نیا یو اے پی اے قانون حکومت کو غیرمعمولی اختیارات دینے والا ہے، جو اس کی طاقت کے ساتھ ہی اس کی جوابدہی کوبھی بڑھاتا ہے۔
کیا سرکاری افسروں اور سیاستدانوں کو-‘خواہ وہ امت شاہ کی طرح اخلاقی طور پر ایماندار جمہوریت پسند ہی کیوں نہ ہوں ‘، ‘جن کاقانون کی حکومت کا احترام کرنے کا لمبا ریکارڈ ہو ‘-کسی شخص کو ‘دہشت گرد ‘قرار دینے کا اختیاردیا جا سکتا ہے؟ وہ بھی بنا اس شخص پر مقدمہ چلائے اور اس کو مجرم ثابت کئے بغیر؟نریندر مودی حکومت یو اے پی اے میں ایک ترمیم کے ذریعے خود کو ٹھیک اسی طاقت سے لیس کرنے کا منصوبہ بنا رہی ہے۔سب سے خراب یہ ہے کہ یہ تبدیلی-جو کہ ہندوستان کی تاریخ کا اب تک کا سب سے خطرناک قانون ہے-لوک سبھا اور راجیہ سبھا دونوں سے پاس ہو چکا ہے۔ یو اے پی اے میں ترمیم کرنے کا بل مرکزی وزیر داخلہ کے ذریعے لوک سبھا میں جولائی کے آخری ہفتے میں پہلے لایا گیا تھا اور اس کو مختصر بحث کے بعد پاس کر دیا گیا۔
مہوا موئترا اور اسدالدین اویسی جیسے کچھ اپوزیشن رہنما نے اس بل کے خطرناک پہلوؤں کی طرف دھیان دلانے کی پوری کوشش کی، لیکن چونکہ این ڈی اے کے پاس لوک سبھا میں زبردست اکثریت ہے، اس لئے ان کی تشویش کو آسانی سے خارج کر دیا گیا۔این ڈی اے کے پاس راجیہ سبھا میں اکثریت نہیں ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ ا س کے مخالفوں کے پاس حکومت کو بل کو سلیکٹ کمیٹی کے پاس تجزیہ کے لئے بھیجنے کے لئے مجبور کر دینے اور اس میں ترمیم کروانے لائق تعداد تھی، لیکن آر ٹی آئی قانون میں ترمیم اور تین طلاق کو جرم قرار دینے والے قانون کے ساتھ جو ہوا، اس کو دیکھتے ہوئے یہ صاف ہے کہ بی جے پی نے حزب مخالف کو خاموش کرانے کا طریقہ سیکھ لیا ہے۔
یو اے پی اے کو پہلی بار 1967 میں منظور کیا گیا تھا اور اپنی اصل شکل میں اس سے حکومت کو کسی تنظیم کو غیر قانونی قرار دینے کی طاقت مل گئی تھی۔ اس میں’غیر قانونی سرگرمیوں’اور جرم کی وضاحت بھی کی گئی تھی۔2004 میں دہشت گردی کو جرم کے دائرے میں لانے کے لئے اس قانون میں ترمیم کی گئی تھی اور کسی تنظیم کو دہشت گرد قرار دینےاور اس کو پر پابندی عائد کرنےکا اختیار حکومت کو دیا گیا تھا، حالانکہ اس کا جوڈیشیل ریویو کرایا جا سکتا تھا۔2004 کی ترمیم نے بھی پولیس کو پوچھ تاچھ کی بڑھی ہوئی طاقت دی گئی تھیں اور گرفتار کئے گئے آدمی کے لئے ضمانت لینا کافی مشکل بنا دیا گیا۔ ضمانت کے لئے یہ ضروری تھا کہ کورٹ کو اس بات کا یقین ہو جائے کہ گرفتار کیا گیا آدمی اس پر لگائے گئے جرم کے الزام کا پہلی نظر میں مجرم نہیں ہے۔
