آج ہندوستانی سیاست ایک ایسے دور میں ہے جب کوئی بھی سیاسی پارٹی مسلم کمیونٹی کی بات نہیں کرنا چاہتی۔ وہ سیاسی طور پر اچھوت بنا دئے گئے ہیں۔ اب ان کا استعمال اکثریتی آبادی کو ووٹ بینک میں تبدیل کرنے کے لئے کیا جا رہا ہے۔
دھمکیاں، نفرت اور نظرانداز کرنا یہی کل جمع ہے، جو 2019 کے انتخابی بساط پر اس ملک کے مسلمانوں کو حاصل ہو رہا ہے۔ سال 2014 کے بعد سے ہندوستانی سیاست میں مسلم کمیونٹی کو حاشیے پر دھکیل دیا گیا ہے۔حالانکہ ایسا بھی نہیں ہے کہ اس سے پہلے مسلمان سیاست کے میں اسٹریم میں شامل تھے لیکن وہ ایک ایسا ‘ووٹ بینک’ضرور مانے جاتے تھے، جس کو حاصل کرنے کے لئے نام نہاد سیکولر پارٹیاں خاصا زور لگاتی تھیں۔آج ہندوستانی سیاست ایک ایسے دور میں ہے جب کوئی بھی سیاسی پارٹی مسلم کمیونٹی کی بات ہی نہیں کرنا چاہتی ہے، پانچ سال پہلے جو مسلمان ووٹ بینک تھے آج وہ سیاسی طور پر اچھوت بنا دئے گئے ہیں۔ خاص بات یہ ہے کہ ان دونوں ہی حالات میں’تحفظ ‘ ہی ان کے لئے مرکزی مدعا رہا ہے۔
بہر حال مسلم ‘ووٹ بینک’ کا بھرم ٹوٹ چکا ہے، لیکن یہ کوئی مثبت تبدیلی نہیں ہے۔ اب بھلےہی مسلمان خود ووٹ بینک نہ ہوں لیکن ان کا استعمال اس ملک کی اکثریتی آبادی کو ووٹ بینک میں تبدیل کرنے کے لئے کیا جا رہا ہے۔ اپنے آپ میں شاید یہ پہلا عام انتخاب ہے جس میں اس ملک کی سب سے بڑی اقلیتی کمیونٹی کو اس طرح سے سیدھے اور کھلے طور پر نشانہ بنایا جا رہا ہے۔2014 میں مودی حکومت آنے کے بعد سے مسلمان اپنے آپ کو اور چیلنج بھرےحالات سے گھرے پا رہے ہیں۔ پچھلے پانچ سالوں میں ان کے لئے ملک کا ماحول بہت تیزی سے بدلا ہے اور سماج اور سوشل میڈیا میں ان کے تئیں نفرت کا جذبہ بہت کھلکر سامنے آ رہا ہے۔
اس کا سب سے بڑا اظہار لنچنگ کے وہ واقعات ہیں، جس میں بھیڑ کے ذریعے نہ صرف ان کو مارا جاتا ہے بلکہ سوشل میڈیا پر اس کو نشر کرکے جشن بھی منایا جاتا ہے۔اس دوران ایک شہری کے طور پر ان کی بے دخلی کی ہر ممکن کوشش کی گئی ہے اور ان کی الگ پہچان سے انکار کیا گیا ہے۔مودی حکومت آنے کے بعد سے لگاتار یہ سرسری چھوڑی گئی ہے کہ ہندوستان فطری طورپر ایک ہندو راشٹر ہے اور اکیلا ہندوتوا ہی اس کی پہچان ہے۔ جبکہ تقسیم کے زخم کے باوجود ہمارے آئین سازوں نے سیکولرزم کے راستے کو چنا تھا۔
آئین کے مطابق، ریاست کا کوئی مذہب نہیں ہے، لیکن مودی حکومت میں سیکولر ریاست کے اس نظریہ پر بہت ہی منظم طریقے سے حملہ کیا گیا ہے۔
بی جے پی اور آر ایس ایس اس بات کو بار بار دوہراتی رہی ہے کہ اس ملک میں مسلمانوں کا خوش کیا جاتا رہا ہے اور ہندو ؤں کو نظرانداز کیا گیا ہے۔وہ مسلمانوں کا ڈر دکھاکر اکثریتی ہندوؤں کی صف بندی کرتے رہے ہیں اور اب یہ حالت بن چکی ہے کہ ملک کی ساری سیاست ہندو اور ہندوتوا کے درمیان سمٹکے رہ گئی ہے۔
