گزشتہ سنیچر کو شہلا رشید نے ایک ٹوئٹ میں دعویٰ کیا تھا کہ بھیڑ کے غصے کی وجہ سے دہرادون کے ہاسٹل میں کچھ کشمیری لڑکیاں پھنسی ہوئی ہیں ۔ پولیس کا کہنا ہے کہ ان کا یہ دعویٰ غلط تھا اور اسی وجہ سے ان کے خلاف ایف آئی آر درج کی گئی ہے۔
نئی دہلی: دہرادون پولیس نے پلواما دہشت گردانہ حملے کو لے کر مبینہ طور پر افواہ اور اقلیتی کمیونٹی کے بیچ ڈر پھیلانے کے لیے جے این یو اسٹوڈنٹ اور سماجی کارکن شہلا رشید کے خلاف ایف آئی آر درج کی ہے۔دہرادون پولیس نے رشید کے خلاف امن و امان میں خلل ڈالنے سے متعلق آئی پی سی کی دفعات 153-بی ، 505(2) اور 504 کے تحت ایف آئی آر درج کی گئی ہے۔
شہلا رشید نے پولیس ایف آئی آر کی کاپی ٹوئٹر پر شیئر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ، بی جے پی حکومت میں انصاف مانگنے کی یہ قیمت چکانی پڑتی ہے ۔ اترا کھنڈ پولیس نے میرے خلاف ایف آر درج کی ہے لیکن بجرنگ دل کے کنوینر وکاس ورما کے خلاف کوئی بھی کارروائی نہیں کر پائی جنہوں نے قومی اخبارات کو دیے اپنے بیانات میں قبول کیا ہے کہ وہ بھیڑ کے ساتھ حملے میں شامل رہے اور کشمیریوں کو دہرادون چھوڑنے کے لیے کہا ۔ کہہ نہیں سکتے کہ اتراکھنڈ کو کون چلا رہا ہے۔
The price you pay for seeking justice under a BJP govt.#SOSKashmir #UnHateNow #HateKiNoEntry #KashmirDistressAlert #Kashmir #Pulwama pic.twitter.com/ypj70EhH92
— Shehla Rashid شہلا رشید (@Shehla_Rashid) February 18, 2019
وہیں دہرادون پولیس نے کہا ہے کہ جے این یو اسٹوڈنٹ یونین کی سابق رہنما شہلا رشید نے ٹوئٹر پر افواہ پھیلا کر لوگوں میں دہشت پیدا کرنے کی کوشش کی ہے۔ ایس ایس پی نویدتا ککریتی نے ٹائمس آف انڈیا سے کہا کہ ، اپنے ٹوئٹ میں شہلا رشید نے دعویٰ کیا کہ کشمیری لڑکیاں گھنٹوں تک پھنسی رہیں اور باہر کھڑی بھیڑ ان کے خون کی پیاس تھی ۔ دونوں ہی باتیں حقائق کے اعتبار سے غلط ہیں اور اس حلقے میں امن و امان میں خلل ڈالنے کے مقصد سے یہ سب کہا گیا تھا۔
گزشتہ سنیچر کو کشمیری طلبا کو ملک کے کچھ حصوں میں بدسلوکی اور مارپیٹ کیے جانے کی خبروں کے بیچ ، شہلا رشید نے ٹوئٹ کیا تھا کہ 15 سے 20 کشمیری لڑکیاں دہرادون کے ایک ہاسٹل میں پھنسی ہوئی تھیں اور یونیورسٹی کے باہر کھڑی بھیڑ ان کو برخاست کرنے کا مطالبہ کر رہی تھی ۔رشید نے دعویٰ کیا تھا کہ اس معاملے کے وقت پولیس وہاں موجود تھی ، لیکن بھیڑ کو منتشر کرنے میں کامیاب نہیں رہی۔اس کے بعد اتراکھنڈ پولیس نے ٹوئٹ کرکے کہا تھا کہ یہ بات صحیح نہیں ہے کہ دہرادون کے ہاسٹل میں کچھ لڑکیوں نے بھیڑ کے ڈر سے خود کو بند کر لیا ہے۔
There are rumours that few Kashmiri girls trapped in a hostel in Dehradun for hours due to an angry mob.
This is not true Police sorted out d issue There r no crowds Initially there was some confusion regarding slogans by kashmiri girls in favour of pakistan which was resolved.
— Uttarakhand Police (@uttarakhandcops) February 16, 2019
ریاستی پولیس نے ٹوئٹ میں لکھا کہ ، ایسی افواہیں ہیں کہ دہرادون کے ایک ہاسٹل میں کچھ کشمیری لڑکیاں بھیڑ کے غصے کی وجہ سے ہاسٹل میں پھنسی ہوئی ہیں۔ یہ سچ نہیں ہے ۔ پولیس نے اس مدعے کو سلجھا لیا ہے ۔ کوئی بھیڑ نہیں ہے ۔ شروع میں کشمیر ی لڑکیوں پر پاکستان کے حق میں نعرے لگانے کو لے کر شک تھا ، لیکن اس کو سلجھا لیا گیا ہے۔واضح ہوکہ پلواما حملے کے بعد ملک بھر سے یہ خبریں آرہی ہیں کہ کشمیریوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے اور ان کے ساتھ بدسلوکی کی جارہی ہے۔
It is absurd for the Uttarakhand police to file a criminal case against @Shehla_Rashid for 'spreading rumours' and 'creating panic' when it is clear that she was trying to draw attention to the threats faced by Kashmiri students in Dehradun.https://t.co/NEopk1lB8L
— Amnesty India (@AIIndia) February 19, 2019
دریں اثنا حقوق انسانی کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے شہلا کے خلاف ایف آئی آر کو مضحکہ خیز قرار دیا ہے ۔
Categories: خبریں