راہل گاندھی کے بارے میں ابھی تک رائے نہیں بدلی ہے۔ ان کو اب بھی یہ ثابت کرنا ہے کہ وہ نریندر مودی کےمتبادل ہیں۔
گزشتہ 4سالوں میں نریندر مودی کے حامی-خاص طور پر جو نئے ہیں-وہ جوش (آخرکار بد عنوان کانگریس گئی اور ہندوستان کے پاس وہ رہنما ہے، جس کی اس کو ضرورت ہے)سے امید(ابھی تو شروعات ہے، لیکن وہ ہندوستان کی تصویر بدل دیںگے)تک پہنچے،اس کے بعد ان کا صبر کا پیمانہ تھوڑا چھلکا(یہ آسان کام نہیں ہے)اور اب ان میں مایوسی کے آثار نظر آنے لگےہیں۔ (اس حکومت نے اپنے وقار کو مجروح کر لیا)
اگر بڑھتی فرقہ پرستی کے بارے میں کہیں کوئی نفرت ہے، تو وہ چھپی ہوئی ہے۔ فرقہ پرستی،یہاں تک کہ اقلیتوں کے خلاف ہو رہے تشدد بھی ان نئے حامیوں کے لئے باعث تشویش نہیں ہے-یہ حامی کٹر سنگھ پریوار والے نہیں ہیں، بلکہ نئے بھکت ہیں۔مودی کی بنیاد سنگھ سے آنے والے روایتی بھاجپائی اوردائیں بازو ں سے آگے نکل چکی ہے۔ ان کے پاس ایک بالکل ہی نئے گروہ کی حمایت ہے، جو ہمیشہ سے کانگریس کو لےکر پریشان رہا ہے-چاہے وہ اس کے عوامی فلاح و بہبود ہونے کی وجہ سے ہو یا اس کی’مذہبی روادار ی کی وجہ سے، جو ان کے مطابق مسلمانوں کے تئیں جھکا ہوا ہے۔
انہوں نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ ‘نسل پرستی ‘ کا آئیڈیا’اہلیت’کے آئیڈیا کے مخالف ہے۔ خصوصی اختیارات والے لوگ ہمیشہ اس غلط فہمی میں رہتے ہیں کہ ان کی کامیابی ان کی قابلیت اور محنت کی وجہ سے ملی ہے-نہ کہ ان کی فیملی، طبقہ یا ذات سے جڑے خصوصی اختیارات کی وجہ سے۔اس لئے راہل گاندھی ان لوگوں کے لئے کسی بددعا کی طرح تھے، وہیں’خود ساختہ’، جڑوں سے جڑے اور قابل اعتماد نریندر مودی ان کے لئے تازہ ہوا کے جھونکا کی طرح تھے۔
یہاں تک کہ جب ان کی چمک پھیکی پڑنے لگی، تب بھی وہ لوگ راہل گاندھی کو کسی متبادل کے بطور قبول نہیں کر پائے۔ انہوں نے پپو، بےوقوف کہہکر ان کا مذاق اڑایا۔تب ان کا کہنا تھا کہ-ٹھیک ہے پر ان (مودی)کے علاوہ متبادل کیا ہے؟ راہل گاندھی؟ کبھی نہیں۔ ‘
مودی کی کمزوریاں
لیکن اب وقت بدل گیا ہے۔ایک رہنما،ایک وزیر اعظم یہاں تک کہ ایک ووٹ کھینچنے والے آدمی کے بطور بھی مودی کی کمزوریوں کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔’شہزادہ ‘اور’بیوہ’جیسے طعنوں سے پران کےانتخابی مہم کاطور طریقہ بےحد غیر مہذب لگتا ہے۔اس بیچ راہل گاندھی ایک مہذب، تعلیم یافتہ اور منکسرالمزاج شخص کے طور پر سامنے آئے ہیں۔’امیج میکنگ’کے اس دور میں بات کریں تو صرف اسی بنیاد پر راہل گاندھی مودی سے بیس ثابت ہوتے ہیں۔
لیکن صرف امیج سے ہی کام نہیں چلتا۔ ایک سیاستداں کی ذمہ داری اس کے گروہ کو منظم شکل میں آگے لےکر جانا ہوتی ہے۔ ان کی پارٹی انتخابات میں جیتنی چاہیے۔ ہار یا انتخابی میدان میں معمولی مظاہرہ تنظیم کے لوگوں کو مایوس کرتے ہوئے ان میں یہ شک پیدا کر سکتا ہے کہ ان کا رہنما اس قابل بھی ہے یا نہیں۔