نیا بل اس قانون میں دو اہم نکات کو جوڑتا ہے۔ پہلا، یہ نیشنل جانچ ایجنسی کے لئے ویسے معاملوں کو بھی براہ راست اپنے اختیار میں لینے کی راہ ہموار کرےگا، جو شاید ہی ریاستی پولیس کے دائرہ اختیار میں آتے ہیں۔یہ ہندوستان کے وفاقی ڈھانچہ کو اور کمزور کرنے اور مرکزی حکومت کے ہاتھ میں بڑی طاقت دینے والا ہے، لیکن ہندوستانی جمہوریت کو اصلی خطرہ دوسری تبدیلی سے ہے۔ یہ ترمیم مرکز کو نہ صرف تنظیم بلکہ کسی بھی آدمی کو دہشت گردقراردینے کی طاقت دیتا ہے۔لوک سبھا میں امت شاہ نے گول مول طریقے سے یہ کہا کہ دہشت گرد قرار دینے کی کارروائی سے صرف ان لوگوں کو ڈرنے کی ضرورت ہے، جو دہشت گرد ہیں؛
‘ یو اے پی اے میں فرد خاص کو کب دہشت گرد قراد دیا جائےگا، اس کا اہتمام ہے۔ دہشت گرد کارکن ہے یا اس میں حصہ لیتا ہے-اب اس میں دو رائے ہو سکتی ہے کیا؟ کوئی آدمی دہشت گردی کے کام کرےگا یا حصہ لےگا، تو اس کو دہشت گرد قرار دینا چاہیے یا نہیں کرنا چاہیے؟
اس کے لئے، دہشت گردی کی پرورش میں، تیار کرنے مین، جو مدد کرتا ہے، اب اس کو بھی دہشت گرد قرار دینا چاہیے۔
کوئی دہشت گردی کو بڑھاوا دینے کے لئے رقم کی فراہمی کراتا ہے تو میں مانتا ہوں کہ اس کو بھی دہشت گرد قرار دینا چاہیے۔
دہشت گردی کے لٹریچر کو اور دہشت گرد ی کے نظریے کو نوجوانوں کے دل میں اتارنے کے لئے جو کوشش کرتا ہے۔ میں مانتا ہوں دہشت گرد بندوق سے پیدا نہیں ہوتا-دہشت گردی کو پھیلانے کے لئے جو تشہیر ہوتی ہے، ہیجان پھیلایا جاتا ہے، وہ دہشت گردی کی بنیاد ہے۔ اور اگر اس سب کو دہشت گردقراردیتے ہیں، تو میں مانتا ہوں کہ ایوان کے کسی بھی ممبر کو کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔ ‘
شاہ کی دلیل بےحد نمائشی ہے اور بس دو سوال کے سامنے اس کی قلعی کھل جاتی ہے؛کسی آدمی کو دہشت گرد قرار دینے کا مقصد کیا ہے؟اس بات کی وضاحت کون کرےگا کہ ‘دہشت گرد انہ لٹریچراور دہشت گردانہ نظریہ’کیا ہے اور آخر کون-سی سرگرمیاں ان خیالات کو نوجوانوں کے دل میں بھرنے والی مانی جائیںگی؟
ڈرنے کی وجہ،پارٹ ون
شاہ آرام دہ طریقے سے پارلیامنٹ کو یہ یاد دلانا بھول گئے کہ اگر کوئی آدمی، یو اے پی اے کی تعریف کے مطابق دہشت گردانہ سرگرمیوں میں حصہ لیتا ہے، تو حکومت کے پاس پہلے سے ہی موجود ایکٹ کے باب 4 کے تحت اس پر مقدمہ چلانے اور اس کو سزا دلانے کا اختیار ہے۔ اصل میں ایسے درجنوں مقدمے اسی بنیاد پر چلائے گئے ہیں۔دوسرے لفظوں میں، اگر افسروں کی نظروں میں کوئی’دہشت گرد ‘ہے، تو ان کے پاس موجودہ یو اے پی اے کے تحت اس کو گرفتار کرنے اور اس پر مقدمہ چلانے کا مکمل اختیار ہے۔ اور اگر ان کے پاس اپنے دعووں کی حمایت میں پختہ ثبوت ہیں، تو عدالت یقینی طور پر اس شخص کو قصوروار قرار دےگا اور اس کو جیل بھیجےگا۔
