ہمارے لبرل صحافی اور روشن خیال دانشوران فاشزم اورکمیونلزم کے خلاف اپنی لڑائی کو مسلمانوں کے کندھوں پر رکھ کر کیوں لڑنا چا ہتے ہیں؟ ڈر کو مسلمانوں کے ساتھ کیوں چپکا دینا چاہتے ہے؟ جہاں تک مسلمانوں کے ڈر جانے کا سوال ہے تو یہ محض ایک فیک نیوز ہے۔ متھ ہے۔ اور کچھ نہیں۔ مسلمان فکر مند ضرور ہیں، خوف زدہ با لکل نہیں۔تقسیم کے بعد جن مسلمانوں نے پاکستان کو ٹھکرا دیا کم از کم ان کے بارے میں تو ایسا ہر گز نہیں کہا جا سکتا۔
گزشتہ 23 مئی کو جب لوک سبھا الیکشن (2019 )کے نتائج تقریباً واضح ہوچکے تھے، انگریزی کےمعروف لبرل صحافی پرونو رائے، اپنے ٹی وی شو(این ڈی ٹی وی) میں موجود تمام پینلسٹ (جس میں بی جے پی کے ترجمان بھی شامل تھے) سے مخاطب ہوکر یہ تبصرہ کرنے لگے کہ ملک کا 185 ملین مسلمان ڈرا ہوا ہے۔ وہ خوف اور اضطراب کا شکار ہے۔پرونو رائےکے اس تبصرہ پر حامی بھرتے ہوئے، ان کی ساتھی اینکر ندھی رازدان نے اسے سوال کی شکل میں بی جے پی کے ترجمان نیلین کوہلی کے سامنے پیش کیا اوراس حوالے سے ان کا ردعمل جاننا چاہا۔ یہ تبصرہ ظاہر ہے بی جے پی کی تاریخی جیت اورغیر معمولی اکثریت کے پیش نظر کیا گیا تھا، حالانکہ اسے اس سیاق میں پیش کیا گیا کہ بی جے پی مسلمانوں کو نہ تو ٹکٹ دیتی ہے اور نہ ہی اسے اپنا الیکٹوریٹ گردانتی ہے اورنتیجتاً وہ حاشیہ پر آ کھڑے ہوئے ہیں۔بہر حال، سوال کا جواب کیا آیا یہ اہم نہیں ہے۔ سوال یہ ہے کہ آ یا یہ سوال جائز بھی ہے؟ اگر بی جے پی کی وشال جیت کا مطلب ڈر جانا ہے، تو صرف مسلمان ہی کیوں ڈریں؟ باقی لوگ جشن منائیں گے؟
اگر بات ڈرنےکی ہے اور ڈر اس لئے ہےکہ مودی حکومت کے دوبارہ اقتدارمیں آ جانے سے فسطائی طاقتیں مزید مضبوط ہو جائیں گی، یاآئین سے چھیڑ چھاڑ کی کوششیں ہوں گی، یا ہندوستان پوری طرح سے میجوریٹیرین ڈیمو کریسی میں تبدیل ہو جائے گا، یا ہندوستان کو ہندو راشٹر قرار دیا جائے گا (یہ الگ بات ہے کہ بھارت غیر رسمی طورپر ہندو راشٹر بن چکا ہے)، یا فرقہ پرستی آسمان چھونے لگے گی، یا سیکولرزم کے تابوت میں آخری کیل ٹھونک دی جائے گی، یا مسلمانوں سے ووٹ دینے کا حق چھین لیا جائے گا، یا انہیں گھس پیٹھیا/باہری قرار دیا جائے گا، یا پھر مسلمانوں کو دوسرے درجہ کا شہری قرار دیا جائے گا، تب تو پھرہر ہندوستانی کو ڈر جا نا چاہئے۔ صرف مسلمان ہی کیوں ڈریں؟
