ایک کامیاب اور مایہ نازصحافی ہونے کے باوجود آج کل کے اینکروں اور ایڈیٹروں کے برعکس ان میں تکبر کا شائبہ تک نہیں تھا۔
کسی پنڈت نے پیشن گوئی کی تھی کہ اگست کا مہینہ ملک کیلئے بھاری ہوگا۔ لگتا ہے کہ یہ پیشن گوئی حرف بہ حرف سچ ثابت ہورہی ہے۔ نہ صرف جنوبی صوبہ کیرالہ میں سیلاب سے تباہی ہو ئی ہے، بلکہ سرکردہ افراد کی اموات کا گویا ایک سلسلہ سا شروع ہو گیا۔ ابھی تامل ناڈو کے سابق وزیر اعلیٰ کروناندھی کی موت کا سوگ جاری تھا کہ مغربی بنگال سے خبر آئی کہ بائیں بازو کے لیڈر اور سابق اسپیکر سومناتھ چٹرجی چل بسے۔ ابھی ان کی تعزیت کا سلسلہ جاری تھا کہ سابق وزیرا عظم اٹل بہاری واجپائی انتقال کر گئے اور ساتھ ہی ممبئی کانگریس کے مقتدر لیڈر اور سابق مرکزی وزیر گورو دا س کامت کی موت کی خبر آگئی۔
اسی دوران سرکردہ صحافی اور کالم نویس کلدیپ نیئر نے دہلی کے ایک نجی اسپتال میں آخری سانس لی۔وہ ہندوستان اور پاکستان کے درمیان بہتر رشتوں کے نقیب نیز سیالکوٹ، لاہور اور دہلی کے درمیان رابط کی آخری کڑی تھے ۔ اس معاملے میں وہ اپنے آپ کو ’’لاعلاج امید پرست ‘‘بتاتے تھے۔ چونکہ کالج و اسکول کے زمانے میں جن صحافیوں کی تحریروں کو پڑھنے کا موقعہ ملتا تھا ،ان میں کلدیپ نیئر ، خوشونت سنگھ، ارون شوری اور ایم جے اکبر میرے پسندیدہ لکھاری تھے۔ اسکی وجہ ان کی طرز تحریر کے ساتھ ساتھ ان کا اینٹی اسٹیبلشمنٹ رویہ بھی تھا۔
میرے دہلی آنے تک ایم جے اکبر چھلانگ لگاکر اسٹیبلشمنٹ کی صف میں شامل ہوکر کانگریس کے ٹکٹ پر انتخابات میں قسمت آزمائی کر چکے تھے۔ آج کل مودی حکومت میں وزیر مملکت برائے امور خارجہ ہیں۔ ارون شوری نے انڈین ایکسپریس کے ایڈیٹر کی حیثیت سے تفتیشی صحافت کا ایک معیار فراہم کیا تھا ، جس کو اس اخبار نے ابھی تک قائم و دائم رکھا ہے۔ میری جنریشن اور موجودہ ابھرتے ہوئے صحافیوں میں ایک واضح فرق ہے کہ ہمار ے رول ماڈل اسٹیبلشمنٹ کو ہر دم احتساب کی سولی پر لٹکا نے والے صحافی ہوتے تھے ۔ جبکہ آج کی جنریشن حکومت کے قریبی یا گودی صحافیوں کو پذیرائی بخشتی ہے۔وزیر اعظم یا کسی بھی مقتدر سیاستدان کا قرب اب کامیابی کی ضمانت اور رول ماڈل کی تشریح ہے۔
خیر چونکہ کلدیپ نیئر کی تحریریں باقاعدگی کے ساتھ مطالعہ میں رہتی تھیں، دہلی آنے کے بعد میں ان کی تلاش میں نکل پڑا۔ معلوم ہوا کہ وہ ایر پورٹ کے پاس وسنت وہار علاقہ میں رہتے ہیں۔ ایک دن پوچھتے پوچھتے بغیر اپائنٹمنٹ ان کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ ان کے ملازم نے پوچھا کہ کیا ملاقات کا وقت طے ہوا ہے، تو پہلی بار معلوم ہوا کہ سرکردہ افراد سے ملنے کیلئے وقت لینا پڑتا ہے۔ پسینہ سے شرابور میری حالت دیکھ کر اور یہ سن کر کہ میں کشمیر سے وارد ہوا ہوں ، اس نے اندر اطلاع بھیجی اور چند ساعتوں کے بعد مجھے ڈرائنگ روم میں بٹھایا۔
