امریکہ نے یہ کہتے ہوئےہندوستان پر دباؤ بنایا ہے کہ اس نے پلواما حملے کے بعد جیش محمد کے سرغنہ مسعود اظہر کو اقوام متحدہ کے ذریعہ دہشت گرد قرار دئے جانے میں ہندوستان کا ساتھ دیا تھا لہٰذا اب وہ ایران کے معاملے میں اس کا ساتھ دے۔اس بحث سے قطع نظر کہ یہ دلیل کتنی صحیح یا غلط ہے، ہندوستان کے لئے امریکی مانگ کو خارج کرنا آسان نہیں۔
اس مہینے کے آخر تک ملک میں ایک نئی حکومت تشکیل پاچکی ہوگی۔ اس کا پہلا چیلنج ایران-امریکہ تنازعہ کے پیش نظر مشرق وسطیٰ میں اٹھتے ہوئے نئے طوفان سے اپنے آپ کو بچانا ہوگا۔ ایرانی وزیر خارجہ جاوید ظریف اس ہفتے ہندوستان کا دورہ کر کے جا چکے ہیں۔ گزشتہ چار مہینوں میں یہ ان کا دوسرا دورہ تھا۔ اس سے پہلے ایک امریکی سفارت کار نئی دہلی میں اعلیٰ سطحی ملاقاتیں کر چکا ہے۔ امریکہ چاہتا ہے کہ ہندوستان ایرانی تیل کی خریداری بند کردے جبکہ ایران، جس کے تیل کا ہندوستان چین کے بعد دوسرا بڑا خریدار ہے، اس کوشش میں ہے کہ ہندوستان امریکی معاشی پابندیوں سے بچتے ہوئے اس کے تیل کی خریداری جاری رکھے۔
معاملہ صرف تیل کی خریداری کا نہیں۔ ہندوستان کے اپنے سیاسی اور تجارتی مفادات ہیں جن میں ایران کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔ ہندوستان کا اولین غیر ملکی سمندری بندرگاہ ایران میں بن کر ابھی ہی تیار ہوا ہے اور صرف دو ماہ قبل وہاں سے پہلا ہندوستانی شپمنٹ افغانستان پہنچا ہے۔ چابہار کے نام سے موسوم اس پورٹ کے ذریعہ ہندوستان ایران اور افغانستان سمیت سینٹرل ایشیا کے چھ ممالک تک براہ راست رسائی حاصل کر سکے گا۔ گو کہ امریکہ نے چابہار کو ایران پر لگی پابندیوں سے مستثنیٰ رکھا ہے اس کے باوجود خطے میں پائی جانے والی کشیدگی سے اس کا متاثر ہوئے بغیر رہنا مشکل معلوم ہو رہا ہے۔
وزیر خارجہ سشما سورج نے جاوید ظریف سے کہا ہے کہ ایران سے تیل کی خریداری جاری رکھنے کا فیصلہ الیکشن کے بعد عمل میں آنے والی حکومت کرے گی۔ اس فیصلے کی بنیاد ہندوستان کا تجارتی اور معاشی مفاد ہوگا اور انرجی سکیورٹی ہوگی۔ سشما سوراج نے ہندوستان کی اس خواہش کا بھی اظہار کیا کہ معاہدے کے تمام فریق اپنے عہد پر قائم رہیں اور سارے قضیے پرامن ماحول میں بات چیت سے طے کریں۔ ہندوستان کی مشکل یہ ہے کہ ایک طرف ایران ہے جس سے اس کے روابط تاریخی ہیں جو سینکڑوں سال پر محیط ہے۔ دوسری طرف امریکہ ہے اور اس کی حلیف خلیجی ریاستیں ہے اور ساتھ ہی اسرائیل ہے۔