ان خدشات میں سے اگر ایک بھی خدشہ صحیح ثابت ہوا، یا حکومت نے اسے اپنے منصوبے میں شامل کیا، تو پھرملک خانہ جنگی کا شکار ہو جائے گا۔ اور ظاہر ہے ایسی صورت میں پورے ملک کا نقصان ہوگا، نہ کہ کسی خاص مذہب یا کمیونیٹی کا۔ در اصل یہ ایک متھ ہے کہ ساری مصیبتوں کا پہاڑ مسلمانوں پر ٹوٹ پڑےگا۔ ان پر اس پہاڑ کا بوجھ سب سے زیادہ ہوگا یہ بات بلا شبہ درست ہے۔ مگر حقیقت یہی ہے کہ ملک کا ایک ایک شہری اس کی زد میں آئے گا۔ کوئی پہلے تو کوئی بعد میں۔ شکلیں مختلف ہو سکتی ہیں۔ وقت بھی الگ الگ ہو سکتا ہے۔دوسرے لفظوں میں، اور کچھ نہیں سرے سے ‘آئیڈیا آف انڈیا’ ہی خطرے میں پڑ جائےگا۔ ملک کی روح ہی تار تار ہو جائے گی۔ لہذا، چونکہ نقصان بہر حال ملک کو پہنچے گا، اس لئے اگر بات ڈرجا نے کی ہے، تو پھر ہر وہ ہندوستانی جو ملک سے محبت کرتا ہے اور ہر وہ شہری جو ہندوستان کے آئین میں یقین کرتا ہے، اسے ڈر جانا چاہئے۔
لہذا ہمیں (بحیثیت ہندوستانی) خود سے یہ سوال بار بار پوچھنا چاہئے کہ کیا فرقہ پرستی کے عروج سے صرف مسلمانوں کا نقصان ہوگا؟ ہندو راشٹر بن جانے سے کیا ہندوؤں کا بھلا ہو جائےگا؟ فاشزم کے مزید طاقتور ہو جانے سے صرف مسلمانوں کا خسارہ ہوگا؟ آئین سے چھیڑ چھاڑ کی صورت میں صرف مسلمان خطرے میں پڑ جا ئیں گے؟ مجھےان صحا فی صا حبان کی ایمانداری پر کوئی شک نہیں ہے۔ مجھے ان کے لبرل اور سیکولر ہونے پر بھی کوئی شک نہیں ہے۔ لبرل اور سیکولر دانشوران کے ہندوستانی سماج کی تعمیر میں جو مثبت خدمات ہیں، میں اس سے بھی کسی طور انکار نہیں کر رہا ہوں۔ مگر سوال یہ ہےکہ ہمارے لبرل صحافی اور روشن خیال دانشوران، فاشزم اورکمیونلزم کے خلاف جو لڑائی ہے اسے مسلمانوں کے کندھوں پر رکھ کر کیوں لڑنا چا ہتے ہیں؟ ڈر کو مسلمانوں کے ساتھ کیوں چپکا دینا چاہتے ہے؟ جس دھڑلے سے اس محاورے (مسلمان ڈرے ہوے ہیں) کا استعمال کیا جا تا ہے اس سے تو یہی ثابت ہو تاہے۔ سوال یہ ہے کہ ایک سیکولر اور لبرل ہندوستانی، مسلمانوں پر(یا ملک کے کسی بھی کمیونیٹی پر) ہو رہے مظالم کو صرف اور صرف مسلمانوں کے ساتھ جوڑ کرکیسے دیکھ سکتا ہے اور پھر اپنا پلہ کیسے جھاڑ سکتا ہے؟ کیا مسلمانوں کے ساتھ کیے جا رہے مظالم ہندوستان کی روح کو چوٹ پہنچا نا نہیں ہے؟ کیا یہ عمل ہندوستان کے آئین پر حملے کے مساوی نہیں ہے؟ کیا اس عمل سے ‘آئیڈیا آف انڈیا’ مجروح نہیں ہوتا ہے؟ اگر ایسا ہے تو پھریہ لڑائی ملک کے نام پر لڑی جانی چاہئے، نہ کہ مسلمانوں کے نام پر۔