نیئر صاحب کافی محبت سے ملے اور اپنی صحافت کے ابتدائی دنوں کو یاد کرکے میری حوصلہ افزائی کی۔ بس انہوں نے تاکید کی کہ آنے سے قبل فون پر وقت ضرورلے لیا کروں۔ اتوار کی دوپہر ان کے یہاں اچھی خاصی محفل جمتی تھی۔ ان کا حلقہ احبا ب بھی خاصا وسیع تھا۔ پرانے لاہور کے ساتھی، دہلی کا پنجابی حلقہ، ایڈیٹرز، موجودہ وزیر خزانہ ارون جیٹلی سمیت سیاستدان، وکلاء اور صنعت کاروں کا ایک جم غفیر ہوتا تھا۔ اس محفل میں دہلی کے پاور گلیاروں کی گپ شپ، سیاست کی پس پردہ کہانیاں اور کئی سرکردہ افراد کی نجی زندگیوں پر سیر حاصل معلومات ہوجاتی تھی۔
ایک کامیاب اور مایہ نازصحافی ہونے کے باوجود آج کل کے اینکروں اور ایڈیٹروں کے برعکس ان میں تکبر کا شائبہ تک نہیں تھا۔ اپنا کالم لکھنے سے قبل وہ اس موضوع کو کور کرنے والے رپورٹر سے معلومات حاصل کرنے کیلئے ضرور رابطہ کرتے تھے۔ ان کا آخری کالم پچھلے ہفتے آسام میں شہریت کے قضیہ سے متعلق تھا۔ اسپتال میں بھرتی ہونے سے قبل انہوں نے فون پر پوچھا کہ وہ ہماری اس رپورٹر سے بات کرناچاہتے ہیں جو اس موضوع کو کور کر رہی تھی۔ ہم نے اس رپورٹر کو جو خود بھی آسام کی ہی ہے، اس قضیہ کو کور کرنے کیلئے گوہاٹی بھیجاہوا تھا۔ وہ خود کو عقل کل سمجھنے والوں میں نہیں تھے۔
کلدیپ نیئر14 اگست 1923 کو سیالکوٹ میں پیدا ہوئے اور اس مناسبت سے اپنی نسبت علامہ اقبال سے جوڑتے تھے۔ دونوں کے آبائی مکانات کے درمیان کچھ ہی دوری تھی۔ اپنے بچپن میں ان سے ملاقات کا تذکرہ اکثروبیشتر کیا کرتے تھے؛
میں چند ساتھیوں کے ساتھ اسکول سے بھاگ کر علامہ اقبال سے ملنے کے شوق میں ان کی حویلی کے پاس آیا۔ وہ برآمدے میں کام کررہے کچھ ملازمین کوڈانٹ رہے تھے۔ ہم لوگ ان کی تیز آوازسن کر خوف سے جھاڑی میں چھپ کر انہیں دیکھتے رہے۔ ان دنوں علامہ اقبال اپنے وطن سیالکوٹ کبھی کبھی آتے تھے اورپھر انکی حویلی دوسرے بڑے لیڈروں کی آماجگاہ بن جاتی تھی۔
نیئر کے والد ڈاکٹر گربخش سنگھ سیالکوٹ کے مشہورسرجن تھے۔انکے تمام بھائیوں نے ڈاکٹری کی پڑھائی مکمل کی تھی۔ مگرکلدیپ نیئر کو وکالت سے شغف تھا ۔ اس لیے لاہورمنتقل ہوئے اور یہاں راجندر سچر جوکہ بعد میں دہلی ہائی کورٹ کے چیف جسٹس بنے ،سے ملاقات ہوئی ۔ دوستی اتنی بڑھی کہ دونوں نے ایک دوسرے کی بہن سے شادی کرلی۔تقسیم کے وقت جب فسادات پھوٹ پڑے، سیالکوٹ ابھی اسکی لپیٹ میں نہیں آیا تھا مگر ہر دم خدشہ لاحق تھا اور لٹے پٹے ریفیو جیوں کے قافلے آرہے تھے۔
