ پریوار کے اندر ان کے نام نہاد آزاد رویے کو لےکر ہونے والی تنقیدوں کا منھ بند کر دیا تھا اور یہ واضح کر دیا کہ آر ایس ایس کے متعلق وفاداری کے معاملے میں وہ کسی سے بھی کم نہیں ہیں۔
اس سپردگی کا مظاہرہ انہوں نے ایمرجنسی کے بعد بنی جنتا پارٹی کی حکومت سے جنتا پارٹی اور راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کی دوہری رکنیت کے سوال پر راہیں الگ کرتے بھی کیا تھا۔ واجپائی کی قیادت میں جن سنگھ کے ممبروں نے سنگھ کی رکنیت چھوڑنے کی جگہ حکومت سے استعفیٰ دینا اور اقتدار کو چھوڑ نا منظور کیا۔اس بات کی کافی دستاویزکاری ہوئی ہے کہ 2002 میں گجرات کے فسادات کے بعد پارٹی کے گووا میں منعقد قومی جلسہ کے دوران واجپائی نے نریندر مودی کو گجرات کے وزیراعلیٰ کے عہدے سے ہٹانے کا منصوبہ بنا لیا تھا لیکن ایل کے اڈوانی اور ارون جیٹلی نے ان کی ان کوششوں پر پانی پھیر دیا۔
پہلے سے لکھی گئی ایک اسکرپٹ کے مطابق مودی نے اپنے استعفیٰ کی پیشکش کی اور اڈوانی کی کوششوں سے تقریباً پورے نیشنل ایگزیکٹو نے ایک آواز میں اس پیشکش کو ٹھکرا دیا اور اس بارے میں ایک تجویز پاس کر دی۔ واجپائی کو اپنے قدم پیچھے کھینچنے پڑے۔ لیکن ایسا کرتے ہوئے انہوں نے اپنی پارٹی اور آر ایس ایس کے اندر کے سب سے ناسمجھ مسلم مخالف جذبات کو آواز دی۔
اس شام گووا میں ایک عوامی جلسہ میں انہوں نے پارٹی کو کور کرنے کے میرے 20 سال کے تجربے میں اپنی سب سے زیادہ فرقہ وارانہ تقریر کی۔ گجرات میں سب سے خوف ناک فسادات کے بعد بولتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مسلم ہرجگہ پریشانی کھڑی کرتے ہیں اور اپنے پڑوسیوں کے ساتھ امن کے ساتھ نہیں رہ سکتے۔ ان کی اس تقریر کی وجہ سے ان کے خلاف ایک Privilege motion لایا گیا، لیکن انہوں نے حالات کو قابو میں کرتے ہوئے یہ دلیل پیش کی کہ وہ بس ایسے ‘ جہادی ذہنیت ‘ رکھنے والے ‘ کچھ ‘ مسلموں کے بارے میں بات کر رہے تھے۔
سیاسی تقسیم سے پرے الگ الگ جماعتوں سے واسطہ رکھنے والے سیاستداں واجپائی کو غلط پارٹی میں صحیح آدمی قرار دیتے ہوئے نہیں تھکتے ہیں اور ان کو فطری طریقے سے ایک مذہبی روادار، انسانیت پسند اور آزاد خیال قراردیتے ہیں، جو غلطی سے رائٹ ونگ فاسسٹ تنظیم راشٹریہ سویم سیوک سنگھ میں آ گیا۔
لیکن حقیقت میں اس سے زیادہ جھوٹی بات اور کچھ نہیں ہو سکتی۔ واجپائی مسلمانوں اور عیسائیوں کو ہندوستان میں دوسرے درجے کے شہری کے طور پر ہندو اکثریت کمیونٹی کے رحم پر رہنے کی اجازت دینے کے ہندو تو ااور گوولکر کے نظریہ کے متعلق اسی طرح سے پوری عقیدت رکھتے تھے، جس طرح سے وزیر اعظم نریندر مودی اور راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کے چیف موہن بھاگوت رکھتے ہیں۔
انہوں نے ایک نظم لکھی، ‘ ہندو تن من ہندو جیون ‘، جو کہ ان کی پہچان کو صرف ہندو کے طور پر قائم کرتی ہے۔ یہ نظم جو کہ ان کے وزیر اعظم بننے کے بعد شروع میں پارٹی کی ویب سائٹ پر لگائی گئی تھی، ان کی ہدایت پر وہاں سے ہٹا دی گئی۔ اس کی وجہ شاید یہ تھی کہ ایک اتحادی حکومت کے وزیر اعظم کے طور پر وہ کسی تنازعہ میں نہیں پڑنا چاہتے تھے۔ لیکن، اس کے ساتھ ہی یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ واجپائی ان کی تنقید کرنے والے صحافیوں کے لئے سلجھے ہوئے اور شائستہ تھے۔ اس معاملے میں وہ نریندر مودی کے ٹھیک برعکس تھے، جو نہ تنقید کو قبولکر پاتے ہیں، نہ اس کو بھولتے ہیں اور نہ اس کو معاف کرتے ہیں۔
