وزیر داخلہ امت شاہ کے مطابق دفعہ 370 کی وجہ سے جو سہولیات جموں و کشمیر کی عوام کو نہیں مل سکیں، کیا وہ گجرات کے شہریوں کو بی جے پی کے 22 سالوں کی حکومت میں ملی ہیں؟
ڈیئر امت شاہ جی،
مجھے سمجھ نہیں آیا کہ مذہب کی اتنی دہائی دینے والی آپ کی حکومت نے امرناتھ یاترا کو باضابطہ طور پرشروع ہونے کے پہلے (اصول کے مطابق وہ 3 اگست کو چھڑی مبارک کے ساتھ شروع ہوتی ہے) کیوں ختم کر دیا؟جو آج تک نہیں ہوا۔ اور ساتھ میں دو دیگر مذہبی یاتراؤں کو بیچ میں ہی ختم کر کےجموں و کشمیر میں آئین کی دفعہ 370 ختم کرنے کا فیصلہ اس تاناشاہی طریقے سے کیوں لے رہے ہیں؟
کیا بندوق کے سایے میں آئین بدلنے کا عمل صحیح ہے؟ کیا اس کو 15 اگست کے پہلے لانا ضروری تھا، اس لئے آپ نے کروڑوں لوگوں کے عقیدے اور جمہوریت کسی کا بھی دھیان نہیں رکھا؟مجھے یہ بھی سمجھ نہیں آیا کہ رام کے نام کی دہائی دینے والی آپ کی حکومت’رگھوکل ریت سدا چلی آئی، پران جائے پر وچن نہ جائے’ کو کیسے بھول گئی۔ چاہے وہ جس بھی شکل میں ہو، لیکن ہم نے جموں وکشمیر کو ہندوستان کا حصہ بناتے وقت آئین کی دفعہ 370 کا وعدہ کیاتھا۔
خیر، اگر آپ یہ مانتے ہیں کہ ہمارے پاس مناسب اکثریت ہے اور ہم سب کچھ کر سکتے ہیں، تو پھر اس بارے میں کسی بھی آئینی اور قانونی بحث کا کوئی مطلب نہیں ہے۔مگر، اس تعلق سے راجیہ سبھا میں دئے گئے آپ کے جواب اوردلائل کو میں نے توجہ سے سنا، میں اس پر ضرور کچھ کہنا چاہوںگا۔ آپ کے مطابق آپ یہ بل وہاں کی عوام کے مفاد میں لا رہے ہیں اور اس کے ہٹنے سے وہاں ترقی کے نئے راستے کھلیںگے، جو آج تک اس دفعہ کی وجہ سے ممکن نہیں تھا۔
وہاں نوجوانوں کو روزگار کے مواقع ملنے کی بات بھی آپ نے کہی اور رائٹ ٹو ایجوکیشن سے لےکر وزیر اعظم آیوشمان یوجنا کا فائدہ وہاں کی عوام کو ملےگا۔آپ کے مطابق دفعہ 370 کی وجہ سے آج وہاں صحت کی صحیح سہولت نہیں ہے۔ اس دفعات کے ہٹنے پر وہاں پی پی ماڈل (نجی اور سرکاری تعاون سے) کے تحت صحت اور تعلیمی نظام قائم کر سکنے کی بات کہی۔
آپ نے دلتوں اور آدیواسیوں کو ان کا حق دینے میں آئی رکاوٹ اور وہاں موجود بدعنوانی کی بات بھی رکھی۔ آپ نے سب سے زیادہ زور نجی سرمایہ کاری پر دیا۔آپ کی دلیلوں کو سننے کے بعد میں نے یہ سمجھنے کی کوشش کہ کیا واقعی جموں و کشمیر کے شہریوں کو دفعہ 370 کی وجہ سے یہ سب سہولت نہیں مل پا رہی ہے؟ اور کیا واقعی میں پچھلے 24 میں سے 22 سال تک آپ کی پارٹی کے ذریعے گجرات میں یہ سب سہولت وہاں کے شہریوں کو دستیاب ہے؟
جب میں نے اقوام متحدہ کے 1995 ہیومن ڈیولپمنٹ انڈیکس کو دیکھا، تو پایا کہ کیرل جہاں آج تک آپ کی حکومت نہیں رہی، وہ پہلے نمبر پر ہے، جموں و کشمیر اس معاملے میں 11ویں پر، اور گجرات 15ویں نمبر ہے۔اتناہی نہیں، میں نے یہ بھی جاننے کی کوشش کی کہ ترقی کے گجرات ماڈل میں تعلیم کے کیا حالات ہیں۔ یہاں اسکول میں اور رائٹ ٹو ایجوکیشن کو لےکر وہاں کی حکومت کیا سوچتی ہے۔
آپ کی ہی مرکزی حکومت کے وزارت برائے ترقی انسانی وسائل کے ذریعے کئے گئے ‘ نیشنل اچیومینٹ سروے ‘ جو جنوری 2018 میں جاری ہوا، کے بارے میں 7 مئی، 2018 کے انڈین ایکسپریس نے لکھا ہے؛وہاں ابتدائی تعلیم کے حالات بدتر ہیں؛لاکھوں بچے اپنی مادری زبان گجراتی میں ایک معمولی جملہ نہیں لکھ پائے۔آپ نے کہا کہ جمّوں اور کشمیر میں کوئی کارپوریٹ اعلیٰ تعلیم میں سرمایہ کاری نہیں کرنا چاہتا، لیکن اعلیٰ تعلیم کے معاملے میں بھی گجرات پسماندہ ہی نکلا۔ یہاں 18 سے 23 سال کے صرف 20 فیصد لوگ ہی اعلیٰ تعلیم پاتے ہیں ؛ یہ قومی اوسط سے بھی کم ہے۔