ان کے والد کے ایک رفیق آرمی آفیسر جیپ میں سامان لیکر دہلی جا رہے تھے۔ ایک رات اس نے ان کے والد سے کہا کہ ان کی جیپ میں ایک شخص کی گنجائش ہے وہ ان کے کسی بیٹے کو دہلی چھوڑنے کی پیشکش کر رہے تھے۔ والد نے بڑے بیٹے کو جانے کیلئے کہا، مگر اس نے منع کیا۔ کوئی خاندان کو اکیلے چھوڑ کر جانے کیلئے تیار نہیں تھا۔ ان کے والدنے قرعہ نکالا ، جس میں کلدیپ کا نام نکلا۔ اگلے روز صبح سویرے جیپ میں سوار ہوتے ہوئے کسی کو یقین نہیں تھا کہ دوبارہ منہ دیکھنا نصیب ہوگا۔ راستے میں انسانوں کے وحشی پن، قتل و غارت گری کا براہ راست مشاہدہ کرتے ہوئے رات کے اندھیرے میں دہلی کے فصیل بند شہر کے دہلی دروازہ کے پاس دریا گنج کے مقام پر فوجی افسر نے ان کو اتارا۔
فٹ پاتھ پر کھڑے ہوکر پرائے شہر میں نہ جان نہ پہچان، جائیں تو جائیں کہاں، یہ سوچتے ہوئے سڑک کی دوسر ی طرف کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کے دفتر کے بورڈ پر نظر پڑی۔سیالکوٹ اور لاہور میں بائیں بازو کی سیاست سے ان کا رابط رہا تھا۔ دفتر میں کمیونسٹ پارٹی کی دہلی شاخ کے جنرل سیکرٹری ایم مقیم الدین براجمان تھے۔ نیئر نے ان سے درخواست کی کہ ان کو کسی وکیل کے جونیئر کے بطور ملازمت دلا کر ان کے روزگار کا کچھ بندوبست کریں ۔ مگر مقیم الدین نے ان سے کہا کہ دہلی میں وکالت میں ان کا جمنا مشکل ہے، تاہم ایک اردو اخبار انجام کو سب ایڈیٹر درکار ہے وہ ان کو تعارفی خط دیکر ان کے خرچے کا بندوبست کرسکتے ہیں۔
ایک طرح سے کلدیپ نیئر کی صحافت کا آغاز انجام سے ہوا۔ ڈیڑھ سال وہاں کام کرنے کے بعد پرانی دہلی میں ہی ایک دوسرے اخبار وحدت کی ادارت میں چلے گئے۔ اسی دوران آفس سے متصل ایک کٹیا نما کمرے میں وہ ایک بزرگ شخص کو کھانستے ہوئے دیکھ کر دق ہوتے تھے اور غصہ بھی ہوتے تھے کہ یہ شخص اپنا علاج کیوں نہیں کراتا ہے۔ اس کٹیا میں کتابوں کا انبار بھی لگا ہو ا تھا۔ معلوم ہوا کہ دمہ کے مریض یہ بزرگ کوئی اور نہیں بلکہ مولانا حسرت موہانی ہیں۔ وہ آئین ساز اسمبلی کے رکن بھی تھے۔ آناجانا شروع ہوا۔
ایک دن مولانا نے کہا کہ اردو صحافت کا مستقبل ہندوستان میں مخدوش ہے ۔مشورہ دیا کہ انگریزی میں قسمت آزمائی کرو اورفی الحال ولایت جاکر صحافت کی پڑھائی کرو۔ خاندان والے دہلی آچکے تھے، مگر وہ سیالکوٹ کے ٹھاٹ بھاٹ کہاں، باز آباد کاری کے دشوار کن مرحلے سے گذر رہے تھے۔ مولانا نے امریکہ جانے کیلئے نہ صرف ان کو خرچہ دیا بلکہ نارتھ ویسٹرن یونیورسٹی میں ایڈمیشن کیلئے اسکالرشپ حاصل کروانے میں بھی مدد کی۔ جرنلزم میں ماسٹرس کی ڈگری لیکر جب نیئر لوٹے تو مولانا کا انتقال ہوچکا تھا۔ انگریز ی او ر ولایت کا ٹھپہ لگتے ہی ان کو ہاتھوں ہاتھ لیا گیا۔پہلے پلاننگ کمیشن بعد میں وہ وزیر ریلوے لال بہادر شاستری کے پریس آفیسر مقرر ہوئے ۔