شاہ کو پہلے سے ہی کام کے بوجھکے تلے دبے نظام پر ایک دہشت گرد کے خلاف کارروائی کی ایک اور پرت لادکر-اس کو رسمی طور پر دہشت گرد قرار دے کر-اور بوجھ کیوں ڈالنا چاہیے، جبکہ این آئی اے اس کو سیدھےمجرم ثابت کر سکتی ہے اور جیل بھیج سکتی ہے؟ خاص طور پر تب جب نئے قانون میں حیرت انگیز طور پر دہشت گرد قرار دیے گئے کسی آدمی کے قانونی حشر کے بارے میں کچھ بھی نہیں لکھا گیا ہے۔اس کا جواب-اور جس سے ہمیں فکرمند ہونا چاہیے-یہ ہے کہ کسی آدمی کو دہشت گرد قرار دینا، مرکزی حکومت کو کسی آدمی پر دہشت گرد کا ٹھپہ لگانے کی طاقت دیتا ہے، بھلےہی اس کے پاس اس پر مقدمہ چلانے اور اس کو قصوروار ثابت کرنے کے لئے ثبوت نہ ہو۔ دوسرے الفاظ میں کہیں، تو یہ یہ سزا کا غیرقانونی روپ ہے۔
اگر فرضی انکاؤنٹر پولیس کو کورٹ میں گئے بنا کسی آدمی، مثال کے لئے کوثر-بی اور اس کے شوہر سہراب الدین کو موت کی سزا دینے کی طاقت دیتا ہے، کسی آدمی کو دہشت گرد قرار دینے کے شاہ کا منصوبہ حکومت کو اس کے نشانے پر آئے کسی آدمی کو عدالت لے جائے بنا یا جیل بھیجے بنا اس کی زندگی کو جہنم بنانے کی طاقت دیتا ہے۔ایک بار کسی آدمی کو دہشت گردقرار دینے کے بعد اس کی نوکری چلی جائےگی۔ اس کا مکان مالک اس کو گھر سے نکال دےگا۔ اس کے بچوں کے لئے اسکول جانا محال ہو جائےگا۔ ہرکوئی اس کو شک کی نظروں سے دیکھےگا اور پولیس اس کو اور اس سے ملنے والے لوگوں کو پریشان کرتی رہےگی۔
کہنے کے لئے یو اے پی اے کی ترمیم میں اپیل کا اہتمام کیا گیا ہے، لیکن تجزیہ کرنے والی تین رکنی کمیٹی کی تشکیل خود حکومت کے ذریعے کی جائےگی۔ اس کمیٹی کے دو ممبر نوکری سے وابستہ نوکرشاہ ہوںگے۔ اس کے صدر ہائی کورٹ کے جج یا سبکدوش جج ہوںگے۔لیکن سیاسی طور پر حساس کمیشن اور کمیٹیوں کے لئے اپنی پسند کے لوگوں کو چننے کا اس حکومت کا جو ریکارڈ رہا ہے، اس کو دیکھتے ہوئے امکان یہی ہے کسی شخص کے لئے اپنے اوپر لگائے دہشت گرد کے ٹھپے کو چیلنج دینا کافی مشکل ہوگا۔
ڈرنے کی وجہ، پارٹ ٹو
شاہ نے پارلیامنٹ میں کہا کہ جو لوگ ‘پروپیگنڈہ’اور’مذہبی ہیجان’کے ذریعے نوجوانوں کے ذہن میں دہشت گردانہ لٹریچر اور دہشت گردانہ نظریے بھرنے کی کوشش کرتے ہیں، ان کو نئے قانون کے تحت دہشت گرد قرار دیا جائےگا۔یو اے پی اے کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ یہ دہشت گرد لٹریچر اور دہشت گردنہ نظریے کو واضح نہیں کرتا ہے۔اور پولیس کے رویے کو دیکھتے ہوئے-اور ہندوستان میں سیاسی مخالفوں اور ناقدین کو نشانہ بنانے کے لئے حفاظتی قانون کے مسلسل غلط استعمال کے رجحان کو دیکھتے ہوئے-کیا ہم سچ مچ میں وزارت داخلہ کے افسروں کو کسی آدمی کو صرف اس بنیاد پر دہشت گرد قرار دینے کا حق دینے کے لئے تیار ہیں کہ اس کے گھر میں کمیونسٹ مینی فیسٹویا ماؤ کی لال کتاب ہے؟