کالم نگار اور ٹیلی ویژن اینکر کرن تھاپر نے اپنی کتاب میں مودی کے ساتھ (ایک ناخوشگوار انٹرویو کے بعد، جس کو مودی بیچ میں ہی چھوڑکر چلے گئے تھے) اپنے پیشہ ور انہ تعلقات کو بہترکرنے کی ناکام کوشش کے بارے میں بتایا ہے۔ اور ہمارے سامنے میں اے بی پی ٹی وی چینل سے ایک صحافی کےاستعفیٰ کا تازہ معاملہ بھی ہے، جو اس بات کی تصدیق کرتا ہے کہ مودی تنقید کو نرمی سے نہیں لیتے ہیں۔
یقینی طور پر 2001 میں گجرات کے وزیراعلیٰ کے عہدے پر فائز ہونے سے پہلے دہلی میں پارٹی کے جنرل سکریٹری کے طور پر وہ صحافیوں سے آسانی سے ملتے تھے، لیکن گجرات میں انہوں نے جلد ہی صحافیوں کے ساتھ مکالمہ کو ختم کر دیا۔ ایک بار ایک صحافی نے واجپائی سے بی جے پی کی خارجہ پالیسی کے بارے میں پوچھا تھا۔ یہ واقعہ ان کے وزیر اعظم بننے سے پہلے کا ہے۔ تب انہوں نے اس سوال کو ایک جملے میں ہوا میں اڑاتے ہوئے کہا تھا، ‘ پاکستان پر بم گرانا، پاکستان کو تباہ کرنا۔ ‘
یہ مذاق کے طور پر بھلے کہا گیا ہو، لیکن اس کا ایک سنجیدہ معنی نکلتا تھا۔ اس سے یہ اشارہ ملتا تھا کہ ان کی پارٹی پاکستان سے آگے نہیں دیکھ پاتی اور اس کے پاس خارجہ پالیسی کے طور پر صرف ایک پوائنٹ ہے-‘ پاکستان کی تباہی ‘۔ بلاشبہ وزیر اعظم بننے کے بعد جیسا کہ سب کو پتا ہے، انہوں نے پاکستان کی طرف ‘ دوستی کا ہاتھ ‘ بڑھانے کی خواہش ظاہرکی اور لاہور تک کا بس کا ‘ سفر ‘ کیا اور جنرل پرویز مشرف کے ساتھ آگرہ کانفرنس کیا، جس کو آڈوانی کی کوششوں نے پوری طرح سے ناکام کروا دیا۔
جب میڈیا نے 1995 میں گجرات کے اس وقت کے وزیراعلیٰ کیشوبھائی پٹیل کے خلاف شنکرسنگھ واگھیلا کے ذریعے بغاوت کئے جانے کی وجہ سے وہاں پیدا ہوئے سیاسی بحران کے بارے میں ان سے بات کرنے کی کوشش کی، تب انہوں نے ہمیں ‘ اڈوانی جی سے پوچھو ‘ کی صلاح دی، جس میں اڈوانی کی قیادت میں پارٹی میں مچےبحران کا مزہ لینے کا تاثر صاف چھپا تھا۔
واجپائی کو پارٹی کے اندر کے حالات ان کے موافق نہ ہونے پر صحیح وقت کا انتظار کرنے کا فن آتا تھا۔ 1999 میں وہ آر ایس ایس کے اعتراضات کی وجہ سے جسونت سنگھ کو وزیر خزانہ نہیں بنا پایا تھا۔ انہوں نے یشونت سنہا کو قبولکر لیا، لیکن کچھ سال بعد وہ جسونت سنگھ کو لے آئے۔ آخر میں شاید یہ گووند آچاریہ تھے، جنہوں نے مناسب طریقے سے واجپائی کوحالانکہ، انہوں نے لگاتار اس کا کریڈٹ لینے سے انکار کیا ہے۔’ مکھوٹا ‘ کہہکر پکارا تھا، جو کہ آر ایس ایس کے اقتدار میں آنے کی مہم میں کارآمد ہے۔
اس ‘ مکھوٹا ‘ نے سماجوادی رجحان والی بیجو جنتا دل اور جنتا دل یونائٹیڈ سے لےکر اکالی دل اور شیو سینا اور اے آئی اے ڈی ایم کے ، تیلگو دیشم جیسی پارٹیوں کو ایک اتحاد میں لاکر پارٹی کو جواز عطا کرنے کا کام کیا۔ واجپائی نے اس تبصرہ کے لئے گووند آچاریہ کو کبھی معاف نہیں کیا، لیکن انہوں نے صبر سے صحیح وقت آنے کا انتظار کیا۔ اس کے بعد گووند آچاریہ کو اس طرح باہر کا راستہ دکھا دیا گیا کہ وہ کبھی واپس نہیں آ سکے۔ سری لنکائی گڑیا ایک بار پھر تنکر کھڑی ہو گئی۔
(نینا ویاس دی ہندو کے لئے بھارتیہ جنتا پارٹی کو کور کرتی تھیں۔ )
Categories: فکر و نظر