پہلے’ووٹ بینک’اور اب پولرائزیشن کے ‘ہتھیار ‘
مسلمانوں کو لےکر سیاسی پارٹیوں کا زور یا تو ان کے عدم تحفظ کو بھناکر ان کو محض ایک ووٹ بینک کے طور استعمال کرنے کا ہے یا پھر ان کے شہری حقوق کو مسترد کرکے ان کو دوئم درجے کا شہری بنا دینے کا ہے۔پیچھے مڑکر دیکھیں تو بی جے پی کو چھوڑکر اس ملک کی زیادہ تر سیاسی پارٹیاں مسلمانوں کی خیر خواہ ہونے کا دعویٰ کرتی رہی ہیں، لیکن حقیقت میں انہوں نے مسلمانوں کو ‘ووٹ بینک’سے زیادہ کبھی کچھ سمجھا نہیں ہے اس لئے ان کی طرف سے اس کمیونٹی کی فلاح و بہبود کے لئے سنجیدہ کوشش نہیں دکھائی دیتی ہے۔
مسلم کمیونٹی کے اصل مدعے/مسائل کبھی ان کے ایجنڈے میں رہے ہی نہیں، ان کی ساری قواعد دائیں بازو کا ڈر دکھاکر کر مسلم ووٹ حاصل کرنے تک ہی محدود رہی ہے۔غور کرنے کی بات یہ ہے کہ فرقہ پرستی کو لےکر نام نہاد سیکولر پارٹیوں کی لڑائی نہ صرف نقلی ثابت ہو رہی ہے بلکہ کبھی کبھی ان کا ‘دائیں بازو ‘کے ساتھ کا غیراعلانیہ رشتہ بھی نظر آتا ہے، یہاں تک کہ یہ ایک دوسرے کو بنائے رکھنے میں مدد کرتی بھی نظر آتی ہیں تاکہ ملک کی دونوں اہم کمیونٹی کو ایک دوسرے کا ڈر دکھاکر اپنی روٹی سینکی جاتی رہے۔اس کو بدقسمتی ہی کہا جا سکتا ہے کہ سیاسی پارٹیوں کا زور یا تو ان کے عدم تحفظ کو بھناکر ان کو محض ایک ووٹ بینک کے طور پر استعمال کرنے کا ہے یا پھر ان کے شہری حقوق کو مسترد کرکے ان کو دویم درجے کا شہری بنا دینے کا ہے۔
سابق وزیر اعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ نے ایک بیان دیا تھا، ‘ سماج کے تمام پچھڑے اور اقلیتی طبقوں بالخصوص مسلمانوں کو ترقی کے فائدے میں برابر کی حصےداری یقینی بنانے کے لئے ان کو امپاور کیے جانے کی ضرورت ہے۔ ملک کے وسائل پر پہلا حق انہی کا ہے۔ ‘ان کے اس بیان پر کافی ہنگامہ ہوا تھا خاص طور پر بیان کے آخری حصے پر۔ لیکن بنیادی سوال یہ اٹھتا ہے کہ مسلمانوں کی بدتر حالت کے لئے ذمہ دار کون ہے۔
سچر کمیٹی کی رپورٹ تو خود کانگریس پارٹی کے لئے ایک آئینے کی طرح ہونی چاہیے تھی چونکہ اس ملک میں کانگریس پارٹی ہی سب سے زیادہ وقت تک اقتدار میں رہی ہے۔ مسلمانوں کی اس حالت کے لئے سب سے زیادہ جوابدہی ان کی ہی بنتی ہے۔بہر حال اکثریت پسند سیاست کے اس دور میں کھیلکے اصول بدل چکے ہیں، دلوں کی تقسیم اب زمین پر بھی دکھائی پڑنے لگی ہے۔ ایسا لگتا ہے 1947 کی تقسیم کبھی تھمی ہی نہیں تھی۔سالوں سے شعور میں کہیں گہرے تک سمائی یہ بات ہندو راشٹروادیوں کے مضبوط ہونے پر نمایاں ہوکر سطح پر آ چکی ہے کہ ‘ آزادی کے بعد مسلمانوں کو پاکستان کی صورت میں ایک نیا ملک مل گیا ایسے میں اگر ان کو ہندوستان میں رہنے دیا گیا ہے تو ان کے لئے یہی کافی ہے، ان کا کچھ اور مانگنے یا شکایت کرنے کا کوئی حق نہیں بنتا ہے۔ ‘
