اس لوک سبھا انتخاب میں کانگریس کسی بھی طرح 100 سیٹیں لانے کی جدوجہد میں لگی ہے۔ یہ اس کے لیے کسی جنگ سے کم نہیں ہے۔ 100 سے کم سیٹیں آنا گاندھی خاندان کے ان تین فرد کی کمزوری ظاہر کرےگا، جو کانگریس کے لیے دل و جان سے تشہیر کر رہے ہیں۔
تماشہ نہ ہوا…
پرینکا گاندھی واڈرا کے وارانسی سے الیکشن لڑنے کی باتوں کو لے کر جو طومار باندھا جا رہا تھا، اس کا نتیجہ بے حد پھسپھسا نکلا۔ ایک طرح سے یہ ٹھیک ہی ہوا کہ فیصلہ غلط آنے کی صورت میں اس سے کانگریس کو کافی نقصان پہنچ سکتا تھا، ساتھ ہی اس سے پارٹی کے حوصلے بھی پست ہوتے۔
یہ ایک تعجب خیز بات ہے کہ نریندر مودی کے سامنے پرینکا گاندھی کے الیکشن لڑنے کی خبریں کانگریس نے ہی پھیلائی تھیں، جسے’ذرائع’ نے خوب ہوا دی، جب تک کہ اس غبارے کی ہوا نہ نکل گئی۔ تقریباً اسی طرح کا ڈرامہ یا تماشہ ایک اور معاملے، یعنی دہلی میں کانگریس اور عام آدمی پارٹی کے مشترکہ انتخاب لڑنے کے معاملے میں بھی دیکھنے کو ملا۔ دونوں جانب سے ہوئی ناکام کوششوں کے بعد سامنے آیا کہ راہل گاندھی اور اروند کیجریوال دونوں مایوس کھلاڑی ہیں، جن میں ایک دوسرے کے تئیں اعتماد کی کمی ہے۔ اس پورے معاملے میں یہ دونوں ہی ناتجربہ کار، نا پختہ کار اور مضحکہ خیز ثابت ہوئے۔
پرینکا گاندھی کی شخصیت کرشمائی ہے اور ان میں عوام سے جڑنے کی صلاحیت ہے۔ غالباً وہ اس سے ناواقف تھیں کہ کچھ لوگوں کی ناتجربہ کاری کی وجہ سے کیسے ان کی شبیہ کو نقصان پہنچ رہا ہے۔ یہ بھی لگتا ہے کہ فی الحال وہ خود بھی اپنی سیاسی بصیرت کا استعمال کرنے کے بجائے کانگریس کے بھاری بھرکم تنظیمی ڈھانچے کو سمجھنے اور اندرون خانہ مشیروں کی صلاحیتوں کو آنکنے کی کوشش کر رہی ہیں۔
پرینکا اور ان کے ہمنوا سوچ سکتے ہیں کہ اس بابت طرح طرح کی باتوں کے بیچ وارانسی سے الیکشن لڑنے جیسے الجھے ہوئے مسئلے پر کانگریس صدر انہیں فون کر کے مشورے کے لیے بلا لیتے تو ٹھیک رہتا۔ باہر کی دنیا کے لیے یہ کوئی تعجب انگیز یا مضحکہ خیز بات نہیں ہے۔ ہر کوئی جانتا ہے کہ یہ دو ایسے بھائی بہنوں کے بیچ کا معاملہ ہے، جو گھنٹوں ساتھ گزارتے ہیں اور جن کے خیالات کافی حد تک ملتے جلتے ہیں۔ 10 جن پتھ کے اندر، سونیا گاندھی، راہل اور پرینکا کی ایک چھوٹی سی دنیا آباد ہے، جس میں چھوٹی بہن اپنے باتونی مزاج، حاضر جوابی اور سیاسی سمجھ کے لیے پہچانی جاتی ہے۔ اس لیے بنارس سے الیکشن لڑنا ہے یا نہیں لڑنا ہے جیسی بات، ساتھ ساتھ چائے پیتے یا کھانا کھاتے ہوئے بھی کی جا سکتی تھی۔ جس کا موقعہ دن میں ایک بار تو ضرور آتا ہی ہے۔
کوئی اکشے کمار کے ذریعے لیے گئے وزیر اعظم مودی کے انٹرویو کا ذکر بھی کر سکتا ہے، لیکن گاندھی خاندان، علی الخصوص سیاست میں نو آمدہ پرینکا گاندھی کے پاس تمام موقعے اور متبادل ہیں کہ وہ کسی بھی ٹی وی نیٹ ورک کو سیاسی انٹرویو دے کر اس کا فائدہ اٹھا سکتی ہیں۔ ایسا نہ کرنے کے پیچھے اگر راہل کی اندیکھی ہونے کا خوف ہے تو کانگریس کو ایسے موقعوں پر مستقبل قریب میں بھی پریشانیاں اٹھانی پڑ سکتی ہیں۔ ووٹر یا عوام کو اس کھیل میں کوئی دلچسپی نہیں ہوتی، جو کسی ایک کی سربراہی قائم کرنے، اسے مضبوط کرنے کے لیے اندرون خانہ مشیروں کے ذریعے کھیلا جاتا ہے۔
اس لوک سبھا انتخاب میں کانگریس کسی بھی طرح 100 سیٹیں لانے کی جدوجہد میں لگی ہے۔ یہ اس کے لیے کسی جنگ سے کم نہیں ہے۔ 100 سے کم سیٹیں آنا گاندھی خاندان کے ان تین فرد کی کمزوری ظاہر کرےگا، جو کانگریس کے لیے دل و جان سے تشہیر کر رہے ہیں۔ انہیں 23 مئی 2019 کو آنے والے نتائج کی پرواہ کیے بغیر حوصلے کے ساتھ جوش، خود اعتمادی اور قائدانہ صلاحیت کا مظاہرہ کرنا ہے۔
(صحافی اور قلمکار رشید قدوائی اوآرایف کے وزیٹنگ فیلو ہیں۔ان کا کالم پیر کے روز شائع ہوتا ہے، پرانے کالمس پڑھنے کے لئے یہاں کلک کریں۔ )
Categories: فکر و نظر