جہاں تک مسلمانوں کے ڈر جانے کا سوال ہے تو آپ یہ سمجھ لیجئے کہ یہ محض ایک فیک نیوز ہے۔ یہ ایک متھ ہے۔ اور کچھ نہیں۔ مسلمان فکر مند ضرور ہیں، خوف زدہ با لکل بھی نہیں۔ تقسیم کے بعد جن مسلمانون نے پاکستان کو ٹھکرا دیا اور ہندوستان کو اپنا وطن منتخب کیا، کم از کم ان کے بارے میں تو ایسا ہر گز نہیں کہا جا سکتا۔ آزادی کے بعد سے لےکر اب تک، ہندوستان کے مسلمانوں نے اپنی لڑائی (برائے نام ہی سہی) خود ہی لڑی ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ درجنوں لیڈران نے ان کی لڑائی کے نام پر اپنے اپنے طور پر سیاست کی اور بدلے میں ان کا ووٹ لیتے رہے، مگر زمین پر کچھ بھی کرنے سے گریز کرتے رہے۔اس بار کے الیکشن کے نتائج کا ایک اثر یہ ہوگا کہ اب مسلمانوں کا ‘اپیزمنٹ’ نہیں ہوگا (گرچہ اس الیکشن میں بھی نہیں ہوا، یا ہوا بھی تو برائے نام)۔ یقین مانئے یہ اپیزمنٹ نہیں ایک اسٹگما تھا، جسے مسلمانوں کے ساتھ چپکا دیا گیا تھا۔ ہاں، یہ بات بھی درست ہے کہ اس بار کے نتائج نے یہ بھی خدشہ پیدا کر دیا ہے کہ کہیں آنے والے انتخابات میں مسلمانوں کی ضرورت بحیثیت الیکٹوریٹ ہی نہ ختم ہو جا ئے۔ بظاہر یہ بات بہت ڈراونی ہے، مگر بہت ممکن ہے یہی صورت ‘مسلم سیاست’ کو کو ئی نہ کوئی نیا رخ دے گی، جو ظاہر ہے مثبت بھی ہوگا اور مفید بھی۔
دوسری اچھی چیز جو اس بار کے الیکشن نے ہمیں دی ہے وہ یہ کہ اب سیکو لرزم کا استعمال ‘مسلمانوں کے نام’ پر نہیں ہوگا۔ یہ بات آپ جانتے ہیں کہ پورے الیکشن کیمپین میں کسی بھی سیاسی پارٹی نے ایک بار بھی سیکولرزم لفظ کا استعمال نہیں کیا۔ اس بات کے لئے بلا شبہ بی جے پی کو پورا کریڈیٹ دیا جانا چاہئے۔ وزیر اعظم نے بھی اپنی تقریر (وکٹری اسپیچ) میں بڑے فخر سے اس بات کا ذکر کیا کہ اس بار کسی بھی پارٹی نے سیکولرزم کا چولہ پہننے کی ہمت نہیں کی۔ خیر، اچھی بات یہ ہےکہ ایسا سیکولرزم جس کا استعمال یا تو مسلمانوں کو الو بنانے کے ئے ہو تا رہا یا جس کا ذکر مسلمانوں کے تئیں نفرت کے اظہار کے لئے ہو تا رہا، اس کا ناپید ہو جانا ہی بہتر ہے۔ موجودہ سیاسی منظر نامے سے سیکولرزم کا سرے سے غائب ہوجانا بظاہر تشویشناک ضرور ہے، مگر نوٹ کر لیجئے کہ اس کا مثبت نتیجہ یہ ہوگا کہ عنقریب یہ متھ بھی دھارا شائی ہو جائے گا کہ سیکولرزم کی ضرورت صرف اور صرف مسلمانوں کو تھی۔ دوسرے لفظوں میں،ا ب چونکہ سیکولرزم کی موجودہ شکل (تحریف شدہ) ناپید ہو چکی ہے، لہذا یہ امید بھی کی جانی چاہئے کہ مستقبل قریب یا بعید میں جب بھی اس کا پنر جنم ہوگا، یہ اپنے اصل معنی اور روح کے ساتھ نمودار ہوگا۔ ہندوستان میں سیکولرزم کے تصور کے حوالے سے ہمیشہ یہ بحث ہوتی رہی ہے کہ آیا ہمیں اسے ہو بہو (یعنی یو روپین تصور— مذہب اور سیاست کے بیچ دیوار) اپنا نا چاہئے یا پھر انڈین ورزن (تمام مذاہب کے ساتھ یکساں سلوک) کو قبول کرنا چاہئے۔ مگر المیہ یہ رہا کہ کسی نے اس بات پر کبھی توجہ نہیں دی کہ انڈین نیشنل موومنٹ نے سیکولرزم کی فلاسفی کو صرف اور صرف کمیونلزم سے لڑنے کے لئے اپنا یا تھا۔
تیسری چیز جو اس الیکشن کی دین ہے وہ یہ کہ اس نے کمیونلزم کو اپنی انتہا پر پہنچا دیا ہے۔ یعنی کمیونلزم کا باضابطہ institutionalization ہو گیا۔ مثالیں کئی ہیں۔ سادھوی پرگیہ کا الیکشن لڑنا ان میں سے ایک ہو سکتا ہے۔ اور یہ ایک مثبت پہلو ہے ۔آپ جانتے ہیں، جب کوئی چیزاپنی انتہا کو پہنچتی ہے، توپھر ایک مدت کے بعد اس کا زوال لازمی ہو جاتا ہے۔ خیر، زیادہ اہم بات یہ ہےکہ اس الیکشن کے بہانے یہ بات بھی ثابت ہو گئی کہ ہارڈ ہندوتوا کا مقابلہ سافٹ ہندوتوا سے نہیں کیا جا سکتا۔ ہارڈ ہندوتوا کا مقابلہ ‘ہارڈ سیکولرزم’ سے ہی ممکن ہے۔ ہندوستانی سماج کا کمیونلائزیشن پچھلی ایک صدی سے ہوتا چلا آ رہا ہے۔ لہذا، بپن چندرا اپنی کتاب ‘کمیونلزم’ میں لکھتے ہیں کہ اس مسئلہ کا کوئی شارٹ ٹرم حل نہیں ہے۔ ان کے مطابق سماج کا ‘ڈی کمیونلائزیشن’ ایک مکمل پروسیس کے تحت ہی ممکن ہے۔ کمیونلزم کے خلاف جو جدو جہد ہے اسے نئے سرے سے شروع کرنے کی ضرورت ہے۔
آئیے بات جہاں سے شروع ہوئی تھی، پھر وہیں لوٹتے ہیں۔ ہم یہ سمجھنے کی کوشش کر رہے تھے کہ کیا مسلمان واقعی ڈرا ہوا ہے ۔ یہ کہنے سے پہلے کہ مسلمان ڈرا ہوا ہے، اس بات کا تجزیہ ضرور ہونا چائے کہ آج کا مسلم یوتھ کیا سوچ رہا ہے اور بدلتی ہوئی سیاست کو وہ کیسے دیکھ رہا ہے۔اسد اشرف (ایسوسی ایٹ ایڈیٹر، دی سیٹیزن) اپنے فیس بک پوسٹ میں لکھتے ہیں؛
نہ تو ہم خوف زدہ ہیں، اور نہ ہی ہمارا حوصلہ پست ہوا ہے۔ گزشتہ پانچ سال ہمارے لئے مشکل بھرے تھے، اور ظاہر ہے آنے والا پانچ سال مزید مشکلوں سے بھرا ہوگا… لمبی ہے غم کی شام مگر شام ہی تو ہے۔ بھارت کے مسلمان بہت سنجیدگی سے سب کچھ بھانپ رہے ہیں، اور مجھے یقین ہے آنے والے پانچ سالوں میں یہ سنجیدگی کسی خوش کن نتیجہ میں تبدیل ہوگی۔
