مرکزی حکومت نے راجیہ سبھا میں یہ بھی واضح کیا ہے کہ ملک بھر میں پبلک سیکٹر کے بینکوں کے 50 فیصدی اے ٹی ایم بند کرنے کا کوئی منصوبہ نہیں ہے۔ ساتھ ہی نوٹ بندی کے بعد چھاپے گئے 2000 روپے اور 500 روپے کے نئے نوٹوں کے خراب معیار کو حکومت نے خارج کیا۔
نئی دہلی : مرکز کی مودی حکومت نے منگل کو اس بات سے انکار کیا کہ وہ چلن سے باہر ہو گئے اور عوام کے پاس بچے 500 اور 1000 روپے کے نوٹوں کو واپس لینے پر غورکر رہی ہے۔ ریاستی وزیر خزانہ پی رادھاکرشنن نے ایک سوال کے تحریری جواب میں راجیہ سبھا کو یہ جانکاری دی۔ وشمبھر پرساد نشاد، سکھرام سنگھ یادو اور چھایا ورما نے سوال کیا تھا کہ کیا یہ سچ ہے کہ نوٹ بندی کی حدبندی کے بعد بھی عام لوگوں کے پاس چلن سے باہر ہو گئے نوٹ پڑے ہیں اور اس کا استعمال نہیں ہونے سے لوگ مایوس ہیں۔
اس کے جواب میں رادھاکرشنن نے کہا، ‘ اس مدعے پر کوئی واضح تبصرہ کرنا مشکل ہے۔ حالانکہ بینک سے نوٹوں کی ادلا-بدلی کے لئے ہمیں کچھ درخواست حاصل ہوئی ہیں۔ ‘ حکومت نے منگل کو اس بات سے صاف انکار کیا ہے کہ نوٹ بندی کے بعد چھاپے گئے 2000 روپے اور 500 روپے کے نئے نوٹ دو سال کے اندر ہی کاغذات کے خراب معیارکی وجہ سے بیکار ہو گئے۔
حکومت نے اس بات سے بھی انکار کیا کہ اے ٹی ایم کے سینسر ان نوٹوں کی پہچان نہیں کر پاتے ہیں۔ مالیاتی ریاستی وزیر پی رادھاکرشنن نے روی پرکاش ورما اور نیرج شیکھر کے سوال کے تحریری جواب میں راجیہ سبھا کو یہ جانکاری دی۔ انہوں نے کہا کہ نئے بینک نوٹوں کی عام عمر ہونے کی امید کی جاتی ہے کیونکہ 2016 کی سریز کے بینک نوٹوں کے لئے استعمال کی مشینیں، مینوفیکچرنگ کے عمل اور کچا مال، سکیورٹی خصوصیات وغیرہ وہی ہیں جو گزشتہ سریز میں استعمال کی گئی تھیں۔ کچے مال کے تحت کاغذ، سیاہی وغیرہ آتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ نئے نوٹوں کے ڈیزائن کے کچھ عنصر بدل گئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اے ٹی ایم کے ذریعے نئے نوٹوں کی پہچان نہیں کرنے کا سوال نہیں اٹھتا۔ غور طلب ہےکہ ایک میڈیا رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ نوٹ بندی کے بعد چھاپے گئے نئے نوٹ دو سال بعد ہی چلن سے باہر ہونے لگے ہیں۔ دو ہزار اور 500 کے نوٹ کے علاوہ حال ہی میں آئے چاکلیٹی رنگکے 10 روپے کے نئے نوٹ پر بھی یہ خطرہ منڈلانے لگا ہے۔
امر اجالا کی رپورٹ کے مطابق، دراصل نئے نوٹوں کے کاغذ کی کوالٹی پرانے نوٹوں سے کافی خراب ہے اس لئے یہ نوٹ جلدی خراب ہونے لگے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق، اس کے مدنظر بینکوں نے ان نوٹوں کو جاری نہیں کرنے لائق (نان ایشیوبل) کے زمرہ میں ڈالکر چلن سے باہر کرنا شروع کر دیا ہے۔واضح ہو کہ سال 2016 میں 8 نومبر کی رات آٹھ بجے وزیر اعظم نریندر مودی نے نیوز چینلوں اور ریڈیو پر ملک کو خطاب کرتے ہوئے اعلان کیا تھا کہ 500 اور 1000 روپے کے نوٹ فوری اثر سے چلن کے باہر ہو جائیںگے۔ ان کی جگہ نئے نوٹ لائے جائیںگے۔
غور طلب ہے کہ مودی حکومت کےاس فیصلے کے بعد ملک بھر میں پرانے نوٹوں کو بینکوں میں جمع کرانے کی افرا تفری مچ گئی تھی۔ کئی مہینوں تک ملک بھر میں لگے اے ٹی ایم کے باہر پیسوں کے لئے لمبی-لمبی قطاریں لگتی تھیں۔ اس کے علاوہ بند ہو چکے نوٹوں کو بینکوں میں جمع کرنے کے لئے لوگوں کو کافی پریشانی کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ ابھی حکومت نے مانا ہے کہ نوٹ بندی کے دوران چار لوگوں کی موت ہوئی تھی۔
بی جے پی کی قیادت والی حکومت اس قدم کا بچاؤ کرتے ہوئے کہتی رہی ہے کہ غیر قانونی کرنسی، کالے دھن اور دہشت گردی جیسے مسائل پر روک لگانے کے لیے یہ ضروری تھا۔جبکہ کانگریس سمیت حزب مخالف جماعتوں کے کئی رہنما اس کو گھوٹالہ بتا چکے ہیں۔
حکومت نے منگل کو راجیہ سبھا میں بتایا کہ ملک بھر میں تقریباً 50 فیصدی اے ٹی ایم بند کرنے کا کوئی منصوبہ نہیں ہے۔ کانگریس ممبر موتی لال وورا کے ایک سوال کے تحریر ی جواب میں مالیاتی ریاستی وزیر شیوپرتاپ شکل نے راجیہ سبھا کو بتایا، ‘ پرائیویٹ سیکٹر کے بینکوں (پی ایس بی) کے ذریعے دی گئی جانکاری کے مطابق، اپنے اے ٹی ایم کو بند کرنے کا ان کا کوئی منصوبہ نہیں ہے۔ ‘ وورا نے حکومت سے سوال پوچھا تھا کہ کیا مارچ 2019 سے ملک بھر میں تقریباً 50 فیصدی اے ٹی ایم بند ہو جائیںگے۔
(خبر رساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)
Categories: خبریں