انوپم کھیر جیسے کچھ فنکار تختی لےکر میڈیا کو مدعا دیتے ہیں۔ ان کی تصویر اسکرین پر دکھاکر گھر بیٹھے لوگوں کے ذہن میں زہر بھرا جاتا ہے۔ اس عمل میں مسلمان کو دوئم درجے کا شہری بنایا جاتا ہے۔ لیکن اس سے پہلے جن کے ذہن میں یہ کچرا بھرا جاتا ہے ان کو دوئم درجے کا شہری بنایا جا چکا ہوتا ہے۔ اس لئے وسیع ہندو مفاد میں یہ ضروری ہے کہ تمام نیوز چینل دیکھنا بند کر دیں۔ کیونکہ چینلوں میں مذہب کے نام پر ہندوؤں سے جھوٹ بولا جا رہا ہے۔
انوپم کھیر اور دو چار دوسرے فنکار تختی لئے کھڑے ہیں۔ اس تختی پر لکھا ہے پردھان منتری ایم پی ساکشی مہاراج کو پارٹی سے نکالیں۔
تختی ٹوئٹر پر ٹرینڈ کر رہی تھی۔ انوپم کھیر نے انصاف کا ترازو ہاتھ میں لے لیا تھا۔ ان کے ساتھ دو چار اور فنکار آ گئے تھے۔ساکشی مہاراج نے جیل میں بند بی جے پی کے ایم ایل اے کلدیپ سنگھ سینگر سے ملاقات کی تھی۔ ملاقات کے بعد ان کو مقبول عام رہنما بتایا تھا اور انتخاب کے لئے شکریہ کہا تھا۔ جیل میں بند کسی کو انتخاب کے لئے شکریہ کیوں اداکیا جاتا ہے اس کے لئے انوپم کھیر نے منوج واجپائی کی شول دیکھ لی تھی۔
سی بی آئی نے گزشتہ سال چارج شیٹ دائر کی تھی۔ الزام ہے کہ کلدیپ سنگھ سینگر نے ایک لڑکی کے ساتھ اپنے گھر پر مبینہ طور پر ریپ کیا تھا۔ وہ نوکری مانگنے گئی تھی۔ باپ نے جب مقدمہ کیا ہے تو اس کا بھی قتل ہو گیا۔ پوسٹ مارٹم رپورٹ کے مطابق اس کے جسم پر گہرے زخموں کے نشان تھے۔
میں نے دیکھا کہ تختی پر انوپم کھیر لکھ رہے تھے کہ مودی جی ریپ کے معاملے میں ملزم سے ملاقات، وہ بھی آپ کے رکن پارلیامان کی، آپ معاف کر دیں، میں معاف نہیں کر پاؤںگا۔ یہ کہتے ہوئے انہوں نے ٹوئٹ بھی کر دیا ہے کہ وہ حامی ہونے کے روزانہ کےکام سے استعفی دیتے ہیں اور ان کی رکن پارلیامان بیوی جن کی تشہیر کے لئے وہ چنڈی گڑھ گئے تھے، ان سے بی جے پی چھوڑنے کی اپیل کرتے ہیں۔
کیا آپ نے ایسی کوئی تختی دیکھی؟ کوئی ٹوئٹ دیکھا؟ نہیں نا۔ ہو بھی نہیں سکتا۔ انوپم کھیر کو پتہ ہے ایسا کوئی ٹوئٹ کر دیا تو مدد کے لئے انہی دانشوروں کو پکارنے لگیںگے جن کو علی گڑھ کے مقدمہ کو لےکر للکار رہے تھے۔
انوپم کھیرکے پاس انصاف کا ترازو ہے۔ اس ترازو کا باٹ یعنی جس سے وزن تولا جاتا ہے وہ ہندو رنگ کا ہے۔ وہ بی جے پی رنگ کا ہے۔ اسی سے وہ آلو بھی تولتے ہیں اور ریپ کے مقدمے بھی۔ جب بھی تولتے ہیں، نظر بچاکر ڈنڈی مار لیتے ہیں۔ ان کی دینداری مارکیٹ میں اپنی افادیت کو بنائے رکھنے کے لئے ہے۔ نہ کہ مذہب کے سچ کے لئے۔
