انٹرویو: میرا استحصال کرنے والے شخص تھے قادر مطلق کے پی ایس گل، جو کہ 1988 میں پنجاب کے پولیس ڈائریکٹر جنرل تھے۔مجھے اکیلے میں من بھر رو لینے اور آگے بڑھنے کی نصیحت دی گئی۔
می ٹو مہم کی دھمک ملک بھر میں سنائی دے رہی ہے اور یہ لوگوں میں غصے کو جنم دے رہی ہے۔یہ بھی پہلی بار ہے کہ بے خوف طریقے سے ایک کے بعدایک جنسی استحصال کرنے والوں کے دلوں میں ایک ڈر سما رہا ہے۔ان سب کے درمیان ایک عورت چنڈی گڑھ واقع اپنی رہائش گاہ سے ان سب کو کافی اطمینان کے ساتھ دیکھ رہی ہے۔ریٹائر آئی اے ایس افسر روپن دیول بجاج کو اس بات کی خوشی ہے کہ 30 سال بعد ان کا جنسی استحصال کرنے والے ایک طاقت ور مرد کو سزا دلانے کے لئے ان کی ساڑھے سترہ سال لمبی جدو جہد کی گونج سوشل میڈیا کی کہانیوں میں سنائی دے رہی ہے۔
ان کا استحصال کرنے والے شخص تھے قادر مطلق کے پی ایس گل، جو کہ 1988 میں پنجاب کے پولیس ڈائریکٹر جنرل تھے۔جن دنوں ان کی پولیس دہشت گردی کے خلاف لڑائی لڑ رہی تھی، ان دنوں وہ ‘بےلگام طاقت ‘کے ادراک اور غرور سے بھرے ہوئے تھے۔دی وائر کو دئے گئے ایک انٹرویو میں بجاج نے کہا،آج بولنے والی عورتوں کی ایک جماعت ہے۔جب میں نے مسٹر گل کے سلوک کے بارے میں شکایت کی،اس وقت میں اکیلی تھی اور میرے اوپر جان سے مارنے، کردار کشی، سزا کے طور پر خراب پوسٹنگ دئے جانے اور ایک لعنت بھرے کیریئر کا خطرہ تھا۔ ‘
کام کرنے کی جگہ پر جنسی استحصال کی کہانیاں کہنے والی عورتوں کو آپ کے معاملے سے کیا سیکھ مل سکتی ہے؟
میں نےتعزیرات ہند (آئی پی سی)کی تقریباً فرسودہ اور قدیم دفعہ 305 اور 509 کے تحت انصاف حاصل کیا۔1860کے بعد ان دفعات کے تحت کوئی بھی معاملہ دائر نہیں کیا گیا تھا۔ان دفعات کو اکثر ریپ کی دفعہ 376 یاریپ کی کوشش کی دفعہ کے ساتھ نتھی کر دیا جاتا ہے، لیکن کبھی بھی ان کا استعمال اکیلے نہیں کیا جاتا ہے۔ایسا اس لئے ہے، کیونکہ ان دفعات کے تحت آنے والے جرم اتنے معمولی مانے جاتے ہیں کہ ان کو ایک عدد ایف آئی آر کے لائق بھی مانا ہی نہیں جاتا ہے۔بہت دھکے کھاکر مجھے اس بات کی جانکاری ملی۔لیکن وہ عورت کے وقار اور عزت پر حملہ ہے اور ان کو تاعمر دھچکہ دے سکتا ہے۔
ریپ دفعہ 376 کے تحت آتا ہے، لیکن ساری عورتیں اس کا شکار نہیں ہوتیں۔میرا ماننا ہے کہ آئی پی سی کی دفعات 354 اور 509 کے تحت آنے والی دفعات اپنی فطرت میں آفاقی ہیں اور ہر عورت اپنی زندگی میں کم سے کم 5 یا 6 بار اس کا سامنا کرتی ہے۔آرٹیکل 509 کا تعلق عورت کے وقار کو ٹھیس پہنچانے والے الفاظ، سلوک یا سرگرمی سے ہے اور دفعہ 354 کسی عورت کے تقدس کو پامال کرنے کے ارادے سے کئے گئے حملے یا مجرمانہ طریقے سےطاقت کے استعمال سے منسلک ہے۔
