خبریں

آر ٹی آئی رپورٹ کارڈ: خالی عہدوں اور زیر التوا معاملوں سے جوجھ رہے ملک بھر‌ کے انفارمیشن کمیشن

آر ٹی آئی قانون نافذ ہونے کی 14ویں سالگرہ پر جاری کی گئی رپورٹ کے مطابق فروری 2019 میں سپریم کورٹ کی ہدایت کے بعد بھی انفارمیشن کمشنرکی وقت پر تقرری نہیں ہو رہی ہے۔ اس کی وجہ سے ملک بھر‌کے انفارمیشن کمیشن میں زیرالتوا معاملوں کی تعداد بہت تیزی سے بڑھ رہی ہے اور لوگوں کو صحیح وقت پر اطلاع نہیں مل پا رہی ہے۔

RTI-2

 

نئی دہلی: 12 اکتوبر 2019 کوآر ٹی آئی قانون کو ہندوستان میں نافذ ہوئے پورے 14 سال ہو گئے۔ اس قانون نے لاکھوں لوگوں کو جانکاری لینے اور حکومت کو جواب دہ ٹھہرانے کا حق دیا۔ ایک اندازے کے مطابق،ہرسال ملک بھر میں 40 سے 60 لاکھ آر ٹی آئی درخواست دائر کئے جاتے ہیں۔اس قانون کے ذریعے ہی اقتدار کے اعلیٰ ترین عہدوں پربیٹھے لوگوں کے فیصلے، رویے اور ان کے کام کے تعلق سے جانکاری مانگی گئی۔حالانکہ یہ قانون اس وقت کئی مسائل سے جوجھ رہا ہے۔آر ٹی آئی قانون کےتحت انفارمیشن کمیشن اعلیٰ ترین اپیلی ادارہ ہے۔کمیشن کا کام ہے کہ وہ لوگوں کےحق اطلاعات کی حفاظت کریں اور انھیں جانکاری مہیا کرائیں۔کمیشن اچھے طریقے سےکام کرے، اس کے لئے ضروری ہے کہ وقت پر انفارمیشن کمشنر کی تقرری ہو اور ان کی آزادی کو یقینی بنا جائے۔

لیکن انفارمیشن کمیشن پر تیار کئے گئے ایک حالیہ رپورٹ سے پتہ چلتا ہے کہ ملک بھر‌کے کمیشن کثیر تعداد میں زیر التوا معاملوں، انفارمیشن کمشنر کے خالی عہدوں اورآزادی اور خودمختاری کے مسئلہ سے جوجھ رہے ہیں۔آر ٹی آئی قانون کو مضبوط کرنے کی سمت میں کام کرنے والی غیرسرکاری تنظیم ایس این ایس اور سینٹر فاراکوٹی اسٹڈیز(سی ای سی)ذریعے تیارکی گئی رپورٹ ‘ہندوستان میں انفارمیشن کمیشن کے مظاہرہ پر رپورٹ کارڈ، 2018-19‘سے پتہ چلتا ہے کہ کمیشن میں زیر التوا معاملوں کی اہم وجہ انفارمیشن کمشنر کی تقرری نہ ہونا ہے۔

اس رپورٹ کے لئے آر ٹی آئی کے تحت کل 129 درخواست دائر کئے گئے تھے۔ ملک بھر‌کے تمام 29 انفارمیشن کمیشن کی ویب سائٹوں کا تجزیہ بھی کیا گیا کہ کیا وہ اپڈیٹیڈجانکاری دے رہے ہیں یا نہیں۔

آر ٹی آئی قانون کی خلاف ورزی کرنے پر کمیشن کے ذریعے سزا یافتہ معاملے۔

آر ٹی آئی قانون کی خلاف ورزی کرنے پر کمیشن کے ذریعے سزا یافتہ معاملے۔

اس رپورٹ میں ہندوستان کے تمام 29 کمیشن کے مظاہرے اور ان کے ذریعے درج کی گئی شکایتوں اور شکایتوں کی تعداد، زیر التوا معاملوں کی تعداد، اپیل/شکایت کو مکمل کرنے میں لگا وقت، آر ٹی آئی قانون کی خلاف ورزی کرنے پر کمیشن ذریعے سزا یافتہ معاملے اور ان کے کام میں شفافیت کے تعلق سے جانکاری دی گئی ہے۔

رپورٹ کے اہم نتائج کچھ اس طرح ہیں:

انفارمیشن کمیشن میں خالی عہدے

 رپورٹ میں بتایا گیا کہ ملک کے کئی انفارمیشن کمیشن بالکل کام نہیں کر رہےہیں یا پھر بےحد کم صلاحیت پر کام کر رہے ہیں کیونکہ چیف انفارمیشن کمشنر سمیت انفارمیشن کمشنر کے کئی عہدے خالی ہیں۔ اس رپورٹ کی اشاعت کے دوران تریپورہ کاریاستی انفارمیشن کمیشن مئی 2019 سے کام نہیں کررہا تھا۔ اس کے علاوہ آندھرا پردیش کا انفارمیشن کمیشن تقریباً17 مہینے تک (مئی 2017 سے اکتوبر تک)بند پڑا ہوا تھا۔وہیں تمل ناڈو، آندھرا پردیش اور راجستھان کے انفارمیشن کمیشن بنا چیف انفارمیشن کمشنر کے کام کر رہے تھے۔ دسمبر 2018 میں سینٹرل انفارمیشن کمیشن (سی آئی سی)صرف تین انفارمیشن کمشنر کے ساتھ کام کر رہا تھا اور یہاں پر سینٹرل  انفارمیشن کمشنر سمیت انفارمیشن کمشنر کے کل آٹھ عہدےخالی تھے۔