اگر جھارکھنڈ میں پولیس نے ہزاروں آدیواسیوں پر پتھل گڑی تحریک-جو صرف آدیواسیوں کو دئے گئے آئینی حقوق کی بات کرتا ہے-کو حمایت دینے کے لئے سیڈیشن کا الزام لگاکر ان پر مقدمہ چلایا ہے، تو آپ اس بات کے لئے بےفکر رہ سکتے ہیں کہ کسی آدمی کو دہشت گرد قرار دینے کی طاقت کا کھل کر غلط استعمال کیا جائےگا۔موجودہ یو اے پی اے قانون کا استعمال سُدھا بھاردواج جیسے بے لوث اور سچے کارکنان کے خلاف بےحد کمزور مقدمہ دائر کرنے کے لئے کیا گیا ہے۔ زندگی بھر عدالتوں کے ذریعے مزدوروں، عورتوں، آدیواسیوں اور کسانوں کے حقوق کے لئے لڑنے والی بھاردواج کو گزشتہ سال اگست میں گرفتار کیا گیا تھا۔ اس اگست میں ان کو بنا ضمانت کے جیل میں ایک سال پورا ہو جائےگا۔
ان کے، سریندر گاڈلنگ، ورور راؤ، گوتم نولکھا، شوما سین، رونا ولسن، مہیش راوت اور سریش دھولے کے خلاف معاملہ اس بات کا ثبوت ہے کہ پہلے سے موجود یو اے پی اے قانون ہی اپنے آپ میں کتنا جابرانہ ہے اور جس کے ذریعے بنا مقدمہ یا جرم ثابت کیے کسی آدمی کو مہینوں حراست میں رکھا جا سکتا ہے۔ اب جب اقتدار کا ان کے خلاف معاملہ آخرکار کوئی بھی ثبوت نہ ہونے کی وجہ سے ٹک نہیں پائےگا، ان کو دہشت گرد قرار دینےکی یہ نئی طاقت ان کے کام آئےگی۔کانگریس کی قیادت والی منموہن سنگھ حکومت نے 2004 میں ترمیم شدہ یو اے پی اے کو خاطر خواہ پارلیامانی جانچکے بغیر ہی عجلت میں منظور کروایا تھا اور اب نریندر مودی حکومت ان جابرانہ ترمیم کے ساتھ ایسا ہی کرنے کا منصوبہ بنا رہی ہے۔
یہ نیا قانون حکومت کو غیر متوقع اختیار دے گا اور اس بات کو طے مانیے کہ زیادہ بڑی طاقت کے ساتھ زیادہ بڑی غیر-ذمہ داری آئےگی۔ یو اے پی اے ترمیم کو تیار ہی غلط استعمال کرنے کے لئے کیا گیا ہے۔اس قانون کو لےکرجو تشویش ظاہر کی گئی ہیں، اس کے جواب میں سرکاری افسروں کی طرف سے جو کمزور سا جواب دیا گیا ہے، ان میں اس بل کو خصوصی طور پر حافظ سعید اور مسعود اظہر جیسے لوگوں کے خلاف دکھانے کی کوشش کی گئی ہے۔ یہ مکمل طور پر فریب سے بھرا جواب ہے۔
شاہ نے اپنی منشاء تب ظاہر کر دی جب انہوں نے لوک سبھا میں یہ کہا کہ ‘اربن ماؤنوازوں کے لئے کام کرنے والوں کو چھوڑا نہیں جائےگا۔ ‘ وہ لوگ کون ہیں، جن کو چھوڑا نہیں جائےگا؟
پچھلے مہینے آر ایس ایس کی ایک پروپیگنڈہ شاخ نے ایک پرچے کی اشاعت کی، جس کا عنوان تھا ‘ کون ہیں اربن نکسلی؟ ‘اس پرچے کے مطابق دہلی یونیورسٹی میں نکسل حامی ادب پڑھایا جا رہا ہے، راجستھان سینٹرل یونیورسٹی اربن ماؤنوازوں کا گڑھ بن گیا ہے، کیونکہ وہاں مزدور کسان تنظیم کمیٹی کے نکھل ڈے نے بیان دئے ہیں اور میڈیا صحافی اور کالم نگار ماؤنوازوں اور دہشت گردوں کی زبان بول رہے ہیں۔اس نئے قانون کو تیار کرنے والوں اور جو اس کا استعمال کریںگے، ان کی سوچ آر ایس ایس کے ان لوگوں جیسی ہے جو ہر بات میں سازش دیکھتے ہیں۔ اب جب یو اے پی اے کا ترمیم شدہ بل منظور ہو گیا ہے، تو یہ اس اقتدار کے ہاتھ میں ایک اور ہتھیار بن جائےگا، جو اس کی پالیسیوں کی ہر تنقید کو غیر قانونی قرار دینے پر آمادہ ہے۔
Categories: فکر و نظر