یہ اہتمام جسمانی حملے سے مختلف ہیں، لیکن یہ صرف عورتوں کے خلاف ہونے والے جرائم سے جڑے ہوئے ہیں، کیونکہ اس میں تقدس/وقارکا ایک عنصر جڑا ہوا ہے۔اس لئے ایسے سارے مرد جن کو یہ لگتا ہے کہ غیرمطلوب شہوت انگیز اشارے یا فحش باتیں کرنا کوئی جرم نہیں ہے، انہیں خبردار ہو جانا چاہیے۔سپریم کورٹ نے 12 اکتوبر، 1995 کو اس زمرے میں میرے خلاف جرم کو منظور کیا اور اس کو مجرمانہ فعل قرار دیا۔
ایسا کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے ہائی کورٹ کے اس فیصلے کو خارج کر دیا،جس نے آئی پی سی کی دفعہ 95 کے تحت اس مقدمہ کو خارج کر دیا تھا،جس کے مطابق یہ معاملہ اتنا معمولی تھا کہ اس کو جرم کے زمرے میں رکھکر اس پر غور نہیں کیا جا سکتا تھا۔سپریم کورٹ نے یہ تجویز دی کہ آئی پی سی کی دفعہ 95 کا استعمال عورت کی شرم کو پامال کرنے سے متعلق معاملوں میں سہارے کے طور پر نہیں کیا جا سکتا ہے، کیونکہ یہ معمولی معاملے نہیں ہیں۔
جولائی، 1988 کی اس شام کے بارے میں بتائیے، جب آپ کے ساتھ یہ واقعہ پیش آیا تھا۔
پنجاب کے ہوم سکریٹری کے گھر پر ایک آفسیل پارٹی تھی، جس میں مسٹر گل اپنی وردی میں موجود تھے۔ پنجاب کی اعلیٰ نوکرشاہی وہاں موجود تھی۔مسٹر گل نے مجھے بلایا اور مجھے اپنی بغل والی کرسی پر بیٹھنے کے لئے کہا۔ میں وہاں گئی اور وہاں بیٹھنے ہی والی تھی کہ انہوں نے کرسی اپنے پاس کھینچ لی۔ مجھے لگا کہ کچھ ٹھیک نہیں ہے، تو میں اس گروپ میں واپس چلی گئی، جہاں میں پہلے بیٹھی ہوئی تھی۔
دس منٹ کے بعد وہ آئے اور میرے اتنے پاس آکر کھڑے ہو گئے کہ ان کے پیر میرےگھٹنوں سے محض چار انچ کی دوری پر تھے۔انہوں نے اپنی انگلی سے اشارہ کرتے ہوئے مجھے کہا، ‘اٹھو اور میرے ساتھ آؤ۔ ‘میں نے پوری مضبوطی کے ساتھ ان کے سلوک پر اعتراض کرتے ہوئے کہا، ‘مسٹر گل،آپ کی ہمت کیسے ہوئی!آپ قابل اعتراض سلوک کر رہے ہیں۔یہاں سے چلے جائیے۔ ‘اس پر انہوں نے اپنی بات حکم دینے کے لہجے میں دوہرائی اور کہا، ‘تم اٹھو!فوراً اٹھو اور میرے ساتھ آؤ۔ ‘
میں نے دوسری عورتوں کی طرف دیکھا۔وہ سب حیران اور ششدر تھیں۔میں متذبذب اور ڈری ہوئی تھی، کیونکہ انہوں نے میرا راستہ روک رکھا تھا اور میں ان کے جسم کو چھوئے بنا اپنی کرسی پر سے نہیں اٹھ سکتی تھی۔میں نے تب اپنی کرسی کو فوراً ڈیڑھ فٹ پیچھے دھکیلا اور اپنی اور دوسری عورت کی کرسی کے درمیان کی جگہ سے باہر نکلنے کے لئے مڑ گئی۔اس پر انہوں نے میرےہپ پر ہاتھ مارا۔یہ وہاں موجود عورتوں اور مہمانوں کی آنکھوں کے سامنے کیا گیا۔