فی الحال سی آئی سی میں چار خالی عہدے ہیں جبکہ زیر التوا معاملوں کی تعداد ہر مہینے بڑھ رہی ہے اور اس وقت ایسے معاملوں کی تعداد 33000 سے بھی زیادہ ہے۔ مہاراشٹر کےریاستی انفارمیشن کمیشن2019 کی شروعات سےہی صرف پانچ انفارمیشن کمشنر کے ساتھ کام کر رہا ہے، جبکہ یہاں 31 مارچ 2019 تک 46000 اپیل اور شکایتں زیر التوا تھیں۔اسی طرح اڑیسہ کا ریاستی انفارمیشن کمیشن صرف تین انفارمیشن کمشنر کے ساتھ کام کر رہا ہے جبکہ 31 مارچ 2019 تک یہاں11500 سے زیادہ اپیل اور شکایتں زیر التوا تھیں۔

انفارمیشن کمیشن میں زیر التوا اپیل/شکایتوں کی کثرت:

ملک بھر‌کے انفارمیشن کمیشن میں زیر التوا معاملوں کی تعداد بےحد چونکانےوالی اور تشویشناک ہے۔ رپورٹ کے مطابق ملک بھر‌کے 26 انفارمیشن کمیشن میں31 مارچ 2019 تک کل 218347 معاملے زیر التوا تھے۔

 ملک بھر‌کے انفارمیشن کمیشن میں زیر التوا معاملوں کی تعداد

ملک بھر‌کے انفارمیشن کمیشن میں زیر التوا معاملوں کی تعداد

 سب سے زیادہ اتر پردیش میں52326 اپیل/شکایتں زیر التوا تھیں۔ وہیں دوسرے نمبر پر مہاراشٹر ہے جہاں 45796 معاملے زیر التوا ہیں۔اس کے بعدسینٹرل انفارمیشن کمیشن کا نمبر آتا ہے جہاں اس طرح کے 29995 معاملے زیر التوا ہیں۔ ان تین کمیشن کے تقابلی اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ 31 مارچ 2018 اور 31 مارچ، 2019 کے درمیان زیر التوا معاملوں کی تعداد 20 فیصدی بڑھ گئی ہے۔ بہار، کرناٹک اور اتراکھنڈ کےانفارمیشن کمیشن نے اس تعلق سے آر ٹی آئی کے تحت جانکاری نہیں مہیا کرائی۔ یہ جانکاری ان کی ویب سائٹ پر بھی دستیاب نہیں تھی۔

اپیل اور شکایتوں کے حل میں لگ رہا بہت زیادہ وقت :

انفارمیشن کمیشن میں زیر التوا معاملوں کی وجہ سے اطلاع مانگنے والوں کواپنی اپیل اور شکایتوں کی سماعت کے لئے کئی مہینوں اور یہاں تک کہ سالوں انتظارکرنا پڑتا ہے۔ رپورٹ کے مطابق عالم یہ ہے کہ آندھر پردیش کے انفارمیشن کمیشن میں کسی معاملے کی سماعت کے لئے سب سے زیادہ 18 سالوں کا انتظار کرنا پڑ سکتا ہے۔

زیر التوا معاملوں کو نپٹانے میں لگ رہا وقت

زیر التوا معاملوں کو نپٹانے میں لگ رہا وقت

 اس کے بعد دوسرا نمبرمغربی بنگال کا آتا ہے جہاں اگر آج آپ اپیل یا شکایت دائر کرتے ہیں تو اس کی سماعت کا نمبر سات سال اور پانچ مہینے بعد آئے‌گا۔ اڑیسہ کا بھی حال کچھ ایسا ہی ہے۔ یہاں کسی اپیل یا شکایت کی سماعت میں چار سال اور تین مہینوں کا وقت لگتا ہے۔سینٹرل انفارمیشن کمیشن میں کسی معاملے کو نپٹانے میں ایک سال سات مہینے کاوقت لگ رہا ہے۔ اس سے پہلے 2017 میں اس کے لئے 10 مہینے کا وقت لگتا تھا۔

انفارمیشن کمیشن کے کام کاج میں شفافیت کی حالت:

 اس رپورٹ کے لئے انفارمیشن کمیشن میں شفافیت کی حالت کا اندازہ ان کے ذریعےآر ٹی آئی کے تحت دئے گئے جواب کی بنیاد پر کیا گیا ہے۔ یہ بھی دیکھا گیا کہ کیاوہ آر ٹی آئی قانون کے تحت صحیح وقت پر سالانہ رپورٹ کی اشاعت کرتے ہیں یا نہیں۔

Screen-Shot-2019-10-13-at-12.51.16-PM

اس کام کے لئے کل 129 آر ٹی آئی درخواست دائر کئے گئے تھے۔ لیکن 129 میں سے صرف 12 درخواست پر ہی پورا جواب حاصل ہوا۔ آرٹی آئی  کارکنان کا کہنا ہے کہ جس انفارمیشن کمیشن کو ذمہ داری دی گئی ہے کہ وہ اطلاع مہیا کرواکر شفافیت کو یقینی بنائیں‌گے لیکن وہی کمیشن اپنے یہاں شفافیت نہیں اپنا رہے ہیں۔