ہندو گرنتھی کے اس ابھارکی وجہ سے آج مسلمانوں کو اکثریت کے پولرائزیشن کا سب سے بڑے ہتھیار بنا لیا گیا ہے۔ اس کے باعث سماج میں ‘ہم’ اور ‘وہ ‘ کا جذبہ بہت گہرا ہو گیا ہے۔
مسلمانوں کے خلاف نفرت اور تشدد کی عام بنا دیا گیا ہے اور ان کے تئیں عدم اعتماد بڑھا ہے۔ بھیڑ کے ذریعے کیے گئے تشدد کے بھی وہی سب سے بڑے شکار ہیں۔ دوسری طرف کمیونٹی کے لوگوں کو جھوٹے مقدموں میں پھنسانے اور تصادم میں مار گرانے کے واقعات بھی کم ہونے کے بجائے بڑھ رہے ہیں اور سب سے بڑی بات ان کا ووٹ بینک کا تمغہ چھن چکا ہے اور سیاسی طور پر ان کو اچھوت بنا دیا گیا ہے۔
غیریقینی مستقبل
ہندوستان میں دنیا کی تیسری سب سے بڑی مسلم آبادی ہے، جو جمہوریت اورسیکولر آئین کے سایے میں بہت خوشی سے رہتی ہے۔ اسلام کا ہندوستانی ایڈیشن فیاض ہے اور یہاں کا مسلمان بھی اپنے ملک کی طرح تنوع سے بھرا ہوا ہے۔ زبان، علاقہ اور ذات-برادری کی بنیاد پر ان میں بہت تنوع ہے۔2006 میں سچر کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں بتایا تھا کہ کس طرح سے مسلمان اقتصادی اور تعلیمی طور پر پچھڑے ہیں، سرکاری نوکریوں میں ان کو مناسب نمائندگی نہیں مل پاتی ہے اور کئی معاملوں میں ان کی حالت ایس سی –ایس ٹی سے بھی خراب ہے۔
ان حالات کو دیکھتے ہوئے سچر کمیٹی کے ذریعے کئی مشورے بھی دئے گئے تھے۔ جس کے بعد اس وقت کی یو پی اے حکومت کے ذریعے الگ سے وزارت اقلیتی امور کی تشکیل کی گئی اور اقلیتوں کی فلاح کے لئے ‘ وزیر اعظم کے 15 نکاتی پروگرام ‘ کی شروعات کی گئی۔اس کے بعد 2013 میں سچر کمیٹی کی سفارشوں کی عمل آوری کی حقیقت جاننے کے لئے پروفیسر امیتابھ کنڈو کی رہنمائی میں ایک کمیٹی بنائی گئی تھی جس نے اپنی رپورٹ 2014 میں اقلیتی معاملوں کی وزارت کو سونپ دی تھی۔ اس میں پتہ چلا کہ اس دوران مسلمانوں کی حالت میں کوئی قابل ذکر اصلاح نہیں ہوا ہے۔
2014 کے بعد اب حالات پوری طرح سے بدل چکے ہیں، جنہوں نے سچر کمیٹی کی تشکیل کی تھی اب وہ بھی اس کا نام لینے سے پرہیز کرتے ہیں۔ گزشتہ سال سونیا گاندھی نے ایک پروگرام میں کہا تھا، ‘ بی جے پی کے ذریعے کانگریس کو ایک مسلم پارٹی کے طور پر مشتہر کیا گیا جس کی اس کو قیمت چکانی پڑی ہے۔ ‘ظاہر ہے اب کانگریس نرم ہندتوا کے راستے پر چل پڑی ہے۔ اس بار اس کے منشور میں بھی سچر کمیٹی کی سفارشوں کا ذکر سرے سے غائب ہے۔اب 2019 کے انتخاب میں ان کو مرنے کے بعد کی دھمکیاں دی جا رہی ہیں جیسا کہ مودی حکومت کے متنازعہ وزیر گریراج سنگھ نے مسلمانوں کو دھمکاتے ہوئے کہا ہے کہ اگر اس ملک میں ان کو اپنی قبر کے لئے تین ہاتھ جگہ چاہیے تو وندے ماترم کہنا ہوگا اور بھارت ماتا کی جئے بولنا ہوگا۔