اس بات کامجھے بعد میں پتا چلا کہ جہاں میں بیٹھی تھی، وہاں سے زیادہ تر عورت اس لئے اٹھکر چلی گئی تھیں کیونکہ انہوں نے ان کے ساتھ بھی بد سلوکی کی تھی۔خاص طور پر انگلینڈ سے آئی ایک جوان ڈاکٹر کے ساتھ۔انہوں نے (مسٹر گل نے)اس کے ساتھ کہیں زیادہ برا سلوک کیا تھا اور وہ اندر ہی اندر رو رہی تھی۔ لیکن نہ تو اس نے اور نہ ہی اس کی ماں نے، جو وہاں موجود تھی، اس شام اس کے ساتھ جو ہوا تھا اس کی شکایت کی۔
مجھے یہ معلوم تھا کہ جب وہ اپنے لئے ہی نہیں کھڑی ہو رہی ہیں، تو وہ میرے حق میں بھی گواہی نہیں دیںگی۔ کسی عورت کے ساتھ ایسے کسی واقعہ کو شرمناک مانا جاتا ہے، جس کو چھپانا ہی بہتر سمجھا جاتا ہے۔ایسا تب بھی تھا، ایسا آج بھی ہے۔میں سیدھے ہوم سکریٹری کے پاس گئی، جو اس پارٹی کے میزبان بھی تھے اور مسٹر گل کے باس بھی تھے۔میں نے ان سے کہا،’آپ نے کس طرح کے لوگوں کو دعوت دے رکھی ہے؟ ‘
جب میں ان کی شکایت کر رہی تھی، تب گل وہیں کھڑے تھے۔ ان کے چہرے پر کسی طرح کے افسوس کا کوئی تاثر نہیں تھا اور اس وقت تک ہر کسی کو یہ پتا چل چکا تھا کہ انہوں نے دوسری عورتوں کو بھی پریشان کیا ہے اس لئے سب نے ملکر ان کو گھر بھیجنے کے لئے کار میں بٹھا دیا۔مجھے یاد ہے کہ کس طرح سے میں یہ دیکھکر حیران رہ گئی تھی کہ اس وقت تک آم کے درخت میں چھپکر بیٹھے ان کی حفاظت میں تعینات کمانڈو اچانک پتوں کے جھرمٹوں سے تیزی سے نکلے اور ان کی گاڑی کے پیچھے ہو لئے۔
سالوں بعد تک ہوم سکریٹری کو اس شام ہوئے واقعات کی تصدیق کرنے کے لئے سمن کیا گیا، تب انہوں نے کورٹ کو یہ نہیں بتایا کہ میں نے اس واقعہ کے چند منٹوں کے اندر ہی کے پی ایس گل کی موجودگی میں ہی اپنی شکایت کو دوہرائی تھی۔ گل اس وقت لڑکھڑاتے ہوئے میرے کہے ہوئے ہر لفظ کو سن رہے تھے۔
آپ ایک سینئر آئی اے ایس افسر، پنجاب حکومت میں اسپیشل سیکرٹری اور اپنے آپ میں ایک طاقت ور عورت تھیں۔ لیکن پورا انتظامیہ آپ کے خلاف ہو گیا۔ لوگوں نے آنکھیں پھیر لیں۔
آپ کو پتا ہے، میں اصل میں پولیس میں اور کورٹ میں اس معاملے کو لےکر جانا نہیں چاہتی تھی میں چاہتی تھی کہ حکومت ضابطہ اخلاق کے تحت اخلاقی بد عنوانی کے لئے ان کے خلاف کارروائی کرے۔لیکن، اس وقت کے گورنر ایس ایس رے سے لےکر چیف سکریٹری آر ایس اوجھا تک نے مجھ سے کہا کہ وہ کچھ نہیں کریںگے۔چیف سکریٹری نے مجھے کہا، ‘روپن، ایسی چیزیں ہوتی رہتی ہیں۔ اس سے تم چھوٹی نہیں ہو گئی۔تم اپنے آپ کو خوش قسمت سمجھو، چیزیں اس سے بھی خراب ہو سکتی تھیں۔ ‘