یہاں راہل گاندھی کامیاب ہوئے، لیکن ایک لمبے انتظار کے بعد۔آخرکار، اس نے ان کے حق میں کام کیا۔ کئی جھوٹی شروعات کے بعد، کانگریس نے وہ کر دکھایا جو 2014 کے بعد ناممکن لگتا تھا-اس نے تین ہندی-پٹی والی ریاستوں میں بی جے پی کو سیدھے مقابلے میں ہرایا ہے۔
گجرات میں کانگریس کا عروج دیکھنے کو ملا اور کرناٹک میں ہارنے کے باوجود جے ڈی ایس کے ساتھ اتحاد کر کے وہ بی جے پی کو باہر رکھنے میں کامیاب ہوئی۔اس سے پہلے ہوئے گوا کے انتخاب میں کانگریس ناکام رہی تھی۔ اب مدھیہ پردیش، راجستھان اور چھتیس گڑھ میں اس نے جیت درج کی۔ آج کی تاریخ میں بی جے پی کی طاقت اور مضبوط فنڈنگ کو دیکھتے ہوئے یہ ایک بڑی حصولیابی ہے۔
مخالفین کو ساتھ لانا
اس کا سہرا راہل گاندھی کو جاتا ہے۔ وہ اپنے مضبوط اور واضح پیغام کے ساتھ نہ صرف رائےدہندگان، بلکہ اس سے بھی ضروری کانگریس پارٹی کے اندر مخالفین کو، ان کے درمیان کے اختلافات کو بھلاکر انتخابی مہم میں ایک ساتھ لانے میں کامیاب رہے۔دگوجئے سنگھ، کمل ناتھ اور جیوترادتیہ سندھیا کی تثلیث کے ساتھ ملکر کام کرنا غیر متوقع تھا،جس کا پھل بھی ملا۔راجستھان میں بھی ایسا ہوا، جہاں اشوک گہلوت اور سچن پائلٹ نے ساتھ ملکر انتخابی تصویر پیش کی۔
پارٹی کا پیغام واضح تھا-پرانے کھلاڑیوں کو مناسب عزت دی جائےگی، اور جوان رہنماؤں کو ان کی نبیاد بنانے کا موقع ملےگا، بھلےہی ان کو قیادت کے لئے تھوڑا اور انتظار کرنا پڑے۔
ان کی شخصیت اور ایک رہنما کے بطور ایک ڈوبتی پارٹی کوبحال کرنے والی ان کی امیج نے ان کے نئے حامیوں کی تعداد بڑھائی ہے،یہاں تک ایسے لوگوں کے درمیان بھی، جو ان کو ایک اچھا مگر غیر رضامند سیاستداں سمجھتے تھے۔
ان کے بارے میں کئے گئے مذاق اب ان کی تعریف میں بدل گئے ہیں اور بی جے پی کے ذریعے ان کی لگاتار بے عزتی کرتے رہنا غیر مہذب اور گھٹیا لگتا ہے۔ بی جے پی کے ترجمان کی بات-بےبات، کسی بھی موضوع کے درمیان راہل گاندھی کو گھسیٹکر ان کو نشانہ بنانا اب بیوقوفی نظر آتی ہے۔ اب وقت آ گیا ہے کہ وہ کچھ نیا بولیں۔
2019 میں ملےگی کامیابی؟
کیا یہ سب 2019 میں مددگار ثابت ہوگا؟ کچھ حد تک، لیکن عام انتخابات میں مودی کو ہرانا آسان نہیں ہوگا۔ بی جے پی کی مضبوط مشینری اب کانگریس کو ہرانے کے لئے دوگنی محنت کرےگی۔مدھیہ پردیش اور راجستھان کے طاقتوراپوزیشن نئی حکومتوں کے ہر قدم پر سوال کھڑاکرےگا۔مودی حکومت عوام کا دل جیتنے کے لئے نئی اسکیمیں لائےگی۔ راہل گاندھی کو لےکر رائے اب بھی نہیں بدلی ہے۔ ان کو اب بھی یہ ثابت کرنا ہے کہ وہ نریندر مودی کےعملی متبادل ہیں۔
راہل گاندھی کو اب ان تمام چیلنجز کا مقابلہ کرتے ہوئے نئے اتحاد اور شراکت داری بنانی ہے کانگریس اس وقت اہم رول میں ہے اور جو پارٹیاں بی جے پی سے لڑنا چاہتی ہیں، ان کو اس کے ساتھ آنا ہوگا، لیکن یہ اپنےآپ کسی طرح کے اتحاد میں تبدیل نہیں ہوگا۔2019 میں کامیابی کی راہ لمبی ہے، لیکن راہل گاندھی نے شروعات اچھی کی ہے۔
Categories: فکر و نظر