ہندوستان کی جمہوریت کی طرح اس ملک کے مسلمانوں کے لئے بھی 2019 کا انتخاب بہت اہم ثابت ہو سکتا ہے جس کا ان کو بخوبی احساس بھی ہے۔گزشتہ دنوں انگریزی اخبار ٹیلی گراف میں ایک رپورٹ شائع ہوئی تھی جس میں علی گڑھ کی کچھ مسلم فیملیوں نے اپنے لئے اچھے دنوں کی وضاحت کرتے ہوئے کہا تھا، ‘ اتنی نفرت ہو گئی ہے مسلمانوں کے لئے کہ اب تو زندہ رہنا ہی ہمارے لئے اچھے دن سے کم نہیں ہے۔ ‘
اپنی اس حالت کے لئے مسلمان خود بھی کم ذمہ دار نہیں ہیں۔ ملک کی دیگر کمیونٹیز کی طرح اس کمیونٹی کی طرف سے شہری حقوق کی مانگ نکلکر سامنے نہیں آ پاتی ہیں لیکن جذباتی اور مذہبی مسئلہ آنے پر یہ بہت تیزی سے سڑکوں پر آ جاتے ہیں۔دوسرے لفظوں میں کہیں تو مسلمان اپنی مذہبی پہچان سے پرے ایک شہری کے طور پر سامنے نہیں آ پاتے ہیں۔ اس کی اہم وجہ کمیونٹی میں غیرمذہبی قیادت کا نہیں ابھر نا ہے۔
جس ڈال پر بیٹھے ہیں اسی کو کاٹنے کی حماقت
کسی بھی ترقی پذیر-جمہوری ملک کا بنیادی پیمانہ ہے کہ وہ اپنی اقلیتوں کے ساتھ کس طرح کا سلوک کرتا ہے، جس ملک کا ایک بڑا طبقہ پچھڑےپن اور عدم تحفظ کے جذبے کے ساتھ جی رہا ہو وہ اس پیمانے پر کھرا نہیں اتر سکتا ہے۔ہندوستان کی جمہوریت کی مضبوطی کے لئے ضروری ہیں کہ اقلیتوں میں عدم تحفظ کے جذبہ کو بڑھانے / بھنانے اور ‘ خوش کرنے’کے الزامات کی سیاست بند ہو اور ان کے مسائل کو سیاست کے ایجنڈے پر لایا جائے۔کمیونٹی میں گھر کرچکےعدم تحفظ کے جذبہ کو ختم کرنے کے لئے مضبوط قانون بنے جو فرقہ وارانہ واقعات پر قابو پانے اور قصورواروں کے خلاف کارروائی کرنے میں اہل ہو۔
مسلم کمیونٹی کو بھی جذباتی مدعوں کے بہکاوے میں آنا بند کرنا ہوگا اور اپنے اصل مسائل کو حل کرنے کے لئے سیاست کو ایک اوزار کے طور پر استعمال کرنا سیکھنا ہوگا۔ یہ کام مذہبی لیڈران سے جسم چھڑا کر ان کی جگہ نئے سماجی و سیاسی قیادت پیدا کئے بنا نہیں کیا جا سکتا ہے۔تقسیم کاری طاقتوں کو درخت کی جس ڈال پر بیٹھے ہیں اسی کو کاٹنے کی حماقت سے بچنا ہوگا ان کو سمجھنا ہوگا کہ ملک پہلے بھی مذہب کے نام پر تقسیم کی سیاست کی سرنگ سے گزر چکا ہے اور ہم سب اس کی قیمت ابھی تک چکاتے چلے آ رہے ہیں۔
اس لئے ملک کی سیاست کو مذہب سے دور رکھنا ہوگا ورنہ اس بار تو ہمارے پاس کوئی مولانا آزاد اور مہاتما گاندھی بھی نہیں ہیں، جو اس کے خلاف کھڑے ہونے کی ہمت دکھا سکیں۔
(مضمون نگار آزاد صحافی اور سماجی کارکن ہیں۔)
Categories: فکر و نظر