گورنر ایس ایس رے نے مجھے بہت واضح طریقے سے اس کو بھول جانے اور اپنے گھر جانے کے لئے کہا۔انہوں نے اپنے ہاتھ کھڑے کر دئے۔ یہاں تک کہ میں نے اس وقت پی ایم او میں سکریٹری سرلا گریوال کے پاس بھی گئی۔ان ساری چیزوں نے مجھے پہلے سے بھی زیادہ غصہ سے بھر دیا۔میں اس کو میڈیا سے دور رکھ رہی تھی، لیکن جس دن میں رے سے ملی، اس کے اگلے دن ممبئی کے ایک اخبار انڈین پوسٹ نے یہ کہانی چھاپ دی۔
جب ساری کوشش ناکام ہو گئیں، تب میں اس معاملے کے دس دنوں کے بعد آخری راستے کے طور پر پولیس کے پاس گئی۔انسپکٹر جنرل آف پولیس،جنہوں نے پارٹی میں موجود ہونے کے ناطے ساری چیزیں دیکھی تھیں،نے میری شکایت درج کی اور مجھے مقدمہ درج کرنے کی رسید دی۔اس کے بعد انہوں نے اس کو ایک لفافے میں بند کرکے اس کو مہر بند کر دیا۔جب میں نے ان سے پوچھا کہ آپ نے اس کو مہر بند کیوں کر دیا ہے، تو انہوں نے کہا، ‘آپ کی شکایت کو درج کرنا میرا فرض ہے، جو کہ میں نے کیا ہے، لیکن اس کے بعد میں اس کے ساتھ کیا کروں، یہ پوری طرح سے آپ کے اوپر ہے۔
ہم اس کی جانچ تبھی کریںگے، جب آپ اس کے لئے کورٹ سے حکم لے کر آئیںگی۔اور انہوں نے کافی فخریہ انداز سے کہا کہ ان کی کارروائی سے ایک طرح سے میرے وقار کی حفاظت ہوگی۔میں نے انڈین ایکسپریس کو ایف آئی آر کی ایک کاپی دی، کیونکہ میں چاہتی تھی کہ پورے واقعے پر میری بات سامنے آئے، نہ کہ اس کو لےکر چاروں طرف آدھے سچ بولے جائیں۔ مجھے گل پر مقدمہ چلانے کے لئے سپریم کورٹ سے ہدایت حاصل کرنے میں 7 سال لگ گئے۔
اس معاملے نے آپ کی نجی اور پیشہ وارانہ زندگی کو کس طرح سے متاثر کیا؟
میں حکومت کو کارروائی کرنے کے لئے منانے کے لئے چاروں طرف چکر لگا رہی تھی، تب میرے اندر ایک مسلسل ڈر بنا ہوا تھا کہ یہ سب لوگوں کے سامنے نہیں آنا چاہیے۔ میں میڈیا کوریج نہیں چاہتی تھی۔یہ ایک طرح سے وہ سوشل کنڈیشننگ ہے، جس کے ساتھ ہم بڑے ہوتے ہیں۔اصلی کھیل تب شروع ہوتا ہے، جب آپ آخرکار سب کچھ ایک ایف آئی آر میں لکھ دیتی ہیں۔یہاں تک کہ میری بےحد تعلیم یافتہ ماں نے بھی ایف آئی آر دائر نہ کرنے کی صلاح دی۔ مجھے اکیلے میں من بھر رو لینے اور آگے بڑھنے کی نصیحت دی گئی۔
ایک بار جب میں نے ایف آئی آر لکھ لیا اور اس کو پولیس اور میڈیا کو دے دیا، تب میں نے خود کو دنیا کو اس واقعہ کے بارے میں پتا لگ جانے کے ڈر سے آزاد اور ہلکا محسوس کیا۔میں ایک مضبوط عورت تھی لیکن سسٹم اور سماج مجھے کمزور بنانے کے لئے سازش کر رہے تھے۔ مجھے اور میری فیملی کو جان سے مارنے کی دھمکی ملی۔ لوگ فون کرتے اور کہتے کہ تو لاپتہ ہو جائےگی اور کسی کو پھر کبھی تمہارے بارے میں کوئی سراغ تک نہیں ملےگا۔
یاد کیجئے یہ 80 کی دہائی کا پنجاب تھا، پراسرار طریقے سے غائب ہو جانا ان دنوں عام تھا۔