جب شاستری وزیر اعظم بنے تو ان کو بھی وزارت اعظمیٰ آفس ساتھ لیکر گئے۔ 1961میں پریس ٹرسٹ آف انڈیا کے مقابل ایک نئی نیوز ایجنسی یونائیٹڈ نیوز آف انڈیا یعنی یو این آئی کا قیام عمل میں آیا تو اسکے بانی چیف ایڈیٹر و جنرل منیجر مقرر ہوئے۔ بعد میں اس وقت کے صف اول کے انگریزی اخبار اسٹیٹس مین کے دہلی ایڈیشن کے ریذیڈنٹ ایڈیٹر اور پھر لمبے عرصے تک انڈین ایکسپریس کے چیف ایڈیٹر رہے۔ 1975 میں جب وزیر اعظم اندرا گاندھی نے ملک میں ایمرجنسی نافذ کی تو پریس کلب آف انڈیا میں سینہ تان کر مقابلہ کرنے کیلئے کھڑے ہوگئے اور جیل چلے گئے۔
سیالکوٹ کی یادیں ابھی ذہن سے محو نہیں ہوئی تھیں۔ اکثر محفلوں میں تہاڑ جیل میں گذرے دنوں کو یاد کرتے ہوئے کہتے تھے کہ رہائی سے ہفتہ بھر قبل خواب میں سیالکوٹ کا گھر اور ایک نورانی صورت نظر آتی تھی۔ ’وہ میرا ہاتھ پکڑنے کی کوشش کرتے تھے اور اسی کشمکش میں جیل میں گنتی کیلئے آواز لگتی تھی۔ چند روز بعد رہائی کا پروانہ آگیا۔ گھر پر جب یہ واقعہ سنایا ، تو والدہ نے کہا کہ سیالکوٹ میں ان کے گھر کے پچھواڑے میں ایک پیر صاحب کی قبر تھی وہ اسکی صفائی ستھرائی کا خیال رکھتی تھی۔اور کچھ اسی طرح کا خواب وہ بھی کئی روز سے دیکھ رہی ہیں ۔ اب وہ وہاں جانے کیلئے مصر تھیں۔مگر 1980میں ان کا انتقال ہوگیا۔‘‘
چند ماہ بعد دونوں حکومتوں کی رضامندی سے کلدیپ نیئر کو پاکستان جانے کی راہداری ملی۔ لاہور سے ٹرین میں سیالکوٹ کے تین گھنٹے کے سفر میں یادیں اس سے دوگنی رفتار سے گڈمڈ ہورہی تھیں۔ ریلوے اسٹیشن سے باہر آتے ہی ،مانوس فضا، لاریوں اور تا نگوں کی قطاریں، وہی سڑکیں نظر آرہی تھیں۔ اس واقعہ کو یاد کرتے ہوئے وہ کہتے تھے؛کہ
ہوش کس کو تھا، میں پیدل ہی آگے بڑھتا گیا۔ چوک پر ایک حکیم اور لالہ کی دکان ہوتی تھی۔ 1947سے قبل جب لاہور سے آتا تھا تو گھر پہنچنے کی جلدی میں ان کی دکان سے کترا کر چلتا تھا۔ دیکھتے ہی وہ آواز لگاتے تھے۔اوی کلدیپالاہور کی گپ شپ سنا۔ ملک کی سیاست، گاندھی، جناح و نہرو کی مصروفیات وغیرہ کی پوری تفصیلات سننے کے بعد ہی وہ آگے بڑھنے دیتے تھے۔
مگر آج کسی طرف سے کوئی آواز نہیں آرہی تھی ۔ بازار سے گذرتے ہوئے ایک ایک چہرے کو پہچانے کی کوشش کر رہا تھا کہ کوئی پوچھے کہ کلدیپ کب آئے ہو۔ جگہ تو مانوس تھی مگر چہرے نامانوس تھے۔ نیئر کا کہنا تھاکہ پہلی بار ادراک ہوا کہ وطن مٹی، گارے ،پتھر اور سیمنٹ سے بنے کسی ڈھانچے کا نام نہیں، بلکہ زندہ روحوں اور وجودوں سے ملک بنتا ہے۔ آبائی مکان کے پاس پہنچے تو اندھیرا ہو چکا تھا۔ وہ دیوار سے زار و قطار لپٹ کر رو رہے تھے، کہ مکینوں کو کچھ کھٹ پٹ کی آوازیں آئی، اور ان کو پکڑ کر پوچھ گچھ کرنے لگے۔ مگر جب ان کو معلوم ہوا کہ یہ کلدیپ نیئر ہیں، تو عزت و احترام کے ساتھ اندر لے گئے۔ پورا محلہ جمع ہو گیا تھا۔ نیئر نے کہا وہ مکان کے پچھواڑے پیر صاحب کی قبر کی زیارت کرنا چاہتے ہیں۔ مکینوں کو پتہ بھی نہیں تھا کہ وہاں کوئی مزار ہے۔