ہندوستان کے مفادات ان تمام ممالک سے جڑے ہوئے ہیں۔سعودی عرب ہندوستان کے لئے عراق کے بعد تیل کا دوسرا بڑا سپلائر ہے۔ دونوں ممالک کا رشتہ قبل از اسلام کا ہے۔ اس کے علاوہ سعودی عرب اور دیگر خلیجی ریاستوں میں 70 سے 80 لاکھ ہندوستانی شہری روزی روٹی کماتے ہیں۔ اسی طرح فوجی ساز و سامان اور دفاعی معاہدوں کے حوالے سے اسرائیل ہندوستان کے لئے بہت اہم ہو گیا ہے۔امریکہ نے یہ کہتے ہوئےہندوستان پر دباؤ بنایا ہے کہ اس نے پلواما حملے کے بعد جیش محمد کے سرغنہ مسعود اظہر کو اقوام متحدہ کے ذریعہ دہشت گرد قرار دئے جانے قرار دئے جانے میں ہندوستان کا ساتھ دیا تھا لہٰذا اب وہ ایران کے معاملے میں اس کا ساتھ دے۔اس بحث سے قطع نظر کہ یہ دلیل کتنی صحیح یا غلط ہے، ہندوستان کے لئے امریکی مانگ کو خارج کرنا آسان نہیں۔
امریکہ ایک سوپر پاور ہے جس کا دباؤ روس، چین اور یورپ بھی محسوس کرتے ہیں۔ اپنے اسی زعم میں امریکہ نے گزشتہ سال اپنے آپ کو ایران کے ساتھ 2015 میں کئے گئے معاہدے سے الگ کر لیا۔ یہ معاہدہ امریکہ کے علاوہ سلامتی کونسل کے بقیہ چار مستقل ممبران اور جرمنی نے مل کر ایران کے ساتھ کیا تھا جس کی رو سے اسلامی مملکت نے اپنے جوہری پروگرام پر روک لگا دیا تھا۔ مگر ڈونالڈ ٹرمپ اس سے مطمئن نہیں۔ وہ ایران کو مزید جھکانا چاہتے ہیں۔ چنانچہ عہدہ صدارت سنبھالتے ہی پہلے انہوں نے اپنے یورپی حلیفوں کو قائل کرنے کی کوشش کی اور جب وہ نہیں مانے تو یکطرفہ امریکہ کو اس معاہدے سے الگ کر لیا اور ایران پر ایک بار پھر پابندیاں عائد کر دیں۔
یہی نہیں امریکہ نے ہندوستان، چین اور ترکی سمیت 8 ممالک اور ان کی کمپنیوں پر حکم صادر کیا کہ ایران کے ساتھ تجارت بند کر دیں۔ اس کام کے لئے انھیں چھ ماہ کی مہلت دی جس میں مزید چھ ماہ کی توسیع کی۔ اس مہینے وہ مدت بھی ختم ہو گئی۔ امریکی اقدام کے جواب میں ایران نے خبردار کیا ہے کہ اگر معاہدے میں شامل دیگر فریق بھی اپنے عہد کی پاسداری سے پھرے تو وہ اپنے جوہری پروگرام کو دوبارہ شروع کر دےگا۔ ایران نے انہیں اپنا فیصلہ سنانے کے لئے 60 دن کی ڈیڈ لائن دی ہے۔ اگر ایران نے واقعی اپنا جوہری پروگرام دوبارہ شروع کر دیا تو وہ ساری محنت جو سلامتی کونسل کے تحت ہوئی تھی وہ رائیگاں چلی جائے گی۔
ایران پر نئی معاشی پابندیاں عائد کرنے کے ساتھ ساتھ امریکہ نے ایران کے نیم فوجی دستہ پاسداران انقلاب کو دہشت گرد تنظیم قرار دے دیا ہے۔ اس کے علاوہ اپنے جنگی طیاروں اور بحری جہازوں کو خلیج روانہ کر دیا ہے جس کے بعد خطے کے حالات یکسر کشیدہ ہو گئے ہیں۔ تازہ خبر یہ ہے کہ امریکہ مشرق وسطیٰ میں 1 لاکھ20 ہزار فوج تعینات کرنے پر غور کر رہا ہے۔ ایران یہ دھمکی پہلے ہی دے چکا ہے کہ امریکی اقدامات کے خلاف خلیج عمان اور خلیج فارس کے درمیان آبنائے ہرمز کو بند کر دے گا۔ یہ وہ راستہ ہے جہاں سے دنیا بھر میں استعمال ہونے والے تیل کا پانچواں حصہ لے جایا جاتا ہے۔