ہم ہندوستانیوں کو پتہ ہے کہ پانچ گرام کم تول دینے سے نہ تو انصاف کا مقام چھوٹا ہو جاتا ہے اور نہ آلو خریدنے والے کا گھر برباد ہوتا ہے۔ کاروبار چلتا رہتا ہے۔ اس کو روکنے کے لئے ذمہ داری اور ناپ-تول افسر ہندوستان میں ہی پائے جاتے ہیں۔ انوپم کھیر بھی ہندوستان میں ہی پائے جاتے ہیں۔ پائے جاتے رہیںگے۔
علی گڑھ کے ٹپل میں اس بچی کے ساتھ جو ہوا اس کو لےکر ایک ہندو ابال گڑھنے کی کوشش کی گئی۔ صبح سے مجھے فون آنے لگے کہ 2002 دوہرا دیںگے، ملا کو سبق سیکھا دیںگے۔ بھیجنے والا اس دلیری سے بھیجتا ہے جیسے حکومت کا حکم نامہ ہو۔ جون 2017 کو وزیر اعظم مودی نے سابرمتی میں کہا تھا کہ تشدد سے کسی چیز کا حل نہیں ہو سکتا۔ اسی تقریر میں کہا تھا کہ گاندھی ہوتے تو گائے کے نام پرقتل کو معاف نہیں کر پاتے۔ آج دس دن سے زیادہ ہو گئے، گاندھی کے قاتل کو محب وطن بتانے والی رکن پارلیامان پرگیہ ٹھاکر کے خلاف کوئی قدم نہیں اٹھایا جا سکا ہے۔ ہم یہ داخلی انتشار روز دیکھتے ہیں۔ ہم تو روز خاموش رہتے ہیں۔
جیسے ملک میں ہونے والے ہزاروں قتل اور ریپ کے واقعات پر خاموش ہونے کی چھوٹ ہے۔ آپ کا خاموش ہونا ان تمام قتل میں شامل ہونا نہیں مانا جائےگا۔ علی گڑھ معاملے کے جرم میں شامل نہیں ہیں تو آپ کو بولنا ہی ہوگا کیونکہ ملزم کے نام زاہد اور اسلم ہیں۔ کیونکہ دونوں مسلمان ہیں۔
ایک میسیج میں للکارا گیا کہ اخلاق اور آصفہ پر بولنے والے اس بچی پر کیوں خاموش ہیں۔ 2018 میں کٹھوعہ کی آصفہ کے ساتھ ریپ کرنے والے کی حمایت میں ایک ریلی نکلی تھی۔ اس ریلی میں بی جے پی کے وزیر شامل ہوئے تھے۔ 1 مارچ کو ہندو ایکتا منچ نے ریپ کے ملزمین کےحق میں ترنگا لےکر ریلی نکالی تھی۔ کیا ترنگا اس لئے ہے؟ اسی میں وزیر کےعہدے پر رہتے ہوئے لال سنگھ اور چندر پرکاش نے تقریر کی تھی۔ ہندی کے ایک بڑے اخبار نے اس خبر پر غلط فہمی پھیلائی تھی۔ ایک پورا سسٹم کھڑا تھا ریپ کرنے والےکی حمایت میں۔ اس لئے لکھنے والے چند لوگوں نے لکھا تھا۔
دادری کے اخلاق کا قتل جرم کا واقعہ نہیں تھا۔ اس واقعہ کی بنیاد میں فرقہ وارانہ نفرت تھی اور اس فرقہ وارانہ نفرت کے ساتھ بہت سارے لوگ کھڑے تھے۔ یہی نہیں جب قتل کے ایک ملزم روی سسودیا کی موت ہوئی تب اس کی میت کو ترنگا پرچم سے لپیٹا گیا۔ انوپم کھیر کبھی تختی نہیں بنائیںگے کہ یہ ترنگا کی بے عزتی ہے۔ ہندوستان کی بے عزتی ہے۔ کیونکہ انوپم کھیر کو صحیح غلط کم ہندو اور مسلمان زیادہ دکھتا ہے۔ مجرم میں صرف مسلمان دکھتا ہے۔ جرم میں صرف مسلمان میں دکھتا ہے۔
مجھے اخلاق کے لئے ہی نہیں ملزم روی سسودیا کے لئے بھی افسوس ہے۔ گائے کے تحفظ کے نام پر فرقہ وارانہ زہر نے اس کو لپیٹے میں نہ لیا ہوتا تو آج اس کی فیملی میں خوشیاں ہوتیں۔ نفرت کی یہ سیاست ہمارے گھروں میں لڑکوں کو فسادی اور قاتل بنا رہی تھی۔ چینلوں کے اینکر قاتل بنائے جانے کے ماحول کو صحیح بتا رہے تھے۔ چند دانشور اس کی مخالفت کر رہے تھے۔ نہ ان کے پاس میڈیا تھا، نہ ان کے ساتھ حکومت تھی، پھر بھی وہ اکیلے کھڑے ہوکر مخالفت کر رہے تھے۔