کشمیر کے بارے میں ان کا اپنا ایک نظریہ تھا، جس سے میرا ان کا ہمیشہ اختلاف رہتاتھا۔انسانی حقوق کے معاملے میں وہ حکومت کو آڑے ہاتھوں تو لیتے تھے، مگر اس کی بنیادی وجہ کو صرف نظر کرتے تھے۔ جنوری 1993میں جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کے صدر یٰسین ملک کا دوران حراست دہلی کے آل انڈیا انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنس میں دل کا بائی پاس آپریشن ہوا۔ آپریشن کے فوراً بعد ہی انہوں نے اسپتال کے انتہائی نگہداشت وارڈ میں ہی کشمیر میں ابتر ہوتی ہوئی صورت حال کے خلاف بھوک ہڑتال شروع کی۔
ان کا مطالبہ تھا کہ حکومت ہندوستان عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل کو کشمیر میں انسانی حقوق کی صورت حال کی جانچ کرنے کی اجازت دے۔ ان کی حالت روز بہ روز بگڑ رہی تھی۔ہندوستانی انٹیلی جنس ایجنسیوں نے کلدیپ نیئر کو تیار کیا کہ وہ ملک صاحب کو سمجھائیں کہ ایمنسٹی کو کشمیر جانے کی اجازت کی ضد چھوڑدیں، اس کے عوض میں ہندوستانی انسانی حقوق کے کارکنوں کو کشمیر میں زیادتیوں کی تحقیق کی اجازت دی جاسکتی ہے۔ مجھے یاد ہے کہ گاندھی پیس فاؤنڈیشن کے ایک کمرے میں پیپلز یونین فار سول لیبرٹیز، اسٹیزنز فار ڈیموکریسی اور پیپلز رائٹس آرگنائزیشن جیسی حقوق انسانی کی تنظیموں کو مدعو کیا گیا تھا۔
نیئر کا کہنا تھا کہ ایک مشترکہ وفد کو کشمیر جاکر حالات کا جائزہ لینا چاہئے۔ میں نے اور مرحوم ایڈوکیٹ سالار محمد خان اور پروفیسر اروبندو گھوش نے اسکی شدت کے ساتھ مخالفت کی ۔ ہمارا خیال تھا کہ اسوقت ہندوستان بری طرح عالمی دباؤ کا شکار تھا اور تھوڑ ی اور کوشش سے ایمنسٹی کو کشمیر جانے کی اجازت مل سکتی ہے اور نہ بھی ملے تو اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ادارے میں اسکی سرزنش کی گنجائش ہے۔ یاد رہے کہ اسووقت ہندوستانی معیشت کی حالت خستہ تھی ۔ سرکاری خزانے میں سونا تک مغربی ممالک میں گروی رکھا جا چکا تھا۔ اس کا بہترین دوست سویت یونین ٹوٹ کر بکھر چکا تھا۔اور آخر خفیہ ایجنسیوں کو انسانی حقوق سے کیا لینا دینا کہ وہ ہماری پذیرائی کرنے کیلئے تیار ہیں۔ خیر ہم نے اس وفد سے اپنے آپ کو علیحیدہ کر دیا۔
جسٹس سچر اور کلدیپ نیئر یٰسین ملک سے ملنے اسپتال پہنچے اور ان کو یقین دلایا کہ ان کی رپورٹ ایمنسٹی کی رپورٹ کی ہی طرح غیر جانبدار ، معروضی اور معتبر ہوگی اور جوس پلا کر ان کی بھوک ہڑتال ختم کروائی۔ یہ وفد آخر کار مئی 1993کو کشمیر میں وارد ہوا۔ اس وفدنے کشمیر میں انٹیروگیشن سینٹروں میں ایذیتوں اورحراستی اموات پر ایک مفصل رپورٹ جاری کی۔ اسی وقت سرینگر میں جموں و کشمیر پولیس نے اپنے ایک ساتھی ریاض احمد، جو ایک فٹبالر بھی تھا ، کی موت کے خلاف اسٹرائک کی تھی۔