محمد ریاض (اسسٹنٹ پروفیسر، عالیہ یونیورسٹی، کولکاتا) نے اپنے فیس بک وال پر کیا لکھا ہے، ملاحظہ کریں؛
…تقسیم کے بعد ہم نے بد ترین قسم کے امتیازی سلوک کا سامنا کیا، ہم نے فسادات اور قتل عام جھیلا، بابری مسجد ہماری آنکھوں کے سامنے مسمار کر دی گئی، لیکن ان سب کے باوجود ہمارا وجود قائم ہے…مسلما ن ابھی بھی گجرات اور یوپی میں رہ رہے ہیں، اور اچھا کر رہے ہیں۔ ہم نے پانچ سال مصیبتوں کا سامنا کیا۔ ہمیں لنچ کیا گیا۔ ہاں، ہمیں اب مزید مصیبتوں کا سامنا کرنا پڑیگا۔ ہندوتوا فورسیز اور کمیونل ہندو-لبرل ہمیں حا شیہ بردار کرنے کے لئے ہر ممکن کوشش کریں گے۔ لیکن مجھے اس میں کوئی شک نہیں کہ ہم پہلے سے مزید مضبوط بن کر ابھریں گے۔ ہمارا حوصلہ مزید بلند ہوگا…
حسن امام رضوی کا فیس بک پوسٹ بھی پڑھیے؛
نہ میں تھکا ہوں، نہ ہارا ہوں۔ ظلم، نا انصافی اور کسی بھی طرح کی حق تلفی کے خلاف ا پنی لڑائی کو جاری رکھوں گا۔
ابو اسامہ اپنے مضمون میں لکھتے ہیں؛
ہم نے ابھی بھی ہار نہی مانی ہے۔ بھارت کے آئین میں ہمارا یقین ابھی بھی مسلم ہے۔ ابھی بھی ہم اپنے پڑوسی اور ہندو احباب پر بھروسہ کرتے ہیں۔ ہندوستان کے ہزار سال پرانے سیکولر ٹریڈیشن میں آج بھی ہمارا وشواش اٹوٹ ہے…2014 کے بعد سے جس اسپرٹ کے ساتھ ہم نے شروعات کی تھی، ہمیں اسے جاری رکھنا ہوگا۔ ہمیں کسی بھی لایعنی قسم کے سیاسی نعرہ بازی سے بچنا ہوگا…ہمیں یہ تسلیم کرنا ہو گا کہ نامساعد حالات نئے امکانات ضرور پیدا کریں گے…ہم سے بہتر ہماری بات کوئی اور نہیں کر سکتا۔
یہ چند مسلم نو جوانوں کے تاثرات تھے۔ یقین مانئے درجنوں نہیں سیکڑوں اور ہزاروں مسلمان سوشل میڈیا پر اپنی رائے بے با کی سے رکھ رہے ہیں۔ وہ بار بار اس متھ کوتوڑ رہے ہیں کہ مسلمان خوفزدہ ہیں۔ لہذا یہ بات نوٹ کرنے کی ہے کہ ملک کی بدلتی ہوی سیاسی تصویرسے مسلمان گھبرا ئے ہوئے نہیں ہیں۔ نئی نسل کی ہوشمندی اور سوجھ بوجھ سے ایسا معلوم پڑتا ہے کہ وہ اس بحران کوموقع میں تبدیل کرلیں گے، اور نہ صرف ‘مسلم سیاست’ کے معنی بدل ڈالیں گے بلکہ اپنی ترجیح بھی نئے سرے سے طے کریں گے۔
(مضمون نگار بلاگر اور مترجم ہیں۔)
Categories: فکر و نظر