نفرت کے خلاف بولنا کیا اتنا بڑا جرم ہے کہ ان کو ہر بات میں للکارا جائے؟ میں تو آج بھی کہتا ہوں کہ فرقہ پرستی انسان کو انسانی بم میں بدل دیتی ہے۔ آپ کے بچے کوڈاکٹر بننا چاہتے ہیں، فرقہ پرستی فسادی بنانا چاہتی ہے۔
انوپم کھیر نے اپنی تختی پر صرف انصاف کی بات لکھی۔ انصاف کی مانگ غلط نہیں ہوتی مگر یہ مانگ اس ایکو سسٹم کے حصے کی نمائندگی تھی جو اس کے پیچھے فرقہ وارانہ رنگ کھیل رہا تھا۔ جو اس کے بہانے دانشوروں کی خاموشی کو للکار رہا تھا۔ مالنی اوستھی اپنے فیس بک پر لکھ رہی ہیں کہ گھناؤنے گناہ کے گناہ گاروں کے لئے سوشل ایکٹوسٹوں کے آنسو نہیں۔ دانشوروں کے ٹوئٹ نہیں۔ یہ سب اس ایکوسسٹم کا پارٹ ہے جو ایسے واقعات کے وقت الگ الگ کناروں سے امڈ پڑتا ہے۔ ان کی تختی انصاف کے لئے نہیں ہے، انصاف کے بہانے کچھ اور ہے۔ احمد آباد میں مجرموں کے گروہ نے حملہ بول دیا اور بیس دن کے بچےکا قتل کر دیا۔ اگر اس کے ملزم کا نام ہتیش مارواڈی اور ستیش پٹنی کی جگہ زاہد اور اسلم ہوتا تب یہی لوگ انصاف کی مانگکر رہے ہوتے۔ 2002 کی یاد دلا رہے ہوتے۔
علی گڑھ کے واقعہ کے بہانے پھر سے اس فرقہ پرستی کی چنگاری بھڑکائی جا رہی ہے۔ پولیس نے ٹوئٹ کیا ہے کہ ریپ کی تصدیق نہیں ہوئی ہے۔ افواہ نہ پھیلائیں۔ پھر افواہ کو ہوا دینے والوں کا مقصد کیا رہا ہوگا؟ بچی کا قتل بھی کم گھناؤنا نہیں ہے۔ توبھی یہ فرقہ وارانہ کیسے ہوا؟ کیا ریاستی حکومت خوش آمدی کے نام پر زاہد اور اسلم کو بچا رہی تھی؟ کیا ہم میں سے کوئی زاہد اور اسلم کے ساتھ کھڑا تھا؟ کیا علی گڑھ کے مسلمان ان ملزمین کے حق میں کٹھوعہ کی طرح ریلی نکال رہے تھے؟ سب کا جواب نا میں ملےگا۔ جو خاموش ہیں ان کے یہاں بھی اور جو بول رہے ہیں ان کے یہاں بھی۔ مگر جو پوچھ رہے ہیں ان سے حساب کون مانگےگا؟
جب یہی دانشور روزگار کے مسئلہ سے لےکر وزیر اعظم کے بولے گئے جھوٹ پر مضمون لکھتے ہیں تب تو یہ اینکر ان کی باتوں کو لےکر حکومت کو نہیں للکارتے ہیں۔ جیسے ہی ان کو کسی معاملے میں کوئی مسلمان دکھتا ہے یہ صحافت کے نام پر جنون پھیلانے لگتے ہیں۔ انوپم کھیر جیسے کچھ فنکار تختی لےکر میڈیا کو مدعا دیتے ہیں۔ ان کی تصویر اسکرین پر دکھاکر گھر بیٹھے لوگوں کے ذہن میں زہر بھرا جاتا ہے۔ اس عمل میں مسلمان کو دوئم درجے کا شہری بنایا جاتا ہے۔ لیکن اس سے پہلے جن کے ذہن میں یہ کچرا بھرا جاتا ہے ان کو دوئم درجے کا شہری بنایا جا چکا ہوتا ہے۔ اس لئے وسیع ہندو مفاد میں یہ ضروری ہے کہ تمام نیوز چینل دیکھنا بند کر دیں۔ کیونکہ چینلوں میں مذہب کے نام پر ہندوؤں سے جھوٹ بولا جا رہا ہے۔