آپ کے ذریعے راستہ بنانے کے 30 سال بعد آج بھی عورتوں کے لئے یہ آسان نہیں ہے …
کئی عورتوں کو باہر آتے اور اپنی اذیت کے بارے میں بات کرتے دیکھنا بے حداطمینان بخش ہے۔ان میں سے کئی ایسے اپنے استحصال کے کئی سالوں کے بعد کہہ رہی ہیں۔کسی بھی طرح کی غلط فہمی میں مت رہیے،ایسا کرنا کسی بھی عورت کے لیے سب سے مشکل اور ہمت سے بھرا کام ہے اور جب وہ آخرکار بولنے کا فیصلہ کرتی ہے، تو کوئی بھی اس پر شک نہیں کر سکتا ہے۔ڈونالڈ ٹرمپ کہہ رہے ہیں،’یہ مردوں کے لئے سب سے ڈراونا وقت ہے۔ ‘میرا کہنا ہے کہ یہ صرف ان کے لئے ڈراونا وقت ہے، جو سالوں سے ایسا بے خوف ہوکر کر رہے تھے۔
آبادی کے 50 فیصد کی تعمیر کرنے والی عورتیں #می ٹو کہانیوں پر اس لئے یقین کر رہی ہیں کیونکہ وقت کے کسی نہ کسی پڑاؤ پر ان میں سے زیادہ تر عورتوں کے ساتھ اس سے ملتے جلتے تجربے ہوئے ہیں۔یہ ان کے اپنے تجربات سے ملتا جلتا ہے۔سماج کے زیادہ تر مرد اچھے ہیں، لیکن ہمیں معلوم ہے کہ ایک سچ یہ بھی ہے۔
می ٹو کی لڑائی لڑ رہی عورتوں کو کیا کہنا چاہیں گی؟
میرے معاملے نے ایک مثال قائم کی، جو ان سب کی مدد کرےگا۔ ایک تبدیلی یہ آئی ہے کہ عورتوں پر یقین کیا جا رہا ہے۔ان کو پیچھے نہیں ہٹنا چاہیےاور اگر ایم جے اکبر اور دیگر ان کو کورٹ لےکر جانے کی دھمکی دیتے ہیں، تو ان کو ملکر یہ لڑائی لڑنی چاہیے ؛ لیکن ان کو کسی بھی صورت میں سمجھوتہ نہیں کرنا چاہیے۔پہلی بات، عدالت نے پہلی بار میرے معاملے میں’تقدس/وقار’کو واضح کیا، جس طرح یہ آئی پی سی کی ان دو دفعات پر نافذ ہوتا ہے۔
دوسری بات عدالت نے یہ تجویز دی ہے کہ ایسے معاملوں کو ثابت کرنے کے لئے ایک گواہ بھی کافی ہے، بشرطیکہ وہ سچ بول رہا ہو۔تیسری بات،ہر جرم میں استغاثہ کو ملزم کے مقصد کو ثابت کرنا ہوتا ہے۔لیکن یہاں یہ سسٹم دیا گیا کہ مقصد کو ثابت کرنا ضروری نہیں ہے۔صرف ناشائستہ طریقے سے سلوک کرنے کی جانکاری کسی آدمی پر مقدمہ چلانے کے لئے کافی ہے۔چوتھی بات، عدالت نے سماعت پورا کرنے کے لئے 6 مہینے کی معینہ مدت طےکی ہے، تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ متاثرین کو لمبے چلنے والے مقدمات سے پست نہ کیا جا سکے۔
اب یہ فرق ہے کہ ان میں سے کسی بھی عورت کو مردوں کو عدالت میں لےکر جانے کی ضرورت نہیں ہے۔ان کے ذریعے سوشل میڈیا پر اپنی بات کہنے کی جرأت ہی اس بات کے لئے کافی ہے کہ ہرکوئی ان پر یقین کرے۔یہ سچائی کا اکلوتا سب سے اہم ثبوت ہے۔ اگر ملزم مرد عدالت جاتا ہے، تو میرے معاملے کی مثال سے ان کو وہاں اپنی لڑائی لڑنے کے لئے کافی مدد ملےگی۔
(چندر سُتا ڈوگرا صحافی اورقلمکار ہیں۔ )
Categories: فکر و نظر