یہاں سرکاری اسکولوں کے حالات خراب ہونے کی وجہ سے نجی تعلیمی ادارے کی مانگ بڑھنے سے فیس میں بھی بھاری اضافہ کی بات کہی ہے۔ کیا آپ یہی ماڈل جموں و کشمیر کی عوام پر تھوپنا چاہتے ہیں؟سب سے کمال کی بات تو یہ ہے، گجرات کی حکومت نے ابتدائی تعلیم کی گرتی سطح کے لئے حق تعلیم قانون کو قصوروار مانا۔ کانگریس کے ذریعے لائے گئے اس قانون کی وہاں کی حکومت آج بھی مخالفت کر رہی ہے اور آپ اس کو جموں و کشمیر میں نافذ کرنے کی بات کر رہے ہیں۔
رضا کار تنظیموں کے ذریعے جاری تعلیم کی صورت حال پر جاری سالانہ رپورٹ میں بھی تقریباً یہ بات کہی گئی ہے۔اتناہی نہیں صحت کے بھی سارے معیارات میں گجرات، اس وقت آپ کی سب سے بڑی سیاسی حریف ممتا بنرجی کے مغربی بنگال سے بھی، ہر معاملے میں پیچھے ہے۔جیسے وہ مکمل ٹیکاکاری کے معاملے میں پہلے نمبر پر ہیں، تو آپ 12 پر ؛ دیہی ہیلتھ سینٹر میں پیدائش کےمعاملے میں جہاں وہ 7 نمبر پر ہے، تو آپ 14یں پائیدان پر ہے۔
یہاں کے 40 فیصد بچےstunted growth کا شکار ہیں۔ گجرات میں بچوں میں غذائی قلت کے حالات یہ ہیں کہ یہ پانچ سال سے کم کے بچوں کا بچپن برباد ہونے کے معاملے میں 34ویں نمبر پر ہے ؛ جو 2005-06 میں 18.7فیصد تھا، 2015-16 میں بڑھکر 26.4 فیصد ہو گیا۔ساتھ ہی گجرات میں تپ دق کے مریض سب سے زیادہ ہیں ؛ اتر پردیش کے علاوہ یہی واحد ریاست ہے، جہاں پچھلی ایک دہائی میں ان کے معاملے بڑھے ہیں۔ یہاں کے ہسپتالوں کے حالات کے بارے میں آپ نے سی اے جی کے ذریعے 2016 میں جاری رپورٹ تو دیکھی ہی ہوگی۔
جہاں تک روزگار دینے کی بات ہے، وہ بات امت شاہ جی آپ نہ ہی کریں تو بہتر ہے کیونکہ نیشنل سیمپل سروے کی حالیہ رپورٹ میں بےروزگاری کی حالت 45 فیصد کے سب سے بری سطح پر ہے۔آپ نے بد عنوانی کی بات کی، اس میں دفعہ 370 کا کیا لینا دینا، یہ تو ہمارے نظام کی کمزوری ہے۔ اس سے کوئی ریاست، رہنما اور پارٹی اچھوتی نہیں ہے۔گجرات کے معاملے میں سی اے جی کی کئی رپورٹ ہیں۔ آپ کے بیٹا جئے شاہ پر بھی اس معاملے میں سوال اٹھے ہیں۔
اتناہی نہیں، ان معاملوں میں ملک بھر میں 71 فیصد ملزم کے سزا سے بچ جانے کے ملک کا ریکارڈ بھی گجرات کو ہی حاصل ہے۔اور جہاں تک دلتوں، آدیواسیوں کے حق کی بات ہے، ان کے ساتھ باقی ہندوستان میں کیا ہو رہا ہے ؛ اور خاص طورپر پچھلے 5 سالوں میں یہ کسی سے چھپا نہیں ہے۔ اتناہی نہیں کسانوں کی خودکشی کے معاملے بڑھے ہیں۔
گجرات ماڈل میں کارپوریٹ کی لوٹ بڑھی ہے اور اس کی مار غریبوں پر پڑی ہے۔ اس کا کوئی بھی فائدہ وہاں کی عوام کو نہیں ملا ہے۔سب سے بڑی بات، وہی اس ریاست کے ماحول اور خوبصورتی کو بچائے رکھنے کے لئے ضروری ہے کہ یہاں کمپنیوں کو کھلی چھوٹ دےکر دیگر آدیواسی علاقوں کی طرح اس کو بھی برباد نہ کیا جائے۔
یہ جگہ ماحولیاتی تبدیلی کے لئے بہت ہی اہم ہے اور اس کو لےکر وہاں کی سول سوسائٹی لگاتار کوشش بھی کر رہی ہیں، کہ کیسے یہ مدعا نمایاں طور پر سامنے آئے۔آپ ترقی کے چاہے جتنے وعدے کر لیں، لیکن جب آئین کی کسی دفعہ کا کوئی رکاوٹ نہیں ہونے کے باوجود آپ اپنی پارٹی کے پچھلے 24 میں سے 22 سال کی حکومت میں گجرات کی عوام کو کچھ بھی نہیں دے پائے،توسبزباغ دکھاکر آپ کس کو سمجھنا چاہتے ہیں؟
اصل میں آپ باقی ہندوستان کے عوام کے اصلی مدعوں سے دھیان بھٹکانے کے لئے یہ کھیلکے رہے ہیں۔
میری گزارش ہے آپ یہ کھیل بند کریں۔
(مضمون نگار سماجوادی جن پریشد سے وابستہ ہیں۔)
Categories: فکر و نظر