یہ نیوز چینل کتابوں کے اس حصے کی بھی توہین کرتے ہیں جن میں لکھا ہے کہ سچا مذہبی انسان وہ ہے جو سچ کے لئے سر کٹا دے۔ جو بے خوف ہو۔ نیوز چینلوں کی دینداری تو جھوٹ کی بنیاد پر کھڑی ہے۔ ان میں بے خوفی دیکھنی ہو تو اینکر کے سامنے امت شاہ کو کھڑا کر دیجئے۔ ایسے اینکر صحافت اور نہ ہی کسی مذہب کے نمائندہ ہو سکتے۔ جن اینکروں کی حکومت کے سامنے حلق سوکھ جاتی ہے، جو حکومت کے لئے جھوٹ پھیلاتے ہیں، وہ آپ کو ہندو ہونا سکھانے لگے تو محتاط ہو جائیے۔
آخر میں مودی حامیوں سے ایک بات کہنا چاہتا ہوں۔ جھوٹ، مایا اور بےشمار پیسے کے دم پر کھڑی سیاست کی مخالفت کیجئے۔ آپ سچ کی تقسیم ہندو سچ اور مسلم سچ میں مت کیجئے۔ آپ اقتدار کے ساتھ کھڑے ہیں تو آپ کی جوابدہی زیادہ ہے۔ آپ اس سچ کے ساتھ کھڑے ہوئیے جو سچ ہوتا ہے۔ اقتدار کے لئے جھوٹ کو سچ مت بنائیے۔
سچا ہندو ڈرپوک نہیں ہوتا ہے۔ وہ سچ کے لئے اقتدار سے بھڑ جاتا ہے۔ اس کو افواہوں کے پیچھے چھپکر سیاسی کامیابی حاصل کرنے اور نفرتوں کی بنیاد پر ایک سیاسی آدمی کی تعمیر کرنے کی مخالفت کرنی چاہیے۔ جرم سے لڑنا چاہیے، مجرم کے مذہب سے نہیں۔ سچا ہندو صحافت کے سچ اور مذہب کے لئے بھی لڑےگا نہ کہ گودی میڈیا کے اینکروں کے جھوٹ کے لئے۔
چینلوں کے ذریعے ہندوؤں کی شکست کا راستہ مت چنیے۔ چینلوں کے ہندو مہلک مفاد کے ہیں۔ ان کے یہاں سچ کی بااخلاق طاقت نہیں ہیں۔ جہاں سچ کی بااخلاق طاقت نہیں ہوگی وہ سچا ہندو نہیں ہو سکتا ہے۔ آپ ہندو مذہب کی بات کرنے والوں کے ٹائم لائن پر جاکر دیکھیں۔ حکومت سے شاید ہی کبھی کوئی سوال مل جائے۔ یہ اینکر تو اپنے شہری ہونے کا فرض نہیں نبھا پا رہے ہیں، ہندو ہونے کا کیا نبھائیںگے۔
وزیر اعظم نے ابھی ابھی تو سب کا ساتھ-سب کا وشواس کا نعرہ دیا ہے۔ انوپم کھیر نے ان کے اس نعرے کے اصل تاثر کی توہین کی ہے۔ کھیر کی تختی جھوٹ اور نفرت کی بنیاد ایک کمیونٹی کے متعلق ڈر اور عدم اعتماد کو گہرا کرتی ہے۔جس طرح سے وزیر اعظم نے ساکشی مہاراج اور پرگیہ ٹھاکر کے متعلق فیاضی دکھائی ہے، میں چاہوںگا کہ وہ انوپم کھیر کے متعلق بھی فیاضی دکھائیں۔ اتنی سی بات کے لئے کوئی کارروائی نہ کریں۔ کیونکہ صرف انوپم کھیر ہی نہیں ہیں۔ ایسے لوگ رہیںگے۔ وہ اگر کچھ کر سکتے ہیں تو اپنی گودی میڈیا کے اینکروں سے کہیں کہ ہندو مسلمان بند کرو۔ چاہو تو چار-پانچ انٹرویو اور لے لو۔ ان کے پاس دکھانے کو کچھ نہیں ہے۔
(یہ مضمون بنیادی طور پر رویش کمار کے بلاگ قصبہ پر شائع ہوا ہے۔)
Categories: فکر و نظر