گزشتہ 30 نومبر کو ریٹائر ہوئے جسٹس جوزف نے 12 جنوری کو کیے پریس کانفرنس کے سیاق میں کہا کہ انھوں نے کورٹ کے مسائل کے بارے میں سابق چیف جسٹس دیپک مشرا کو بتایا تھا۔ لیکن جب کوئی حل نہیں نکلا تو میڈیا کے سامنے آنا پڑا۔
نئی دہلی: حال ہی میں ریٹائر ہوئے سپریم کورٹ کے جج کرین جوزف نے کہا ہے کہ جب دیپک مشراملک کے چیف جسٹس تھے ،اس وقت سپریم کورٹ صحیح سمت میں نہیں جا رہا تھا۔ نیوز ایجنسی اے این آئی نے یہ رپورٹ کی ہے۔ جسٹس کرین جوزف ،جسٹس جے چیلمیشور اور جسٹس مدن بی لوکور نے گزشتہ 12 جنوری کو پریس کانفرنس کر کے سپریم کورٹ کی خود مختاری پر سوال اٹھایا تھا اور کہا تھا کہ جمہوریت خطرے میں ہے۔
اس وقت چاروں ججوں نے کہا تھا،’ اگر سپریم کورٹ کو نہیں بچایا جاتا ہے تو جمہوریت بھی نہیں بچے گی۔’ ججوں نے دیپک مشرا کے ذریعے سپریم کورٹ میں کیس کے مختص میں گڑبڑی اور بے حد سنگین معاملوں کو چھوٹے ججوں کو دینے کا الزام لگایا تھا۔واضح ہو کہ گزشتہ 30 نومبر کو جسٹس جوزف ریٹائر ہو گئے۔ انھوں نے کہا،’ ہم نے اس طرف اشارہ کیا تھا کہ سپریم کورٹ صحیح سمت میں نہیں جا رہا تھا۔ ہم نے اس وقت کے چیف جسٹس (دیپک مشرا)کے سامنے ان باتوں کو رکھا تھا حالانکہ اس کا کوئی حل نہیں نکلا ۔ ہم نے سوچا کہ ملک کے سامنے ان باتوں کو رکھنے کے علاوہ اور کوئی آپشن نہیں ہے۔’
جسٹس جوزف نے آگے کہا ،’ ایک دوسری وجہ بھی تھی۔میرا ماننا ہے کہ دو طریقے کے واچ ڈاگ ہوتے ہیں۔ اس میں سے ایک میڈیا ہے۔ ہم نے اس لیے پریس کانفرنس کی تاکہ لوگوں کو پتا چلے کہ ہم نے ہر ممکن کوشش کی تھی۔ بھونکنے کے بعد بھی مالک سوتا رہا۔ اس لیے ہم نے کاٹنے کا فیصلہ کیا۔ اس دن کے بعد سے چیزیں ٹھیک ہوئی ہیں۔
کرین جوزف سینئرٹی کے معاملوں میں چاروں ججوں میں سے تیسرے نمبر پر تھے۔ انھوں نے کہا،اداراتی پروسیس اور روایات کو قائم کرنے کی ضرورت ہے۔ اس میں وقت لگے گا۔’ جسٹس جوزف نے کہا کہ ان کو پریس کانفرنس کرنے کا کوئی پچھتاوا نہیں ہے۔ عدلیہ میں بد عنوانی کے سوال پر جسٹس جوزف نے کہا کہ یہ الزام بھی ثابت نہیں ہوئے ہیں۔ انھوں نے کہا ،’ میں اس سے متفق نہیں ہوں کہ اعلیٰ عدلیہ میں بد عنوانی ہے۔ اگر یہ نچلی عدلیہ میں ہے تو یہ ریاست کی فکر ہے۔ اعلیٰ عدلیہ میں، یہ میرے نوٹس میں نہیں آیا ہے۔’
Categories: خبریں