خطے میں بڑھتی ہوئی کشیدگی میں ایک نیا موڑ اس ہفتے آیا جب متحدہ عرب امارات کی فُجیرہ امارت سے یہ خبر آئی کہ چار آئل ٹینکرز میں دھماکے ہوئے ہیں۔ ان میں سے دو ٹینکرز سعودی عرب کے تھے۔ ابھی تک کسی نے ان پراسرار دھماکوں کی ذمہ داری نہیں لی ہے۔ اندیشہ ہے کہ اس کا الزام ایران پر ڈالا جائے گا اور اس کے خلاف کوئی بڑی کارروائی کا بہانہ تلاش کیا جائے گا۔ایران نے ان دھماکوں کے لئے امریکہ کو ذمہ دار ٹھہرایا ہے اور اس کی آزادانہ جانچ کا مطالبہ کیا ہے۔ ایران کا کہنا ہے کہ امریکہ نے ان کشتیوں کو ایرانی سمجھ کر ان پر حملہ کیا ہے۔ جبکہ امریکہ نے الزام عائد کیا ہے کہ ایران اس علاقے میں جہازوں کی آمد و رفت میں رکاوٹ ڈالنے کے لئے یہ حملے کرا رہا ہے۔ اسی بیچ ایک دوسری خبر آئی ہے جو کم تشویشناک نہیں۔ سعودی تیل کمپنی آرامکو، جسے سکیورٹی فراہم کرنے میں امریکہ کی خاص دلچسپی ہے، پر بارود بردار ڈرون سے حملہ ہوا ہے۔ سعودی وزیر تیل کا کہنا ہے کے تیل نکالنے کے دو اسٹیشنوں کو نقصان پہنچا ہے۔ یمن کی حوثی ملیشیا نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے۔ اس ملیشیا کو یمن اور سعودی عرب کے بیچ جاری جنگ میں ایران کی حمایت حاصل ہے۔
کشیدگی کے باوجود امریکہ اور ایران دونوں ہی اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ جنگ نہیں ہوگی۔لیکن دونوں ہی ایک دوسرے کو جنگ سے باز رہنے کی دھمکی بھی دے رہے ہیں۔ امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے روسی وزیر خارجہ سے ملاقات کے بعد کہا ہے کہ ان کا ملک ایران کے ساتھ جنگ نہیں کرنا چاہتا ہے۔ مگر ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ اگر امریکی مفادات پر حملہ ہوا تو “ہم یقینی طور پر اس کا مناسب انداز میں جواب دیں گے”۔ دوسری طرف ایران کے مذہبی پیشوا آیاتللہ خامنائی نے امریکہ کے ساتھ مذاکرات نہ کرنے پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ “ہم جنگ نہیں چاہتے اور نہ ہی وہ چاہتے ہیں”۔ اس کے ساتھ ہی ایرانی صدر حسن روحانی کا بیان بھی آیا ہے جس میں انہوں نے پرعزم لہجے میں کہا ہے کہ “ایران کو کسی سے خوفزدہ نہیں کیا جا سکتا”۔
جنگ ہو یہ نا ہو، خطے میں جو کشیدگی پیدا ہو چکی ہے اس کا اثر ہندوستان کی تیل کمپنیوں پر پڑنا لازمی ہے۔ پٹرولیم اور نیچرل گیس کی وزارت نے آئل ریفائنریز کو اطمینان دلایا ہے کہ خام تیل کی فراہمی مسلسل جاری رہے گی۔ اس کام کے لئے متبادل ذریعوں سے تیل حاصل کرنے کی کوششیں جاری ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا تیل اُسی قیمت پر مل سکے گا جس پر ایران دے رہا تھا۔ اگر نہیں تو ہندوستانی کمپنیوں کو زیادہ خرچ کرنا ہوگا جسے وہ یقیناً عوام سے وصول کریں گی۔ پٹرول مہنگا ہوگا اور دیگر اشیاء بھی مہنگی ہوں گی۔
Categories: فکر و نظر