ریاض ، جموں سے سرینگر آرہا تھا، کہ فوج نے تلاشی کی ایک کارروائی کے دوران اسکو مار دیا ۔ رپورٹ کے مطابق پولیس کا شناختی کارڈ بھی اسکو بچا نہیں پایا۔تقریباً1500پولیس اہلکاروں اور افسران نے اقوام متحدہ کے دفتر تک مارچ کرکے ، پولیس کنٹرول روم پر قبضہ کیا تھا۔ گفت و شنید کے بعد با لآخر فوج نے کنٹرول روم کو اپنی تحویل میں لیکر کئی پولیس اہلکاروں کو حراست میں لیا۔ جب اہلکاروں سے ہتھیار رکھوائے جا رہے تھے تو بی ایس ایف نے فائرنگ کرکے تین اہلکاروں کو ہلاک کرکے معاملہ اور پیچیدہ کروایا۔
جب اس رپورٹ کو پاکستان کے وزراء خارجہ صدیق خان کانجو، عبدالستار، فاروق لغاری اور آصف احمد علی نے بین الاقوامی فورمز پر خوب اچھالا، تو کلدیپ نیئر معنی خیز نظروں سے ہمیں بتانے کی کوشش کر رہے تھے کہ شاید ایمنسٹی کی رپورٹ بھی اس قدر قابل اعتبار نہیں ہوتی، جتنی ہندوستان کے اندر انسانی حقوق کے مقتدر کارکنان کی ہے۔ اس کے سال بھر بعد اس رپورٹ کی وجہ سے جنیوا میں انسانی حقوق کمیشن میں ہندوستان کی ایسی درگت بنی کہ اگر ایران اس نازک مرحلے میں عین وقت پر ساتھ نہیں چھوڑتا تو سلامتی کاؤنسل کی طرف سے ہندوستان پر اقتصادی پابندیاں عائد ہوگئی ہوتی۔
ہندوستانی وزیر اعظم نرسمہاراؤ نے اس مشکل سے نکالنے کیلئے نہ صرف اپوزیشن لیڈر اٹل بہاری واجپائی کو جنیوا وفد کا سربراہ بنا کر بھیجا، بلکہ اس سے قبل بستر مرگ پر پڑے اپنے وزیر خارجہ دنیش سنگھ کو انتہائی خفیہ مشن پر طہران روانہ کیا۔ کلدیپ نیئر کی صحافت کا آغاز’ انجام‘ اخبار سے تو ہوا تھا ، مگر اب ایک عرصہ سے سنڈیکیٹ جرنلزم (Syndicated Journalism) کے ذریعہ 14زبانوں میں انکا ’بین السطور‘ کالم دنیاکے ایک سوسے زائد اخبارات میں شائع ہورہا تھا۔ وہ راجیہ سبھا کے ممبر بھی رہے۔
وی پی سنگھ حکومت کے زمانے میں برطانیہ میں ہندوستان کے ہائی کمشنر بھی رہے اوراس دوران اپنے ذوق کے مطابق برصغیر کی آزادی سے متعلق مواد کو لندن میں خوب کھنگالا۔انہو ں نے وہاں سے ایک بار اپنے ایک دوست اے یو آصف کو ایک خط کے جواب میں تحریر کیا کہ ’’ میں تمہارے اس ریمارک سے جھوم اٹھا کہ تم چاہتے ہو کہ میں جلد لکھنے لکھانے کی طرف واپس آجاؤں۔ انشاء اللہ ، میں ایسا ہی کروں گا‘‘۔ اور پھر وہ ہائی کمشنری کو الوداع کہہ کر واپس آگئے اور صحافت کو پھر سے فیض یاب کرنے لگے اور تاحیات کیا۔
انہو ں نے تقریباً 15کتابیں بھی لکھیں جن میں ’ انڈیا دی کرٹیکل ایئرز‘ اور ’ ڈسٹینٹ نیبرز- بر صغیر کی کہانی‘(Distant Neighbours – A tale of the subcontinent) قابل ذکر ہیں۔ ایمرجنسی پر بھی انکی کتاب ’دی ججمنٹ ‘ بہت مشہور ہوئی۔علاوہ ازیں چند برسوں قبل اپنی زخیم آپ بیتی ’بی آنڈ دی لائینز‘ (Beyond the lines)بھی لکھی ۔یہ حقیقت ہے کہ کلدیپ نیئر کے رخصت ہونے سے صحافت اور علمی دنیا یتیم ہوگئی ہے۔ وہ سیکولر اورجمہوری اقدار کے امین تھے اور دہلی میں خاص طور پر اردو سے متعلق محفلوں کی جان ہوتے تھے۔
Categories: فکر و نظر